’’ادھوری کہانی‘‘کا اجمالی جائزہ

بشیر احمد کار،بارہمولہ

 

مفکر مولانا صدر الدین اصلاحی لکھتے ہیں: ’’جس طرح کسی مکان کے لیے ضروری ہے کہ اس کی ایک بنیاد ہو جس پر اس کی دیواریں اٹھائی جائیں اور پھر ان دیواروں پر اس کی چھت تعمیر کی جائے، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ یہ بنیاد اتنی گہری اور مضبوط ہو کہ دیواروں اور چھت کا بار اچھی طرح سنبھال سکے، ورنہ وہ ہوا کے کسی ایک بھی تیز جھونکے یا بارش کے کسی ایک بھی تند حملے کی تاب نہ لاسکے گا اور چاہے اس کی دیواریں اور چھتیں اپنی جگہ کتنی ہی ٹھوس اور پائیدار کیوں نہ ہوں، اسے ایک کھنڈر کی شکل میں تبدیل ہو جانے سے کوئی شئے بچا نہ سکے گی۔ (اساس دین کی تعمیر؛ صفحہ 9)وہ مزید لکھتے ہیں: ’’ایک پاگل ہی ایسا تصور کرسکتا ہے کہ جاتو رہا ہو اہرام مصر کو شرما دینے والی عمارت بنانے اور اس کے لیے بنیاد کھودے انگلیوں اور انچوں سے ناپ کر (صفحہ 10)اسی کتاب میں موصوف آگے لکھتے ہیں: ’’دین حق کا وہ حسین اور پر جلال ایوان جس کی تعمیر مدنی دور کے آخری لمحوں میں پایہ تکمیل کو پہنچی، اس کی بنیاد مکہ کی تیرہ برس لمبی مدت میں ہوئی، وہاں وہ اس حقیقت کا بھی انکشاف کرتا ہے کہ اس بنیاد کی نچلی گہرائیوں میں جو پتھر جمائے گیے تھے ان کی مجموعی تعداد صرف چار تھی۔۱۔ اللہ پر ایمان ،۲۔آخرت پر ایمان ،۳۔ذکر ،۴۔صبر، یہی چار چیزیں ہیں جن کی روح اگر داعیان حق کے دلوں میں اچھی طرح اتری ہوئی ہو تو یہ اس بات کی ضمانت ہوگی کہ وہ اپنے نصب العین کی راہ میں سست گامی کو کبھی روا نہ رکھیں گے، اور دین حق کا قیام فی الوقت ایک مضبوط چٹان پر ہورہا ہے۔‘‘(صفحہ 25)یہ جو چار بنیادیں ہیں، ان میں تین بنیادیں بہرحال کسی نہ کسی صورت میں امت مسلمہ کے ہاں پائی جاتی ہے لیکن جس درجہ کا آخرت پر ایمان تقاضا کرتا ہے وہ موجود نہیں، یہی عقیدہ آخرت ہے جو انسان کے اعمال کو درست کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہو سکتا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس اہم عقیدہ پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے۔انسان کو اس دنیا کی مختصر زندگی کی صورت میں جو مہلت ملی اس میں انسان کی کہانی ادھوری رہ جاتی ہے، اور یہ کہانی اپنے انجام کو ہر صورت میں آخرت میں پہنچے گی، لیکن بندے کے لیے بھی یہی ایک زندگی ہے جس میں اس کو موقع ہے کہ وہ اپنی کہانی اس طرح لکھیں کہ اس کا انجام جنت ہو۔یہاں کی زندگی میں بہت سے لوگ تکلیفوں سے گزرتے ہیں، بہت سے لوگوں کی زندگی مختصر ہوتی ہے، اکثر لوگوں کو وہ نہیں ملتا جو بظاہر ہمیں لگتا ہے کہ انسان کو ملنا چاہیے، انسان کے ذہن میں کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ان سبھی سوالات کا جواب ابو یحییٰ نے اپنی کتاب ’’ادھوری کہانی‘‘ میں ناول کی صورت میں دیا ہے. ابو یحییٰ مقبول ترین مصنفین میں شمار ہوتے ہیں،ان کی اکثر تحریریں خاص کر ناولز تصور آخرت کے اردگرد گھومتی ہے۔ناول کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ غیر شعوری طور پر قاری کے عقل اور دل پر اثرات ڈالتی ہے۔ابویحییٰ ایک پاکستانی اسکالراور مصنف ہیں ۔ آپ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں اونرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ حاصل کیں اور سول سائنسز میں ایم فل کیا۔ انہوں نے اپنا پی ایچ ڈی اسلامک اسٹیڈیز میں مکمل کیا۔ آپ کی ڈیڑھ درجن سے زیادہ تصانیف ہیں جو لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوچکی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ معروف کتاب ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ ہے، جو اردو زبان کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں سے ایک ہے۔ آپ دعوت و اصلاح کا کام کرتے ہیں۔

