اسلام ایک متوازن طریقۂ زندگی ہے دین ِ مُبین

مجاہد عالم ندوی

اسلام ایک ایسا طریقہ زندگی ہے ، جو راہ اعتدال پر قائم ہے ، اس میں کسی قسم کی کمی یا زیادتی کا امکان نہیں ہے ، نہ غلو اور تشدد کی گنجائش ہے ، اللّہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’ یہ دین ِ الٰہی،اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے نظام فطرت کے مطابق ہے ، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ، اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں کسی طرح کے تغیر و تبدل کا کسی درجہ میں کوئی امکان نہیں ہے ، یہی در اصل متوازن دین ہے ، لیکن اس حقیقت کو بہت سے لوگ نہیں مانتے ہیں ۔
حدیث شریف میں وارد ہے کہ حضرت انسؓ نے فرمایا کہ تین آدمی صحابہ کرامؓ کی جماعت سے ازواج مطہرات کے گھروں پر تشریف لائے اور انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے بارے میں دریافت کیا ، جب ان کو بتایا گیا کہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی عبادت کا کیا طریقہ تھا تو انہیں محسوس ہوا کہ وہ جو تصور لے کر آئے تھے، اس کے مطابق نہیں ہے ، اس سے بہت کم ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ ہمارا حضورؐ سے کیا جوڑ اور کیا نسبت ، ان کے سارے اگلے اور پچھلے گناہ اللّٰہ تعالیٰ نے معاف فرما دیئے تھے ، چنانچہ ان میں سے ایک صاحب نے فرمایا کہ میں ہمیشہ پوری رات نماز پڑھا کروں گا اور کبھی رات کو نہیں سوؤں گا ۔ دوسرے صاحب نے کہا کہ میں ہمیشہ روزہ رکھا کروں گا ، اور کبھی بغیر روزے کے نہیں رہوں گا ۔ تیسرے صاحب نے فرمایا کہ میں کبھی شادی نہیں کروں گا۔ یہ سن کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، ان لوگوں کے پاس آئے اور پوچھا کہ کیا آپ نے یہ باتیں کہی ہیں ؟ اورفرمایا کہ میں آپ لوگوں سے زیادہ اللّٰہ سے ڈرتا ہوں اور خوف کھاتا ہوں ، اس کے باوجود میں ہمیشہ روزہ نہیں رکھتا ، ہمیشہ نماز نہیں پڑھتا ، اور اپنے اہل و عیال سے پورا تعلق بھی نہیں رکھتا ہوں ، پھر اعلان کیا جو شخص بھی میرے طریقہ زندگی سے اپنا منہ موڑے گا ، اس کا تعلق میری جماعت سے نہیں ہو سکتا ہے ۔
ایک دوسری حدیث میں حضرت عبد اللّٰہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ’’ ھلک المتنطعون‘‘ تین بار یہی فرمایا ، متنطعون کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ نرمی کی جگہوں پر سختی کرتے ہیں ۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ فرمایا کہ یہ دین اسلام بالکل آسان ہے اور سیدھا سادا مذہب ہے ، لیکن اگر کوئی اس دین کو مشکل بنا دے اور اس میں سختی کا راستہ اختیار کرے تو وہ اس کے سامنے کمزور پڑ جائے گا ، اور اس کو نباہ نہیں سکے گا ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جو شخص بھی ہمارے اس دین میں ایسی کوئی بات پیدا کرے جو اس میں نہیں ہے تو وہ بات مسترد کر دی جائے گی ۔
(رابطہ۔ 8429816993)
[email protected]