اردو کے محقق و ناول نگار۔شانتی رنجن بھٹاچاریہ شخصیات

محمد ہاشم القاسمی

شانتی رنجن بھٹا چاریہ کا شمار بیک وقت مصنف، محقق، نقاد، مترجم، افسانہ نگار اور ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اردو نثر و تحقیق کا بڑا سرمایہ فراہم کیا ہے۔ ان کی تحقیق کا خاص موضوع بنگال کا اردو ادب رہا ہے۔ بنگال کے اردو ادب کو ملک بیرون ملک روشناس کرانے میں ان کا اہم رول رہا ہے۔ شانتی رنجن بھٹا چاریہ تاحیات اردو صاحبان ادب کی خدمت کرتے رہے۔ شانتی رنجن بھٹاچاریہ کے بیٹے ہرا دھن بھٹاچاریہ نے اپنے والد کی اردو زبان و ادب سے والہانہ محبت کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ “میرے والد کو اردو زبان سے بہت محبت تھی۔ زندگی بھر انہوں نے اس زبان کی خدمت کی متعدد کتابیں لکھیں۔ تحقیق پر کام کیا آج ان کی کتابیں ہمارے گھر میں محفوظ ہیں۔”
ہرادھن بھٹا چاریہ کا کہنا ہے کہ اپنے والد کی وجہ سے ہمارے گھر اور گھر کے لوگ بھی اردو سے روشناس ہوئے میرے بیٹے کو بھی اردو زبان سے بہت رغبت ہے۔ میرے والد کی اور بھی کئی چیزیں ہیں۔ جو اب تک شائع نہیں ہو سکیں ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ بھی شائع ہو جائیں ۔
شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی پیدائش 24 ستمبر 1930ء ضلع فرید پور، بھوجیشور کے مسورہ گانوں (موجودہ بنگلہ دیش ) میں ہوئی۔ وہیں ان کی ابتدائی تعلیم درجہ دوم تک ایک بنگلہ

 

 

