ازدواجی رشتے اور خود مختاری کا پستول! تلخ و شریں

سیدہ قیصرہ اندرابی، پلوامہ

گھر میں چوری چکاری کا ڈر ہو تو پستول خریدا جا سکتا ہے۔ تلوار یا خنجر رکھا جاتا ہے تاکہ وقت پر کام آئیں۔ اس کو قبل از وقت حفاظتی اقدام کہہ سکتے ہیں۔ مگر آپ اس پستول کو گھر کے افراد یا گھر آنے والے مہمان پر تاننا شروع کر دیتے یا تلوار کی دھار دکھانا چاہتےہیںتو جان لیجئے کہ جہاں آپ کے گھر کا سکون غارت ہوجائے گا وہاںدوسرے لوگ بھی آپ کے گھر آنا چھوڑ دیں گے۔
بالکل ایسے ہی حفاظتی اقدام کے طور پر ہم اپنی بیٹیوں کو فنانشیل انڈیپینڈنٹ بنانے لگے ہیں۔ مقصد یہی ہے کہ زندگی میں کسی موڑ پر اگر ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ اس کو اپنے لیے خود کمانا پڑے تو مشکل نہ ہو۔ بغیر کسی محتاجی کے زندگی گزار سکیںاور اگر باصلاحیت ہو تو اپنے شعبے یا شوق میں آگے بھی بڑھ سکیں۔
مگر بیٹیاں اس خودمختاری کے پستول کو کاندھے پر ڈالے اوراَنّا کے خنجر کو کمر میںباندھے جب زندگی کے اہم ترین رشتے میں داخل ہوتی ہیں تو مخالف سمجھ کر اپنے سب سے قریبی رشتے یعنی شوہر پر تان لیتی ہیں۔ میں کیا تمہاری کوئی غلام ہوں۔میں کوئی اَن پڑھ، گنوار نہیں کہ تمہاری ہر بات مانوں۔ میں پڑھی لکھی ہوں، آپ کی یہ جرأت ، مجھے ایسا کہے،میں خود کما کر کھا سکتی ہوں، مجھے تمہاری ضرورت نہیں۔ اسی طرح ایک مرد بھی اپنی بیوی کو دبائو میں رکھتا ہے کہ وہ بیوی سے بڑھ کر ہے، عہدہ د ا ر ہے۔ بلا شبہ یہ سچ ہے کہ مرد قوام ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر فضیلت عطا کی ہے۔مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ ہر معاملے میں خودداری کی تلوار چلائے،نہ اپنی کوبیوی عزت دے اور نہ ہی اُسے پیار اور وقار کی نظر سے دیکھے۔کتنے ایسے مرد ہیں جو عورت پر تا نے کستے رہتے ہیں،ایک با کردار عورت پر انگلی اٹھاتے ہیں۔ایسے مرد ، مرد نہیں ہوتے بلکہ بزدل اور کمزور ہوتے ہیں جو ہمیشہ نفرت اور خود مختاری کا پستول اپنے ہاتھ میں لیے مکروہ گولیوں سے معصوم دلوں کو چھلنی کر دیتے ہیں۔
اس ذہنیت کے ساتھ رشتے شروع کرنے والیوں کے ستر فیصدی رشتے پہلے دو تین سال میں ہی ختم ہو رہے ہیں اور رشتہ گروپوں میں ’’خلع یافتہ ایک بچے کے ساتھ‘‘ کی شرح میں اضافہ کرتے جارہے ہیں، جیسا کہ آجکل یہ سب کچھ عام ہو رہا ہے۔دنیا بھر میں ترقی پذیر پسماندہ ملکوں یا مغرب کے ترقی یافتہ ممالک میں میاں بیوی کے ازدواجی رشتہ اگر بخوشی چلتے ہیںتومحض باہمی مفاہمت و رفاقت پر ہی چلتے ہیںاوراپنے جیون ساتھی کی اچھائی وبُرائی کو قبول کر کے ہی آگے بڑھتے ہیں،ایک دوسرے کی کمزوریوں کو قبول کرکے اور اپنی طاقتوں کو اسکی طاقت بنالیتے ہیں۔ ظاہر ہے ،جب آپ خلوص سے کسی کا ہاتھ تھام لیتے ہیں تو وہ بھی بخوشی آپکے ساتھ چلنے پر آمادہ ہوتا ہے اور وقت آنے پر آپکی کمزوریوں کو اپنی طاقت سے بدلتا ہے۔
سب سے بڑی غلط فہمی جو ہماری بچیوں کے ذہنوں میں ڈال دی گئی ہے، یہ ہے کہ اس رشتے میں انحصار صرف روپے پیسے کا ہے۔ وہ اگر وہ خود کما لیتی ہیں تو باقی سب کی کیا ضرورت ہے۔ جبکہ درحقیقت اس رشتے میں آپ کے جسم و روح کے ساتھ دوسرا بھی اپنے جسم و روح کے ساتھ شامل ہوتا ہے۔ آپ کی بیشمار جسمانی، روحانی و نفسیاتی ضرورتوں کا انحصار اسکے وقت، توجہ، کوشش اور آمادگی پر ہوتا ہے۔ اگر لڑکیاں صرف یہی سمجھ لیں کہ اس رشتے میں انکو بھی ایک جیتے جاگتے انسان کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ ان کے شوہر کو، تو شائد وہ بات بات پر خودمختاری کا پستول چلانا اور اپنی اَنّا کی تلوار کو لہرانا بند کر دیں گے۔ اگر ہمارے معاشرے میں رشتے محبت اخلاق اور وفا داری پر مبنی ہونگے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کسی کی زندگی اُجڑ جائے گی ۔ہاں!ایک لڑکی کو بھی حد میں رہنے کی ضرورت ہے، خواہ وہ کتنی ہی پڑھی لکھی کیوں نہ ہویا کوئی بھی عہد ہ دار کیوں نہ ہو،ہر حا ل میں اسکو اپنے شوہر کے تئیں وفادار اور تابع دار رہنا ہوگا اور شوہر کو بھی یہی کرنا ہوگاتاکہ زندگی کی گاڑی بنا پنکچر کے چلےاور خود مختاری کے پستول کے بجائے آپسی سوج بو جھ سے کام بنے۔
نوٹ:مضمون نگارہ محفل بہار ادب شاہورہ پلوامہ کی اعزازی رکن ہیں اور ان کے ساتھ [email protected]پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