اشکوں کا سیلاب اور ہمارا طرزِ زندگی فکر و فہم

سید بشارت گیلانی۔بارہمولہ

جذباتی ہونے کے لئے کسی بڑے صدمے یا کسی نقصان کا ہونا ضروری نہیں ہے۔بعض اوقات انسان ہلکی اور چھوٹی سی باتوں سے اس قدر ٹوٹ جاتا ہے، اتنا جذباتی ہو جاتا ہے کہ اپنے پلکوں کے دامن میں چھپے اشکوں کے سیلاب کو نہیں روک پاتا، اشکوں کا وہ سیلاب پلکوں کے باندھ توڑ کر آپ کے رخسار کی زینت بن جاتے ہیں،سیلاب بھی ایسا کہ جس کے ساتھ حقیقت اور سچائی پر مبنی جذبات شامل ہوتے ہیں، ایسے رونے سے انسان خود کو ہلکا اور زنداں سے نجات پانے جیسی لذت محسوس کرتا ہےاور کبھی تو ایسا عجیب معاملہ درپیش آتا ہے کہ انسان کو معلوم ہی نہیں ہوتا ہے کہ وہ کیوں اشکبار ہے۔لیکن گہرائی سے انسانی نفسیات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ایسا اسلئے ہوتا ہے یا تو ماضی میں انسان کسی صدمے سے روبرو ہوا ہوتا ہے یا حال میں کسی جذباتی کیفیت میں مبتلا ہوتا ہے یا پھر مستقبل میں پیش آنے والے کسی حادثے کے خدشے سے بے قرار ہوجاتا ہے۔اسی طرح ماضی میں کسی خوشی سے روبرو ہونے، حال میں کسی خوشی کی قید میں یا مستقبل میں کسی خوشی کی نوید میں انسان اشکبار ہو جاتا ہے۔
میں بھی انہی پاکیزہ جذبات سے بے قابو ہونے والے اشکوں کے سیلاب کی صورتحال بیان کرنے والا ہوں اور اس واقعے کا تعلق میری ذات سے ہے،لہٰذا جو میں نے محسوس کیا، وہ شاید آپ محسوس نہ کر پائیں،کیونکہ کائنات کے حسن کو دوبالا کرنے کا جو منفرد نظام خالقِ کائنات نے تشکیل دیا ہے وہ معجزوں، کراماتوں اور حکمتوں سے لبریز ہے۔وہ یہ کہ ہر انسان کو ایک بہترین ساخت پر قائم کیا گیا اور ہر انسان کی اپنی پسند و ناپسند دے کر خلق کیاگیا ہے،ہر کسی کا اپنا نظریہ ہے لہٰذا ضروری نہیں جس سے میں جذباتی ہوجاؤں، اس سے ہر انسان جذباتی ہو۔
ہماری طرز زندگی اور بکروالوں کی طرز زندگی میں آسمان اور زمین کا فرق ہے۔ہم زمین کے کسی ایک ٹکڑے سے وابستہ ہو کر ایک تہذیب، تمدن اور ثقافت سے جڑے رہتے ہیں جبکہ وہ ایک ہی زمین کے ٹکڑے پر جامد ہو کر نہیں رہتے، بلکہ وہ کبھی کشمیر کے پہاڑوں میں آباد نظر آئیں گے تو کبھی راجوری اور جموں کے پہاڑوں کی زینت بنے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔اگرچہ ان کی بھی اپنی تہذیب، تمدن اور ثقافت ہے لیکن وہ اس اعلیٰ درجے کی نہیں سمجھی جاتی جو درجہ ہماری تہذیب کو حاصل ہے۔ایک چیز ہم میں مشترک معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ انسان وہ بھی ہیں اور ہم بھی، جس ہوا میں ہم سانس لے رہے ہیں وہ بھی اسی ہوا کا استعمال کرتے ہیں، جس طرح ہم ستر پوشی کرتے ہیں اسی طرح کا مزاج وہ بھی رکھتے ہیں، جیسے ہم بھوک، پیاس، تھکان اور درد محسوس کرتے ہیں اسی طرح وہ بھی ان چیزوں سے مانوس ہیں۔پھر یہ بھی کہ جیسے ہمارا وجود سپرد خاک ہو جاتا ہے وہ بھی اسی خاک میں مل کر کیڑے مکوڑوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔فرق یہ ہے کہ ہم جمود کے قائل ہیں، وہ اس سے عاری ہیں۔ ہم فیشن، سٹیٹس، رتبہ، نصب، نسل، رنگ، ذات کو اہمیت دیتے ہیں جبکہ یہ کسی درجے میں ان انعامات سے محروم ہیں۔ہمارے ہاں ان سب چیزوں کو دیکھ کر ہی زندگی گزاری جاتی ہے اور اس طرح ان کی اہمیت گردانی جاتی ہے جیسے ہوا، پانی اور خوراک کے بغیر زندگی محال ہے۔ان کے ہاں ان سب چیزوں کی اہمیت نا کے برابر ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم ہر زمانے سے ہم آہنگ ہو کر زندگی جیتے ہیں، ہم ترقی کے عروج پر ہیں، ہم چاند پر جا بسنے کے خواب ہر روز پروتے ہیں اور اپنی اس تہذیب کو وہاں بھی انہی بنیادوں پر استوار رکھنا چاہتے ہیں جن پر کہ اتنی ترقی کے بعد پہنچے ہیں۔ان کے لئے چاند محض راتوں کو ایک چراغ کی حیثیت رکھتا ہے جس سے کہ انہیں اپنے آشیانوں اور چوپائیوں کی نگرانی میں کسی درجے میں آسانی میسر ہوتی ہے۔
مِینا نامی بکروال بچی سے کچھ مہینے قبل ملاقات ہوئی ،گرد آلود چہرہ جو کسی بنجر کھیت کی مانند تھا، موٹی موٹی آنکھیں سالوں کی داستان بیان کر رہی تھیں، بکھری پڑی زلفیں ویران ریگستان کی یاد دلاتی تھیں، پھٹے پرانے میلے کپڑے زیب تن کئے اجڑی زندگی کا شاخسانہ بنے ہوئے تھے، ٹخنوں سے اوپر پاجامہ پائل کی جگہ کالا دھاگہ باندھے، کمزور جسامت لئے ایک بوجھ تلے دبی ہوئی معصوم بچی کاندھوں پر گرد آلود بستہ لادے بکریوں کو چراتی ہوئی زبان سے ’’ہُر ہُر ہُر‘‘، ’’ہُش ہُش ‘‘اور ’’چھیہ چھیہ‘‘جیسی مختلف آوازیں نکالتی ہوئی ان کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی ،میں میرے احباب کے ساتھ محو سفر تھا۔
ایک درخت کے سائے میں چند پل کے لئے آرام کے لئے لیٹے تب تک وہ بچی بھی وہاں آن پہنچی، اب کی بار اس کی چال تھوڑی سست تھی، میں سمجھ چکا تھا کہ انتہائی مشقت کے بعد اب یہ تھکان سے چُور ہو چکی ہے۔ میراذہن ایک پل کے لئے بھی اس کے بستے کی طرف مبذول نہ ہوا وہ اسلئے کہ میں سمجھا تھا کہ اس میں کھانے پینے کی اشیاء ہونگی لیکن نہ جانے کیوں پھر بھی متجسس تھا۔آخر کار اس پانچ چھ سالہ بچی نے نہ جانے کیا سوچ کر ہمارے قریب ہی بیٹھنے کا فیصلہ کیا، ساتھ ہی بستے کو کھولنے کی کوشش کی، جس میں’’’زِپ ‘‘کٹی ہوئی تھی۔ اب اس نے ایک چھوٹی سے رسی سے اسے باندھ دیا تھا کھولنے کے بعد اس میں سے ایک خشک روٹی ساتھ میں دودھ کی بوتل نکالی اور اسے تناول کرنے لگی ۔ہم ”چپس” اور ”کولڈ ڑرنک” سے سیر ہو رہے تھے۔ہم چپس اور کولڈ ڑرنک سے اپنے رتبے کی پہچان کرا رہے تھے اور وہ اس سوکھی روٹی اور دودھ کی بوتل سے اپنی بے چارگی کا ثبوت دے رہی تھی ۔ہاں یہ بات الگ ہے کہ صحت کی تندرستی کے اعتبار سے وہ صحیح تھی اور ہم غلط۔