 

’’انذار‘‘کے بانی اور ماہنامہ ’’انذار‘‘ کے مدیر ہیں۔ اس کے علاوہ کئی برس تک درس قرآن مجید دیتے رہے ہیں۔ابو یحییٰ کی ناول ‘ادھوری کہانی ان کتابوں کا تسلسل ہے جو ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ سے شروع ہوئی ،اس کے بعد اس کی دوسری کتاب ’’قسم اس وقت کی‘‘ تیسری کتاب ’’آخری جنگ ‘‘اور چوتھی کتاب ’’خدا بول رہا ہے ‘‘تھی ۔ابو یحییٰ نے ان سب ناولوں میں موت کے بعد کی زندگی کا بیان اتنے دلفریب انداز میں کیا ہے کہ دل بے ساختہ نیک اعمال کرنے کو بے قرار ہوجاتا ہے۔ انہوں نے اخروی نعمتوں اور آسائشوں کو نہایت خوبصورتی سے قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔ وہ دوزخ اور سزا کا بھی ذکر کرتے ہیں لیکن اس نرم طریقے سے کہ انسان خوفزدہ ہونے کے بجائے اس پہ غور کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔یہاں ایک آسان فارمولہ ہے۔ اچھے اعمال،اچھا نتیجہ۔ برے اعمال،برا نتیجہ۔’جب ‘زندگی شروع ہوگی ‘میں ناول کے پیرایے میں موت کے بعد برزخ اور میدان حشر کے مختلف مراحل کا ذکر کیا ہے،یہ کہانی اللہ کے ایک نیک بندے عبداللہ سے شروع ہوتی ہے. ‘قسم اس وقت کی کا موضوع بھی آخرت ہے لیکن اس کا مرکزی کردار عبداللہ کی بیوی ناعمہ ہے۔ناعمہ پہلے ملحد لڑکی تھی لیکن اس کے بعد اللہ نے اس کو دین اسلام کے لیے وقف کیا، ‘’آخری جنگ ‘میں مسلمانوں کی اخلاقی غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے. چوتھا ناول ’خدا بول رہا ہے‘کی کہانی عبداللہ کے والدین کے ارد گرد گھومتی ہے، اور اس میں قرآن کریم کے اثرات پر بات کی گئی ہے۔دنیا امتحان گاہ ہے یہاں انسان کو ہر چیز نہیں ملتی، اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے، دنیا کی زندگی میں اکثر انسانوں کیلئے داستان ادھوری رہ جاتی ہے لیکن آخرت میں ان ادھوری کہانیوں کو پورا کیا جائے گا، یہ کتاب ہر دکھی دل کو امید کی روشنی سے منور کرتی ہے، اس میں ہر اس شخص کے لئے امید کا پہلو ہے جو اس دنیا میں دکھی رہا، فکر آخرت پیدا کرنے کے لیے ابو یحییٰ نے جو سلسلہ شروع کیا تھا، ادھوری کہانی ان میں مشکل ترین ہے وہ خود لکھتے ہیں ’’ادھوری کہانی‘‘ میری زندگی کی سب سے مشکل ترین تحریر ہے، اس میں ایک تو وہی مشکل ہے جو ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ کی تصنیف کے وقت پیش آئی تھی کہ یہ ایسے عالم کی روداد ہے جس کے بارے میں ہمارا علم محدود ہے، ’ادھوری کہانی‘ میں یہ مشکل دوگنی ہوگئ کہ اس دفعہ مستقبل کے ساتھ ماضی کی ان دیکھی دنیا بھی زیر بحث آگئی۔‘‘(صفحہ 4) مصنف کی خوبی ہمیشہ یہ رہی ہے کہ ناول تو دلچسپ ہو لیکن یہ اصل پیغام پر غالب نہ آجائے، اس ناول میں بھی وہ اس کوشش میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں. ایک طرف امت مسلمہ بظاہر آخرت پر ایمان کا دعویٰ کرتی ہے لیکن اس عقیدے کے جو اثرات پڑھنے چاہیے وہ نہ ہی امت مسلمہ کی انفرادی زندگی میں نظر آتی ہے نہ ہی اجتماعی زندگی میں. ابو یحییٰ کی کوشش ہے کہ امت مسلمہ میں آخرت سے شعوری تعلق پیدا ہو.

