افسانچے راجہ یوسف

خالی پیٹ
غریب مزدور پر ظلم ڈھا رہے ہو اور یہ بے چارہ خاموشی سے تمہارا ہر ستم کہہ رہا ہے۔۔۔ برداشت کررہا ہے۔تم دکھ پہ دکھ دیئے جارہے ہو اوریہ تمہارے سامنے احتجاج بھی نہیں کرتا ۔ تم سمجھ رہے ہو کہ یہ منہ میں زبان ہی نہیں رکھتا ۔۔۔ اس کے بازو شل ہیں۔اس لئے ہاتھ نہیں اٹھا تا ۔۔۔ اس کے ناتواں کندھوں پر بوجھ کے اوپر بوجھ ڈالتے جا رہے ہو اوریہ سمجھتے ہو کہ اسے درد ہی نہیں ہوتا ۔
ستم کی بھی حدہوتی ہے ، یہ غربت کے دلدل میں پھنسا ہے اور تم اس کواور دبا رہے ہو اور ڈبورہے ہو ۔ دس بائی بارہ فٹ کھولی میں ٹھونسے ہوئے یا سیلن زدہ کرائے کے کمرے میں قیدیوں کی طرح زندگی گذارنے پر مجبور یہ آدمی کیسے زندہ ہے ، وہ سب تم اچھی طرح سے جانتے ہو۔۔۔ ایک کونے میں پڑی اس کی خارش زدہ ماں کسمسا رہی ہے۔۔۔ برآمدے میں کھانستا باپ ہانپ رہا ہے۔۔۔ ٹاٹ سے لپٹے باتھ روم میں ٹوٹی ٹونٹی ہاتھ میں لئے اس کی بیوی ننگی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا کے مصداق ڈر ڈر کرجسم کا ایک حصہ چھپا کر دوسرا حصہ دھورہی ہے۔۔۔ اس کے بچے بھوک سے بلک رہے ہیں، یاس اور ناامیدی سے دروازے پر نظریں لگائے بیٹھے ہیں۔۔۔ اور یہ گھر کااکیلا کمائو آدمی، جوچہرے سے ہی کمزور اور لاغردکھ رہا ہے، یہ دن بھر غریبی کے تانے سنتے سنتے، دھونس دبائو اور گالیاں کھاکھا کے اپنے خون پسینے میں تر گھر لوٹ رہا ہے۔ جیب میں ماں کی خارش کے لئے تیل کی چھوٹی بوتل، باپ کے لئے سستا تمباکو، بچوں کے لئے دو الگ الگ پیروں کے چپل، ایک تھیلی میں آٹا سبزی اورچڑھی آستین کے اندر چھپائے اپنی آسودگی کا ایک کنڈیوم ۔۔۔ یہ ہے ایک غریب کی زندگی جس کے ذمہ دار تم ہو۔۔۔ صرف تم ۔
اب چپ نہیں رہوں گا۔ ا ٓج اس کے سامنے جاتے ہی یہ سب کہہ دوں گا۔ وہ یہ فیصلہ کرکے ایک عزم کے ساتھ اس کے سامنے جا کر کھڑا ہوگیا ۔ ۔۔۔۔ لیکن ایک لمحہ کے ہزارویں حصے میں اس کے سارے منتشر خیالات اُڑن چھو ہوگئے ۔۔۔ وہ بڑی عاجزی کے ساتھ سجدے میں گر گیا اور گڑگڑانے لگا۔
ـ’’ میرے مولیٰ میرا کہا سنا معاف فرما۔ تم تو جانتے ہو خالی پیٹ انسان کیا کیا نہیں سوچتا۔ جو کچھ سوچتا ہے وہ برا ہی سوچتا ہے۔ پر تم تو دلوں کے بھید جاننے والے ہو۔ اور بڑے معاف فرمانے والے ہو۔ مجھے بھی معاف فرما ۔ ‘‘

