’’ادھوری کہانی ‘‘کا اجمالی جائزہ تبصرہ

بشیر احمد کار،بارہمولہ

لیکن جوزف نے شعوری طور فیصلہ کیا تھا، بالآخر وہ شادی کرتے ہیں، قبول اسلام اور مسلمان لڑکے سے شادی، وہ بھی وہ شخص جو بہت ہی اہم عہدے پر فائز ہونے والا تھا، اس کو وہ کیسے برداشت کرتے۔بہرحال وہ لوگ کنول کو شہید کرتے ہیں،جوزف (یوسف) تنظیم سے بدلہ لینا چاہتا ہے اس نے منصوبہ بھی بنایا، اس سلسلے میں وہ عبداللہ سے ملتا ہے،وہ یوسف کو سمجھاتا ہے کہ بدلہ لینے سے کچھ بھی نہیں ہوگا،عبداللہ بہترین انداز میں سمجھاتا ہے کہ کرنے کا کام یہ ہے کہ ’’تنظیم کے مقابلے میں خدا کو اپنے ساتھ ملا لیں، خدا سے کوئی نہیں جیت سکتا‘‘۔ (صفحہ 200)،م سورہ یوسف کی عملی تعبیر سے یوسف کو واقف کراتے ہیں، یوسف کے ہر سوال کا بہترین جواب دیتے ہیں ، وہ جب عبداللہ سے کہتا ہے کہ تنظیم مسلمانوں کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے تو عبداللہ جواب دیتا ہے’’ دیکھو، اگر تمہیں مسلمانوں سے حقیقی محبت ہے تو اس محبت کا درست طریقہ یہ ہے کہ انھیں ایمان و اخلاق کے راستے کی طرف بلاؤ جو وہ بیٹھے ہیں، تنظیم جیسی کچھ نہیں، یہ تو خدا کا عذاب ہے جو مسلمانوں کے جرائم کی بنا پر ان پر نازل ہوا ہے۔‘‘( صفحہ 205) لیکن یوسف کے دل میں انتقام تھا،وہ تنظیم کے خلاف منصوبہ بنانے لگا لیکن تنظیم کے پاس وسائل بہت زیادہ تھے لہٰذا وہ کامیاب نہ ہوا،الٹا تنظیم نے ان کے خلاف کارروائی کی، بہرحال وہ پھر عبداللہ کے پاس پہنچ جاتا ہے۔عبداللہ اس کو دعوت دین کے کام میں لگاتا ہے۔یہ تو ماضی کی کہانی ہے جو ادھوری رہ جاتی ہے۔

 

مصنف ساتھ ساتھ اصلی زندگی جو موت کے بعد شروع ہوتی ہے، کا نقشہ بھی کھینچے ہیں کہ کس طرح ان کہانیوں کو آخرت میں پورا کیا گیا، کہانی اس خوبصورتی سے ترتیب دی گئی ہے کہ قاری ایک ہی نشست میں ناول کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ناول کی خصوصیت ہے کہ اس میں کئی سوالات کے جوابات ہیں جو اکثر انسانوں کے دماغ میں پیدا ہوتے ہیں لیکن معاشرہ کے خوف کی وجہ سے وہ یہ سوال پوچھنے سے کتراتا ہے۔ساتھ ہی جنت کے مختلف مراحل، جہنم کا منظر اور کئی اشکالات کا جواب ہے، یہ کتاب دکھی دلوں کے لیے اطمینان کا باعث ہے،خاص کر آج کل جب امت مسلمہ کی حالت خستہ ہے. ساتھ ہی یہ کتاب عروج کا راستہ بھی دکھاتی ہے، ماضی اور مستقبل کی یہ کہانی معمولی کہانی نہیں، عہدِ الست کے بارے میں مصنف نے خوبصورتی سے سمجھایا ہے اور کئی اشکالات کو دور کیا ہے، عام طور پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک انسان کو دنیا میں صرف مسائل ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑا حالانکہ اس کی زندگی دین دار زندگی تھی، کنول جس کے والدین بھی نہ تھے؛ جس نے انتہائی محنت کی اور جب اس کو ایک سچا پیار کرنے والا یوسف ملا تو اس کو قتل کیا گیا، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ مصنف عبداللہ کی زبان سے جنت کے مقربین درجہ میں بیٹھی کنول؛ جس کے نیچے اصحاب الیمین کے بہت سے درجات تھے، سے مخاطب ہوتے ہوئے سمجھاتے ہیں ’’بے شک تم نے پچھلی دنیا میں بہت دکھ دیکھے تھے مگر تم غور تو کرو انھی محرومیوں، دکھوں، اذیتوں اور تکلیفوں کی بنا پر آج تم خدا کی قربت کے اس مقام پر پہنچی ہو، یہ تمہاری انوسنمنٹ تھی جو تمیں اربوں کھربوں گنا بڑھا کر تمہیں لوٹادی گئی ہے، تم سوچو کہ فانی زندگی کے دکھ ختم ہوگیے، مگر ابدی زندگی کے سکھ تمیں دے دیئے گیے، جنت میں کتنے لوگ ہیں جو پچھلی دنیا میں تم سے کہیں زیادہ نیکیاں کرتے ہیں اور تم اتنے اونچے مقام پر پہنچ گئی ہو،تمہیں تمہاری محرومیوں نے یہاں تک پہنچایا ہے‘‘۔(صفحہ 60) عام طور پر ایک بات ذہن میں آتی ہے کہ جنت جہاں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہونگی، جہاں موت کبھی نہیں آئے گی وہاں کی زندگی کیا بوریت کی زندگی نہیں ہوگی؟ جب موت ہی ختم ہوگی تو زندگی کا حسن بھی ماند پڑھ جائے گا، جنت میں اہل جنت کیا کیا کریں گے اور زندگی کس قدر خوشگوار ہوگی، اس کے بارے میں مصنف نے تمثیلی طور پر قاری کو سمجھانے کی کوشش کی ہے اور بظاہر وہ اپنی کوشش میں کامیاب بھی دکھائی دیتے ہیں۔