 

‘ادھوری کہانی اس سلسلے میں اہم رول ادا کرتی ہے بظاہر اس ناول کا مرکزی کردار یوسف (جوزف) ہے جو ایک نو مسلم ہے، جوزف ایک ارب پتی باپ کا اکلوتا بیٹا ہے، جس کے انگلیوں کے اشارے پر دنیا کی نعمتیں جمع ہو جاتی تھیں، وہ آزاد فضاؤں میں اڑنے والا عقاب تھا اور کنول جو پیشہ کے اعتبار سے ایک ڈاکٹر ہے، کے ارد گرد گھومتی ہے، کنول کی نہ ماں تھی نہ باپ ،ان کے علاوہ عبداللہ، ناعمہ کا کردار بھی موجود ہے، یوسف کا باپ یہودیوں کے اس طاقتور گروہ کا خاص ممبر تھا جس کی کوشش تھی کہ دنیا کے سبھی مالیاتی ادارے، ذرائع ابلاغ اور اہم دارالحکومت ان کے کنٹرول میں رہے، یہاں محسوس ہوگا کہ ہر فرد آزاد لگے گا لیکن حقیقت میں سب کچھ ان کی غلامی میں ہونگے، ہر فرد ان کے اصولوں کے مطابق جیے گا، یوسف کا باپ ان کی کمپنیوں کا اہم رکن تھا،یوسف کو ورثہ میں زندگی کی ہر آرائش ملی تھی اس کے باپ کو کنسر تھا، اب اس کی جگہ جوزف (یوسف) لینے والا تھا لیکن اسی اثنا میں جوزف کا خطرناک ایکسیڈنٹ ہوتا ہے، جوزف کے والد اپنے بیٹے کا بہترین علاج کروانا چاہتے ہیں اس کے لیے وہ ہسپتال سے رابطہ کرتے ہیں وہاں سے انہیں ڈاکٹر کنول کے بارے میں بتایا جاتا ہے، کنول ایک قابل مسلمان ڈاکٹر ہے،وہ جوزف کے گھر شفٹ ہوتی ہے، کنول نہ صرف اپنی خدمات بہتر طریقے سے انجام دیتی ہے بلکہ عبادات میں بھی جوزف کے لیے دعا کرتی ہے، آخر کار جوزف ٹھیک ہوتے ہیں، لیکن کنول کی محنت اور لگاو جوزف کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے،ساتھ ہی وہ کنول کے دین یعنی اسلام کا مطالعہ بھی کرتا ہے، وہ کنول کو شادی کا آفر کرتا ہے، حادثہ سے قبل اس کی ملاقات اچانک جہاز میں عبداللہ سے ہوتی ہے، وہ ایک ہی ملاقات میں اس سے متاثر ہوتا ہے، کنول سے دلچسپی کے بعد اس نے عبداللہ کی ویب سائٹ پر اسلام کی تعلیمات دیکھنا شروع کی، اس نے ساتھ ہی قرآن کریم کا مطالعہ بھی کیا، اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوکر وہ اسلام قبول کرتا ہے اور جب وہ اپنا فیصلہ کنول کو سناتا ہے تو وہ کہتی ہیں ’’جوزف، مذہب بدلنا ایک سادہ معاملہ نہیں، اس کے سماجی اور تہذیبی نتائج ہوتے ہیں، پھر میں اتنے دن تمہارے گھر میں رہی ہوں، تمہارے والد کو جانتی ہوں، اس پس منظر میں تمہارے لیے یہ کرنا بہت مشکل ہوگا، اگر مجھ سے شادی کے لیے یہ کیا ہے تو پھر اس کام کے نتائج کا سامنا نہیں کر سکوگے، اس لیے جذبات میں آکر کوئی فیصلہ نہ کرو‘‘۔(صفحہ 133)لیکن جوزف نے شعوری طور فیصلہ کیا تھا، بالآخر وہ شادی کرتے ہیں، قبول اسلام اور مسلمان لڑکے سے شادی، وہ بھی وہ شخص جو بہت ہی اہم عہدے پر فائز ہونے والا تھا، اس کو وہ کیسے برداشت کرتے۔بہرحال وہ لوگ کنول کو شہید کرتے ہیں۔     (جاری)