خودکفیل
سورج کول تارکی سڑک پر آگ کے تھپیڑے برسا رہا تھا اور چکنے کول تار سے دھویں کے بھبکے اٹھ رہے تھے۔۔۔ اُس کی دھنسی ہوئی آنکھیں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر کا طواف کر رہی تھیں ۔۔۔ کالے اور کھردرے ہاتھ بڑی تیزی سے گندگی کے ڈھیر کو کھرچ رہے تھے ۔۔۔ سیاہ جلد پر پسینے کے قطرے سورج کی تمازت سے چمک رہے تھے ۔
دور شہر کے مشہورا سٹیڈیم میں یوم آزادی کی تقریبات کی ابتداء ہوچکی تھی اور لاوڈسپیکر پر ایک نامور سیاسی رہنما کے الفاظ عوام کے کانوں میں رس گھول رہے تھے۔
ـ’’بڑی کٹھنائیوں کے بعدہم ایٹم بم بنانے میں سپھل ہوگئے ہیں‘‘
اُس کی دھنسی ہوئی آنکھوں میں اچانک چمک پیدا ہوئی۔۔ ۔ لوہے، تانبے اور پیتل کے کئی چھوٹے چھوٹے ٹکڑے۔۔۔ اُس نے پسینہ پونچھا اور چمکیلی سڑک کو پیروں کی نمی سے تر کرتا ہوا کباڑی کی دکان پر پہنچا ۔۔۔ پانچ روپئے کا نوٹ حاصل کرتے ہوئے اُسے محسوس ہو رہا تھا جیسے اُس نے بڑی کٹھنائیوں کے بعدایٹم بم بنانے میں سپھلتا پراپت کی ہو ۔
جب بازار سے دو روٹیاں خریدنے کے بعد واپس اپنی جگہ پر پہنچ گیا تو لائوڈسپیکر کی مانوس آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی ۔۔۔
’’اب ہمارے دیش میں روٹی کا مسئلہ ہے نہ کپڑے کااور نہ مکان کا۔ اب ہم خودکفیل ہیں‘‘
اور و ہ جھلسا دینے والی دھوپ سے بچنے کے لئے مین ہول میں گھس گیا ۔

یوم مزدور
’’ رحیمو ۔۔۔ تم ابھی تک یہیں بیٹھے ہو ۔ ٹائون ہال نہیں چلنا؟‘‘
’’ ٹاون ہال ۔۔۔ کس لئے ؟ ‘‘
’’ کیا ہوگیا تم کو ۔۔۔ تیری یاداشت ختم ہوگئی کیا۔ آج ہمارا دن ہے۔ مزدوروں کا دن ۔ فسٹ مئی۔‘‘
’’ مجھے نہیں جانا کسی فسٹ وسٹ میں۔‘‘
’’ ارے ۔۔۔ کیسی بات کرتا ہے۔ یہ ہمارا دن ہے۔ اور ہمیں ضروری جانا ہے۔‘‘
’’ لیکن میں تو اب مزدور نہیں ہوں ۔ میں کیوں جائوں۔‘‘
’’ سنو رحیمو ۔ مزدور کا چاہے ہاتھ کٹے یا پیر ۔ وہ تب تک مزدور ہی رہتا ہے جب تک اس کی گردن نہ کٹ جائے۔‘‘
’’ گردن کٹنے سے ایک ہی آدمی کی موت ہوتی ہے جمال بھائی ۔ میرے ہاتھ کٹنے سے میرا سارا گھر پریوار مر رہا ہے ۔ سیٹھ سلام کے کارخانے میں میرا ہاتھ کٹ گیا اور اسی نے مجھے دھکے دے کر کارخانے سے یہ کہہ کر نکلوا دیاکہ اب میں کسی کام کے لائق نہیں رہا اور تم پیش پیش تھے۔ کتنے دن سے ہمارے گھر میں چولہا نہیں جلا۔ میری رجو میری کمائی سیٹھیانی کی طرح خرچ کرتی تھی اور حاجت مندوں کو دیتے دیتے اس کے ہاتھ نہیں تھکتے تھے ۔ لیکن آج وہی ہاتھ اور وںکے سامنے پھیلا پھیلا کر شل ہورہے ہیں ۔ بھیک مانگ مانگ کر ہمارے بچوں اور مجھ اپاہچ کو پال رہی ہے۔‘‘
’’ تم چلو میرے ساتھ آج وہیں بات کریں گے۔آج دن ہمارا ہے اور بات بھی ہماری ہوگی۔ ‘‘
آخر رحیمو کی جمال کے سامنے ایک نہ چلی اور وہ اس کے ساتھ ٹاون ہال پہنچ گیا۔ ٹائون ہال کھچا کھچ بھرا تھا اور یہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ کوٹ اور ٹائی پہنے کوئی صاحب مائیک پر نعرے دے رہا تھا اور مزور ہاتھ اٹھا اٹھا کرجواب دے رہے تھے۔ رحیمو کو بیٹھنے کے لئے جگہ نہیں مل رہی تھی۔ وہ بڑی مشکل سے ایک کونے میں کھڑا ہوا ہی تھا کہ جمال نے اس کی قیض کھیچی اور و ہ دھب سے دیوار کے ساتھ رگڑتا ہوا زمیں پر بیٹھ گیا۔ اب اسے ا سٹیج تو نہیں دکھ رہا تھا لیکن ا سٹیج پر جتنے سوٹ والے لوگ کرسیوں اور صوفوں پر بیٹھے تھے ان میںاس شخص کو پہچان لیا تھا جس نے ہاتھ کٹتے ہی اس کو دھکے دے کر اپنے کارخانے سے نکلوا دیا تھا۔ وہ سیٹھ سلام تھا جوا سٹیج کی سب سے اونچی کرسی پر براجمان تھا۔ شاید اسے دیکھ کر ہی جمال جلدی بیٹھ گیا تھا اوراب سر جھکا ئے منہ چھپا رہا تھا۔