 

مصنف کا ماننا ہے کہ ہماری ارواح نے جو شعوری وعدہ اللہ سے کیا تھا جس کو عہد الست کہتے ہیں میں جس روح نے جنت کا انتخاب کیا اس نے راستہ اور جنت کے درجہ کو خود ہی چن لیا، کچھ نے جنت کے لیے مشکل راستہ چنا اور کچھ نے تسلسل والا راستہ، جیسےکنول جوزف سے کہتی ہے کہ میں نے عہد الست میں دکھوں میں اضافے کے لیے محبت میں ناکامی اور جوانی کی موت مانگی تھی مجھے یہ دونوں مل گئی‘‘۔(صفحہ145) مزید لکھتے ہیں:’’ہر چیز تمہارا اپنا انتخاب تھی، تم کب اور کہاں پیدا ہوئیں، کن حالات میں زندہ رہیں، زندگی میں کیا کردار ادا کیا، ان میں سے ہر چیز تم نے اپنی مرضی اور پورے شعور کے ساتھ خود چنی تھی، اس وقت فرشتوں نے تمہیں ہر فیصلے کے مضمرات و امکانات اور اثرات اور نتائج سے پوری طرح آگاہ کر دیا تھا‘‘۔(صفحہ 152)عہد الست کی مصنف نے کیا خوبصورت توجیہ کی ہے، اور اس سب کا استدلال قرآن مجید کے سورہ احزاب اور سورہ بقرہ کے آیات سے کرتے ہیں(صفحہ 222) کتاب میں ناول کی صورت میں بہت سے مسائل کو بہترین اسلوب میں بیان کیا گیا ہے مثلاً خدا کو کیسے پایا جائے ؟ ’’ خدا کو ابراہیم علیہ السلام کے طریقے، اسلام یعنی خدا کے سامنے غیر مشروط طور پر جھک جانے کے ذریعہ پایا جاتا ہے، خدا کو یوسف علیہ السلام کی طرح صبر اور احسان کرکے پایا جاتا ہے، خدا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت یعنی ایمان و اخلاق کا نمونہ بننے سے پایا جاتا ہے، ایمان کا مطلب ہے کہ خدا ہر چیز سے اہم ہو جائے، انسان اس کی بے پناہ طاقت اور بے انتہا کرم کے احساس میں زندہ رہنے لگے… (صفحہ 207) عام طور پر جو سوال کہ جنت کی زندگی میں بغیر مقصد اور بے کار زندگی کیسی عجیب زندگی ہوگی نہ کوئی چلینج نہ موت کا ڈر، ان سب سوالوں کا جواب بھی کتاب میں دیا گیا ہے، مصنف جنت کے مناظر کوخوبصورتی سے پیش کرتے ہیں، لکھتے ہیں: ’’یہاں لوگ صرف ایک دوسرے سے ملتے ہی نہیں تھے بلکہ ایک دوسرے کے لیے خوشی و مسرت کا سامان بھی فراہم کرتے تھے، یہاں ہر شخص کسی نہ کسی چیز کا ماہر ہے کوئی خوبصورت نغمے تخلیق کرتا، کوئی بے مثل خوشبوؤں کو جنت کے پھولوں سے کشید کرتا، کوئی مصوری کا ماہر، کوئی اعلی اشعار سے ذوق سلیم کو تسکین دیتا، کسی کا ذوق مزاج لوگوں میں خوشیاں بکھیرتا، کوئی کھانے پینے میں ایسی مہارت دکھاتا کہ لوگ بار بار فرمائش کرتے (صفحہ 306) ایک اور جگہ لکھتے ہیں ’’جنت نفیس اور اعلی انسانوں کے رہنے کی جگہ تھی، یہاں ہر شخص جذبات رکھنے کے باوجود اعلی اخلاقی روایات کا لحاظ کرتا ہے، یہاں بلندی اور سرفرازی اصلاً ایک ہی ہستی کے لیے تھی، یہ خدائے ذوالجلال کی ہستی تھی، باقی سب لوگ مراتب اور درجات کے فرق کے باوجود ایک دوسرے کا لحاظ کرتے تھے‘‘۔(صفحہ 110) جنت کے کھانے پینے کی اشیاء کی خصوصیت یہ تھی کہ صرف ذائقہ فراہم کرتی، نہ اہل جنت کو طاقت کی ضرورت تھی؛ نہ یہ ان غذاؤں کا مقصد تھا، یہ لذت کام و دہن کا بندوبست کرتیں اور جسم سے خوشبو کی شکل میں پسینہ کی جگہ نکل جاتے، نہ ہاضمے کا مسئلہ تھا نہ سیری کا، نہ بھوک تھی نہ پیاس کی شدت، بس راحت پر سامان تھا. (صفحہ 48) کون ایسا شخص ہوگا جس کے سامنے اس قدر خوبصورت مناظر ہونگے اور وہ نیک اعمال کے لئے سبقت نہیں لے گا۔