میڈیم اسکول میں ہوئی۔ اُن کے والد بیکنٹھ ناتھ بھٹا چاریہ 1930ء میں تلاش معاش کے سلسلے میں فریدپور سے حیدرآباد چلے گئے اور وہاں اکتوبر 1930ء میں بطور اسٹیشن ماسٹر ریلوے میں ملازمت اختیار کر لی 1937 میں انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی ہروند ناتھ بھٹا چاریہ ،اپنی اہلیہ چارو بالا دیوی اور بیٹے شانتی کو حیدرآباد بلالیا جہاں انہوں نے وویک بردھن ہائی اسکول میں اپنے بچے کو داخل کیا اور پانچویں جماعت تک تعلیم دلائی۔ اردو زبان کو حیدرآباد میں اولیت حاصل تھی یہ وہاں کی دفتری زبان بھی تھی۔ وویک بردھن ہائی اسکول میں اردو کے ساتھ ساتھ تیلگو اور تامل زبانیں بھی پڑھائی جاتی تھیں لیکن انہوں نے اردو کو ہی ذریعہ تعلیم منتخب کیا ،ساتھ ہی تیلگو اور تامل سے بھی واقفیت حاصل کی وہاں سے بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے محبوب کالج (ہائی اسکول ) سکندر آباد میں داخلہ لیا، اس کالج میں انگریزی فرسٹ Languageاور اردو Second Languageکے طورپر پڑھی ،وہیں سے انہوں نے 1948-49 میں سکنڈری کا امتحان پاس کیا۔اس دوران ان کے والد ریلوے کی ملازمت سے سبکدوش ہوگئے اور ان کا تعلیمی سلسلہ یہیں منقطع ہو گیا کیونکہ انکے والد مزید تعلیمی اخراجات برداشت کرنے سے قاصر تھے۔
شانتی رنجن بھٹا چاریہ 1956ء میں کلکتہ آنے کے بعد تلاش معاش کے لئےکولوٹولہ پہنچے، جہاں انہوں نے اپنے دوست خلیل احمد کی مدد سے ایک پریس قائم کیا۔ یہاں وہ کلنڈر چھاپتے تھے اور ساتھ ہی بڑا بازار کے علاقے میں کچھ کتابت کا کام بھی کرتے تھے جو ان کے معاش کا ذریعہ بنی۔ انہوں نے کلکتہ کے جھاؤتلہ روڈ کے ایک پریس سے ’’فلم ویکلی‘‘ اخبار بھی جاری کیا، یہ سلسلہ 1960ء تک چلتا رہا۔ اس کے بعد ان کے دو افسانوی مجموعے “راہ کا کانٹا” اور “شاعر کی شادی” منظر عام پر آئے ،پھر افسانہ نگاری ترک کر کے تحقیق کی طرف مائل ہوئے۔ انہوں نے سب سے پہلے ایک تحقیقی کتاب “بنگالی ہندوئوں کی اردو خدمات ” لکھی، اس کتاب کے لئے ان کو 1965-66میں مغربی بنگال حکومت کی طرف سے رابندر ناتھ ٹیگور ایوارڈ ملا۔ اس کتاب کو پڑھ کر ہندستان کے سابق صدر ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب نے انہیں خط لکھ کر مبارک باد دی۔ اس کتاب پر سابق صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین نے بھی چند تعریفی کلمات تحریر کیے جو اس کتاب میں شامل ہیں۔ اسی وقت ماہر لسانیات اور دانشور سینتی کمار چٹرجی بھی ان سے متاثر ہوئے۔ اسی دوران 1965ء میں حکومت مغربی بنگال کی جانب سے رائٹرس بلڈنگ میں انہیں بحیثیت اردو مترجم اور انگریزی پروف ریڈر شعبہ اطلاعات و پبلک ریلیشن میں ملازمت مل گئی۔ انہوں نے انیسویں صدی تک بنگال میں شائع ہونے والی اردو کتابوں کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا اور تذکرہ تصانیف بنگال کے عنوان سے اپنا مقالہ شائع کیا ،اس مقالے پر 1967ء میں اورینٹل کالج (ممبئی ) نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے سرفراز کیا۔
شانتی رنجن بھٹا چاریہ نے اردو اور بنگلہ ادب میں متنوع کام کئے ہیں۔ ان کے تحقیقی و تنقیدی کاموں کی بہت وقعت ہے۔ وہ ایک تحقیقی ذہن کے مالک ادیب تھے۔

 

 