کچھ لمحوں کے بعد ہی اس بستے میں سے ایک کاپی اور قلم نکلا اور وہ قلم بھی ایسا جو اپنی مفلسی کو بیان کر رہا تھا اور کاپی اپنی شکستوں کی کہانی بیان کر رہی تھی ۔لم کا اوپری سرا چبایا ہوا، کاپی کے ورق پیٹھے ہوئے ہوا میں جھول رہے اپنی بے بسی بیان کر رہے تھے۔کسی طرح اس نے اس کاپی کو سنبھال لیا اور قلم بھی اس کے گرد آلود ننھے ہاتھوں کے شکنجے میں آپھنسا تھا،بس پھر کیا تھا قلم کو جنبش دیتے ہوئے وہ کچھ لکیریں جیسی کھینچنے لگی ۔میرے دل نے چاہا قریب جا کر کے دیکھوں کہ جنگلوں کے بیچوں بیچ نہ اسکول، نہ کالج، نہ یونیورسٹی، نہ کتابیں اور نہ ہی قلم، نہ دکان نہ کوئی اور آسایش اور تعلیم کا ذریعہ ۔کوسوں دور اس بے آب و گیاہ میں کیا لکھ رہی ہے،ذرا قریب ہوا تو دیکھا نہ عبرانی، نہ عربی، نہ فارسی اور نہ ہی انگریزی زبان کے وہ الفاظ تھے۔مجھے بس چند لکیریں نظر آ رہی تھیں جو کچھ دیر قبل اس نے کھینچی تھیں اور کچھ نئی جو وہ کھینچ رہی تھی ۔میرے علم کے مطابق وہ کوئی زبان نہیں تھی مگر اس کے بقول وہ بے شک ایک زبان تھی، ایسی زبان جس تک صرف اس کی رسائی تھی، جو صرف وہ سمجھ سکتی تھی، جس پر اسی کی قدرت تھی باقی کوئی اتنا تعلیم یافتہ نہ تھا جو اسے پڑھ پاتا، سمجھ پاتا، مجھ میں شوق پیدا ہوا اور میں نے اپنی زبان کو حرکت دی وہ چونک گئی۔
’’بیٹا! ڈرو مت، مجھے بتاؤ آپ کیا لکھ رہی ہو؟ ‘‘۔’’کچھ نہیں‘‘۔اس نے سہم کر کہا ۔’’پڑھنے کا شوق ہے؟‘‘ ۔’’ہاں لیکن….‘‘۔’’لیکن کیا؟‘‘۔’’میں نہیں پڑھ سکتی؟ ‘‘۔’’کیوں؟‘‘۔’’بس ہم یہیں رہتے ہیں جنگل میں، یہاں کوئی اسکول نہیں‘‘۔’’پھر یہ قلم اور یہ کاپی…؟‘‘۔’’میں جب بڑی ہو جاؤں گی نا تو اسے پڑھوں گی کہ میں نے کہاں کہاں سے بکریاں چرائی تھیں‘‘۔۔’’بچے یہ لکیریں آپ کو سمجھ آرہی ہیں کیا لکھا ہے؟‘‘۔’’ہاں میں نے ہی تو لکھا ہے سمجھ کیوں نہیں آئیں گی۔‘‘
یہ کہتے ہی اس نے کاپی کو جیسے تیسے مروڑ کر بستے میں قید کیا اور اُٹھ کر آگے چلی ۔میری آنکھوں میں اشکوں کا سیلاب تھا، وہ اس زبان کو لکھنے، پڑھنے اور سمجھنے پر قادر تھی جس پر میں، آپ اور ہم سب قادر نہیں۔میں مزید باتیں کرنا چاہتا تھا لیکن اس کے سہمے ہوئے لہجے نے ان ہی باتوں پر اکتفا کرنے پر مجبور کیا،کچھ پل وہیں پڑا رہا سوچ کے ایک تلاطم نے اپنے حصار میں لے لیا تھا، آیا ہمارے معاشرے میں بچوں کے لئے کاپی ،قلم، کپڑے سے لے کر موبائل فون، کمپیوٹر،ٹرانسپورٹ جیسے اعلیٰ انتظامات میسر ہوں اور وہ پڑھنے لکھنے کا شوق نہ رکھتے ہوں۔پڑھنے لکھنے کو عذاب تصور کر رہے ہوںاور انہیں لگتا ہے کہ بن پڑھے وہ کوئی زندگی گزار لیں گے۔
وہ تہذیب کی شکل میں بد تہذیبی، اخلاقی وجود میں بد اخلاقی،انصاف میں سے ناانصافی، مزاج کی شوخی میں بد مزاجی، کامیابی میں ناکامیوں کا سودا کر رہے ہیں، جو کہ شعوری طور پر خسارے کا سودا ہے۔غرض وہ جو جئیں گے زندگی کم وحشت زیادہ ہوگی۔’’بشارت آگے چلنے کا کیا ارادہ ہے۔‘‘
میرے ایک عزیز کی آواز پر میرے وجود نے ایک عظیم جھٹکا محسوس کیا کیونکہ میں خیالوں کے ایک تلاطم میں مبتلا تھا۔انہیں شک نہ ہو کہ میری آنکھیں آنسوؤں سے شرابور ہیں آستین سے آنسو پونچھ لئے اور رخت سفر جاری رکھا۔