اعلیٰ تعلیم کے حصول کا مسئلہ روئیداد

رخسار کاظمی۔پونچھ
ہم ترقی، خواتین کو بااختیار بنانے، روزگار کی فراہمی، معاشی ترقی وغیرہ کی باتیں توکرتے ہیں، لیکن کیا واقعی ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہیں؟ اگربیشترقصبوں، گاؤں اور چھوٹے چھوٹےشہروںکی حالت میں کوئی تبدیلی نہ آئے،زندگی گذارنے کے لئےسہولیات مہیا نہ ہوجائیںاورمعیاری ٰ تعلیم کا کوئی بندوبست نہ ہوجائےتو ترقی کے دعوے صحیح ہوسکتے ہیں؟ تعلیم ترقی کا سب سے اہم پہلو ہے۔ ملک کے بیشتر حصوں میں چھوٹے چھوٹے اسکول قائم ہیں لیکن کیا یہ قوم اور فرد کی حقیقی ترقی کے لیے کافی ہیں؟ اعلیٰ تعلیم ہر شخص کا حق ہے،لیکن ہر قصبے میں ایسے تعلیمی اداروں کی عدم موجودگی بدستور قائم ہے۔میرا تعلق پونچھ قصبے سے ہے، جسے منی کشمیر بھی کہا جاتا ہےاور جو بے پناہ قدرتی حُسن، شاندار ذہن ،پُرعزم وپُرجوش نوجوان نسل کی پناہ گاہ ہے۔ یہاں کے لوگ زیادہ تر قدامت پسند ہیں جو مسلسل معاشرے کے مقرر کردہ اصولوں کی پابندی کرتے ہیں۔یہاں انڈر گریجویٹ سطح تک کا تعلیمی نظام بہت اچھا ہے۔لیکن اعلیٰ تعلیمی ادارے نابود ہیں۔چونکہ یہاں بہت سی طالبات کو گھروں سے دور جانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس لیے اس علاقے میں اعلیٰ تعلیمی ادارے نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر خواتین کی اعلیٰ تعلیم کا حصول رُک جاتا ہے۔ یہاں کے لوگ یا تو مزدور ہیں، لوئر مڈل کلاس یا مڈل کلاس ہیں۔ان کی آمدنی محدود ہے پھر بھی بچوںکو تعلیم دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔لیکن اتنی مالی قوت بھی نہیں ہے کہ اپنے بچوں کو پونچھ سے باہر رکھ کر پڑھا سکیں۔

 

میں بذاتِ خود گریجویشن کے آخری سمسٹر میں ہوں اور میری اعلیٰ تعلیم کے لیے اچھے کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تلاش شروع ہو گی ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے مجھے اپنا گھر چھوڑ کر کہیں اور آباد ہونا پڑیگا کیونکہ پونچھ میں ابھی تک اعلیٰ تعلیم کے لیے کوئی ادارہ نہیں ہے۔ میرا خواب ایم اے کرنا ہے۔ اسی طرح میرے اردگرد بہت سی لڑکیوں کا بھی یہی خواب ہے۔ لیکن میرے اپنے شہر میں کسی بھی ماسٹرز کالج کا موجود نہ ہونا یقیناً بہت سی نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کی کامیابی کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنی ہے۔ دیہی علاقوں کی وہی لڑکیاں اور لڑکے اچھی تعلیم کے حصول کے لیے قریبی شہروں کا رُخ کرتے ہیں۔جو مالی اخراجات برداشت کر سکتے ہیں۔جبکہ محدود آمدن والے گھرانوں کے بچوں کی تعلیم ادھوری رہ جاتی ہے۔ میرے شہر پونچھ میں کوئی ماسٹرز کالج نہیں ہے۔اس لیے دیہی علاقوں میں رہنے والے بہت سارےلوگوںکو اعلیٰ تعلیم کی رسائی حاصل نہیں ہوپارہی ہے۔ اس لیے اُنہیں اپنے مطلوبہ شعبوں میں کیریئر بنانے کی خواہش ختم ہو جاتی ہے۔

 

میرے ایک ہم جماعت کا نام آیان ہے، جس کے والد ایک مزدور ہیں، ہونہار طالب علم ہونے کے باوجود اس کے لیے اعلیٰ تعلیم کاحصول ممکن نہیں ہے اور موجودہ حالات میں اس کی پروفیسر بننے کی خواہش دَم توڑرہی ہے۔ اگر ہمارے اپنے شہر میں، ہمارے اپنے ضلع میں ماسٹرز کے لیے ایک اچھا کالج ہوتا تو ایسے ہونہار نوجوانوں کے خواب ،محض خواب ثابت نہیں ہوتے۔ میری ایک دوست روزی ہے جو کہ ایک ذہین طالبہ تھی، نے درد بھرے لہجے میںکہا کہاگر ہمارے یہاں اعلیٰ تعلیمی ادراہ ہوتا تو مجھے اپنی تعلیم ادھوری نہ چھوڑنا پڑتی۔ اس کے والدین اُسےاپنے شہر سے دور بھیجنےکوغیر محفوظ قرار دیتے ہیں۔ روزی اور ایان صرف دو لوگ ہی نہیں ہیں جن کی ایک جیسی ہی کہانی ہے۔بلکہ بہت سے دوسرےطلبا و طالبات اسی درد سے گزرتے ہیں اور ان کے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں۔

 

اگر ہمارے آبائی شہر پونچھ میں اعلیٰ تعلیم کا کوئی انسٹی ٹیوٹ (ماسٹرز کالج) ہوتا تو بہت سےلوگوں کے خواب پورےہو سکتے تھے، معاشی ترقی اور روزگار کے مواقع میں اضافہ بھی دیکھا جا سکتا تھا۔قریب 476977 کی آبادی کے ساتھ ایک چھوٹے سے شہر میں ماسٹرز کالج کے قیام کی وجہ سے دیہی علاقوں کے افراد کے لیے اعلیٰ تعلیم تک رسائی فراہم کی جا سکتی ہے۔ ظاہر ہےان لوگوں کے پاس اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بڑے شہروں میں جانے کے ذرائع نہیں ہیں۔ ہمارے قصبے میں ماسٹرز کالج کی موجودگی معاشی ترقی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ ہمارے قصبے میں ماسٹرز کالج کی موجودگی علاقے میں ملازمت کے مواقع بھی فراہم کر سکتی ہے جیسے کہ تدریسی عہدوں اور انتظامی کردار، اس سے علاقے میں باصلاحیت افراد کو رکھنے اور مقامی باشندوں کے لیے روزگار کا ذریعہ فراہم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ان تمام نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہماری ریاستی انتظامیہ سے درخواست ہے کہ وہ پونچھ شہر کی تعلیمی اور معاشی میدان میں ترقی کے بارے میںسنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ ماسٹرز کالج یہاں کے نوجوانوں کی ضرورت ہے، لہٰذا اس کے قیام کے طرف اقدامات سب کے لئے راحت جان اور قابل تعریف ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