بنگال میں اردو کو لے کر انھوں نے کافی جدوجہد کیا اور اعداد و شمار جمع کرنے میں اپنی پوری زندگی صرف کردی۔ شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی ایک کتاب” اردو ادب اور بنگالی کلچر”کو مغربی بنگال اردو اکادمی نے پرنٹ ویل آفسیٹ، میکلیوڈ اسٹریٹ کلکتہ سے 1982 میں شائع کر کے اکادمی کے دفتر سندری موہن ایونیو کلکتہ 14 سے جاری کیا۔ یہ کتاب مصنف نے بنگلہ دیش میں ایک خادمِ اردو جناب شعیب عظیم کے نام معنون کیا ہے۔ اس مضمون میں مصنف نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اردو اور بنگلہ دونوں جدید زبانیں ہیں اور دونوں کا ادب بھی جدید ادب ہے۔ ہندوستان کی دوسری زبانوں کی طرح اردو اور بنگلہ میں بھی الفاظ سنسکرت، پالی، پراکرت، اپ بھرنش، عربی، فارسی، ترکی، چینی، انگریزی وغیرہ سے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ غیر آریائی نسل کی زبانوں جیسے تلگو، تمل،کنڑ اور ملیا لم وغیرہ سے بھی الفاظ ان میں شامل ہو ئے ہیں۔کچھ الفاظ آدی باسی اور قبائیلی زبانوں کے بھی ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں جن کی اصل(Origin) کا اب تک کوئی پتہ نہیں چل سکا ہے۔ ان الفاظ میں سیکڑوں ایسے الفاظ ہیں جو خود اردو اور بنگلہ میں ہی پیدا ہوئے ہیں اور خالص اردو یا خالص بنگلہ کے الفاظ سمجھے جاتے ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ایک عرصے تک فارسی کے ہندوستان کی سرکاری زبان رہنے کے سبب بنگلہ اور اردو دونوں زبانوں پر عربی اور ترکی کے مقابلے میں فارسی کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اگرچہ اردو کے مقابلے میں بنگلہ میںعربی اور فارسی کے الفاظ کم شامل ہوئے ہیں۔یہ بھی واقعہ ہے کہ مغلوں کے زمانے سے لے کر انگریزی دورِ اقتدار کے ابتدائی دنوںتک ہندوستان کی سرکاری زبان فارسی ہی رہی تھی۔لیکن جب ان کی حکومت مستحکم ہو گئی اور کچھ لوگوں نے کام چلانے کے لائق انگریزی سیکھ لی ،تب انگریزوں نے فارسی کو سرکاری دفاتر اور عدالت سے ہٹا کر پہلے دیسی زبانوں کونا فذکیا اور پھر چند سالوں کے بعد 1844 میں فارسی کو پورے ملک کی عدالتی اور سرکاری کام کاج کی زبان سے ہٹا کر انگریزی کو نافذکر دیا۔ انھوں نے لکھا ہے کہ مغلوں کے عہد میں سرکاری کام کاج میں بنگلہ کا کوئی مقام نہیں تھا ،اس لیے فارسی کے جیسی بنگلہ کی ترقی نہیں ہو سکی۔ لیکن جب چند برسوں کے لیے بنگلہ کو بنگال کی عدالتوں اور دفاتر میں رائج کیا گیا تو ایسی لغت کی ضرورت پیش آئی، جس میں فارسی کے عدالتی اور دفتری الفاظ کے متبادل تلاش کیے جا سکیں۔ اسی ضرورت کے پیشِ نظر جئے گوپال ترکالنکار نے جو فارسی بنگلہ لغت تیار کی، وہ 1838 میں شائع ہو کر منظرِ عام پر آئی۔ مصنف نے بنگلہ زبان کی موجودہ شکل وصورت پر روشنی ڈالتے ہوئے واضح کیا ہے کہ گر چہ آج بنگلہ زبان کے دامن سے عربی و فارسی کے وہ سیکڑوں الفاظ جو انیسویں صدی میں رائج تھے، اب خارج ہو چکے ہیں پھر بھی سیکڑوں عربی و فارسی کے الفاظ کو اس نے اپنا بھی لیا ہے۔ انھوں نے دونوں زبانوں کے ڈھیروں الفاظ کی فہرست پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ آج نہ صرف بنگلہ کے کتنے ہی الفاظ، محاورے اور کہاوتیں نہ صرف اردو زبان میں مستعمل ہیں بلکہ اردو کے بھی سیکڑوں الفاظ، محاورے اور کہاوتیں بنگلہ زبان میں رائج ہیں۔
شانتی رنجن نے اپنی ایک اہم کتاب’غالب اور بنگال‘ میں مرزا غالب کے سفر کلکتہ اور قیام کلکتہ کی روداد کو اجمال کے ساتھ پیش کیا ہے۔ یہ کتاب 1977 میں منظر عام پر آئی او رعلمی و ادبی حلقوں میں بنظر استحسان دیکھی گئی۔ ان کی ایک اور تحقیقی تصنیف ’آزادی کے بعد مغربی بنگال میں اردو‘ ہے، جس میں انھوں نے سرزمین بنگال سے شائع ہونے والی کتب، اخبارات اور رسائل و جرائد سے متعارف کرایا ہے۔
ان کی ایک اور وقیع کتاب ’اقبال، ٹیگور اور نذرل،تین شاعر، ایک مطالعہ‘ 1978 میں اشاعت پذیر ہوئی۔ شانتی رنجن نے اس میں بنگلہ زبان کے دو عظیم شاعر رابندر ناتھ ٹیگور، نذر الاسلام اور اردو کے علامہ اقبال کی شخصیت اور فن کا ناقدانہ جائزہ لیا ہے۔

 

 

اردو دنیا کو چہار جانب روشن کرنے والا یہ فکر و فن کا آفتاب 63 سال کی عمر میں 15 ستمبر 1993 کو شہر نشاط کلکتہ میں حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے غروب ہو گیا اور اردو ادب کے خوشہ چینوں کے لئے انمول خزانہ چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے آنکھیں موند لی ۔
رابطہ۔9933598528
<[email protected]