کرونا
نربھایا کیس میں ملوث ملزموں کی پھانسی کے بعد اگرچہ کئی دنوں تک حالات پرامن رہے لیکن رفتہ رفتہ ڈر اور خوف کا ماحول ماند پڑنے لگا۔ نئے شکاری شکار کی طاق میں بیٹھے رہتے اور ایسا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جو ان کو مل جاتا تھا۔
ننسی کام والی بائی جوزی کی جوان بیٹی تھی۔ اس کی ماں نزدیکی کالونی کے ایک گھر میں کام کیا کرتی تھی۔ اس گھر میں عمررسیدہ میاں بیوی رہتے تھے، جن کابیٹا اور بہو صرف اتوار کو ہی ان سے ملنے آتے رہتے۔ جوزی کچھ دنوں سے بیمار تھی۔ اس لئے ماں کے بدلے بیٹی کام پر جا رہی تھی۔
اتوار تھی اورسرکار کی طرف سے احتیاطی تدبیر اپنانے کے احکامات کے پیش نظرپورا دیش کرونا وائرس کی وجہ سے بند پڑا تھا۔ اس دن نہ بزرگ لوگوں کا بیٹا آیا اورنہ بہو، بلکہ اسے ہدایت دی گئی تھی کہ وہ آج اتوار کو بھی کام پر آجائے۔
شام کو گھر جاتے وقت اسے نہ کوئی گاڑی ملی نہ ہی کوئی آٹو رکشا۔ اس لئے پیدل ہی گھر کی طرف چلنے لگی۔ وہ خوفزدہ تھی اور تیز تیز قدم اٹھا ئے جارہی تھی۔ راستے میں اکا دکا لوگ ہی دکھائی دے رہے تھے۔ اسے تو بس اپنے محلے کے رہنے والے کلو اور اس کے تین دوستوں کا ڈر لگا رہتاتھا، جو ا سے دیکھتے ہی اناپ شناپ بولتے رہتے اوراسے اکیلا دیکھ کر اڑا لیجانے کے طاق میں رہتے تھے۔ ایک دو بار وہ کوشش بھی کر چکے تھے۔ لیکن ناکام رہے۔
لوگ گھروں میں بند ہوگئے تھے۔لیکن کلو آج بھی اپنے دو موالی دوستوں کے ساتھ ننسی کی تاک میں بیٹھا تھا۔ وہ جونہی گلی میں پہنچی ان تینوں نے اسے دبوچ لیا اور قریب ہی ایک ویران گھر کے اندر لے گئے۔ اپنے دو دوستوں کو رکنے کا اشارہ کرکے کلو ننسی کو دوسرے کمرے میں لے کر گیا۔ لیکن صرف دو منٹ سے کم وقفے میں کلو بھاگتے ہوئے کمرے سے نکل گیا۔
اس کے دونوں ساتھی ہکا بکا ہوکر رہ گئے۔ وہ موبائل کی ٹارچ جلا کر کمرے کی طرف گئے تو خوف سے چیخ پڑے۔ ننسی دونوں ہاتھ منہ پر رکھ کر بری طرح سے کھانس رہی تھی۔

انسانیت
سوشل سائیٹس پر ایک بچے کی تصویر دھڑا دھڑ شئیر ہورہی تھی۔ جس کے ساتھ پولیس کی جانب سے اطلاع عام کی نوٹس بھی لگی تھی۔
”پولیس کو 4سال کا بچہ ملا ہے جو اپنے والدین کا نام اور گھر کا پتہ نہیں بتا پا رہا ہے۔ اگر کوئی اس بچے کو پہچانتا ہے تو ان فون نمبرات پر اطلاع کریں یا پولیس اسٹیشن آکر رابطہ قائم کریں۔ ”
صرف ایک گھنٹے کے اندر اندر پولیس کے سامنے بچے کے چار دعوے دار پہنچ چکے تھے۔
لیکن ان میں سے بچے نے کسی ایک کو بھی نہیں پہچانا۔

 

اسلا م آباد،اننت ناگ، کشمیر
موبائل نمبر؛9419734234