 

مصنف جہنم کے مناظر بھی دکھاتے ہیں ایک منظر کو اس طرح پیش کرتے ہیں ’’جہنمیوں کی چینچ و پکار اور آہ و فغان نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا، ایک طرف بھڑکتی آگ جس کے سامنے بہت سے جہنمی ستر گز زنجیروں سے بندھے ہوئے پڑے تھے، دو انتہائی خوفناک اور مہیب صورت فرشتے وہاں ایک ہاتھ میں کوڑے اور دوسرے ہاتھ میں ہتھوڑے لے کر گھوم رہے تھے‘‘۔(صفحہ 292) جنت اور جہنم کی منظر کشی کے دوران مصنف کی کوشش رہی ہے کہ قرآن کریم اور صحیح احادیث سے ہی استدلال کیا جائے،ناول ہونے کے باوجود اس کتاب میں بہت سے اہم علمی موضوعات پر مصنف روشنی ڈالتے ہیں، مثلا جنوں اور انسانوں میں فرق، (صفحہ 293)،الحاد کا بہترین جواب (صفحہ 177)،دعا اور تقدیر (صفحہ 164)،کیا تقدیر میں رد و بدل ہو سکتا ہے (صفحہ 160وغیرہ اس میں کوئی شق نہیں کہ مسلمانوں کے اکثر مسائل خود ان ہی کی غفلت کی وجہ سے ہے لیکن یہ کہنا کہ باہر کے مسائل ہے ہی نہیں ایسا بھی درست نہیں مصنف لکھتے ہیں’’مسلمان کو خارج سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا، مسلمان دنیا کے سب سے خوش نصیب لوگ ہیں، عالم کے پروردگار نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے ان کا انتخاب کیا ہے، چنانچہ امت محفوظ ہیں، انھیں کوئی ختم نہیں کر سکتا ہے،مگر مسلمان اس خوش نصیبی کو بھول کر اپنے سیاسی اور فرقہ وارانہ نظریات، اپنی خواہشات اور تعصبات میں لگ گئے …‘‘(صفحہ 266) مسلمان لیڈر شپ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ’’…. ان کے مسائل وہی ہیں جن کے لیے تم پریشان ہو رہے تھے، یعنی غیر مسلموں کی سازش، غیر مسلموں کے غلبے سے نجات پاکر اپنا غلبہ قائم کرنا، جو لوگ یہ نہیں کرتے وہ فرقہ واریت، ظاہر پرستی اور بدعات و توہمات کی دنیا آباد کیے ہوئے ہیں ‘‘(صفحہ 267)،یہ بات صحیح ہے کہ اللہ کی نصرت حاصل کرنے کے لیے ہمیں ذاتی کردار کو بلند کرنا ہوگا لیکن اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ ہم اجتماعی کوشش چھوڑ دیں ، مصنف کی اس بات سے اتفاق کرنا بھی مشکل ہے’’اللہ تعالیٰ کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ اس دنیا میں انسان کوئی جنت بنا لیں،ان کی یہ اسکیم ہے ہی نہیں کہ موجودہ دنیا کو جنت بنایا جائے،‘‘( صفحہ 268) حالانکہ قرآن کریم کے ارشادات اس سلسلے میں واضح ہے، کہ انسانوں کو اس دنیا میں بھی عروج ملے گا، بہرحال فکر آخرت کو پیدا کرنے کے لیے ابو یحییٰ کی یہ سیریز نہایت ہی اہم ہے، مسلمانوں کو خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی یہ کتابیں پڑھانی چاہیے۔ہندوستان میں یہ کتاب ‘الرحمن فاونڈیشن کرناٹک نے عمدہ طباعت میں چھاپی ہے اور 350 صفحات کی قیمت صرف 200 روپے ہے۔
(رابطہ ۔9906653927)