آہ! سید یعقوب دلکشؔ اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

سہیل سالم

دراز قد ،رنگین خال وخد۔سرخ چہرا ،جس پر متانت کا پہرا۔کالے کالے بال ،ادیب با جمال ۔آنکھیں چھوٹی چھوٹی ،مونچھیں موٹی موٹی ۔بڑے بڑے کان،شرافت کا دبستان ۔لمبی ناک،زبان بے باک ۔نامور فکشن نگار،تلاش ادب کا برخوردار،یہ ہے دبستان کشمیر کا نیا اسلوب ،جدید افسانے کا روشن باب سید یعقوب ۔دبستان کشمیر میں کشمیری زبان و ادب کو جن ستاروں نے اپنی چمک دمک سے زینت بخشی انہیں ستاروں میں ایک نایاب ستار ہ ’’سید یعقوب دلکش‘‘ بھی ہیں ۔سید یعقوب دلکش کا شمار ان جدید فکشن نگاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے کشمیر ی افسانے کو ایک نیا اسلوب عطا کیا۔ ۔ شہر خاص کے ادبی ستاروں میں ایک روشن ستارہ سید یعقوب دلکش بھی ہے۔آپ کا اصلی نام سید یعقو ب رضوی ہے۔3مارچ1954 میں شہر خاص کے ایک اہم زرخیز علاقے خانیار میں تولد ہوئے۔اپنے ہی علاقے میں میڑک کا امتحان پاس کر نے کے بعد اسلامیہ کا لج حول میں داخلہ لیا ۔اسلامیہ کالج سے گریجویشن کا امتحان پاس کرنے کے بعد میں1969 میںکشمیر یونیورسٹی سے ایجوکیشن میں پوسٹ گریجویشن کی اور 1970 میں محکمہ تعلیم میں ملازمت کی ۔محکمہ تعلیم میں مختلف عہدوں پر فائزہ رہ کر پرنسپل بوائزہایری سکنڈری جڈی بل سرینگر کی حیثیت سے سکبدوش ہوئے۔ سید یعقوب دلکش نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاہین تھیٹر گروپ خانیار سے کیا ۔مشتاق مہدی کی وساطت سے پران کشورؔ کی نگرانی میں ان کا پہلا ریڈیو ڈرامہ’’تیمیٔ لوب لال ‘‘ 1979 میں ریڈیو کشمیر سے نشر ہوا۔سید یعقوب دلکش کی اب تک کئی تصانیف منعۂ شہود پر آگئی ہیں ۔جن کے عنوانات کچھ اس طرح سے ہیں،مٹی کے دیئے (فسانے 1976 )،تخلیق گژھ وٹس(افسانے 1979 )،سیاہ (ڈرامے1985 )،اسی کوت گژھو(ڈرامے1998 ) ملہ خاش واتہ ضرور (ڈرامے2005) اور بند مکانس منز(افسانے2008 ) وغیرہ۔علاوہ ازیں انہوں نے ایک سو سے زیادہ ڈرامے لکھے ہیں ۔سید یعقوب دلکش کو ریاست اور بیروں ریاست مختلف اعزازت سے نوازا بھی گیا ہے۔ بقول پروفیسر شفیع شوق ،’’سید یعقوب کے بارہ افسانے ان کی کتاب بند مکانس منز، شائع ہو کر منظر عام پر آگئے۔افسانوں کے عنوان مثلا ’’گاڈاسن ‘‘،’’ڈیکس منز گولی‘‘ ،’’کلنڈرک سرپھ‘‘،’’بند مکانس منز‘‘ اور’’گر تبیلہ‘‘ اس بات کی طرح اشارہ کرتے ہیں کہ یہ افسانے فنٹیسی کا روپ دھار کررتجریدی کردار تراش کر اپنی کہانی بن لیتے ہیں۔سیدیعقوب دلکش کا اپنا ایک مخصوص اسلوب ہیں‘‘(کشمیری زبان و ادب کی تاریخ۔ص۔400 )
بند مکانس منز کے علاو ہ بھی سید یعقوب دلکش نے کئی علامتی اور تجریدی کہانیاں ،نئی تکنیک پر لکھی جس کا رجحان آج کل کے کشمیری افسانے میں کم دیکھنے کو ملتا ہے۔اس میں شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے کہ سید یعقوب دلکش نے کشمیر ی فکشن خاص کر افسانے کو ایک نیا اسلوب فراہم کیا ہے۔جس میں وہ کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔ ان کے ڈراموں کا مجموعہ ’’ملہ خاش واتہ ضرور2005 میں’ شائع ہوا جو کہ 4 ڈراموں پر مبنی ہے جن کے عنوانات کچھ اس طرح سے ہیں۔ملہ خاش واتہ ضرور،ابیوز،مری گے خالی اور ارژ کالہ ہیں۔ڈرامہ ’’ملہ خاش واتہ ضرور ” میں سید یعقوب دلکش نے اندھیرے،جہالت ،آگ ،خوف اوروحشت کے ذریعے فردوس بریں میں ہو رہے روشنی پر ظلم و تشدد کی ہولناک عکاسی کی ہے ۔جس میں انسانی واردات ،ظلم،قتل وغارت،بے چینی،افراتفری،انتشار،جنگ و جدل اور غیر یقینی صورت حال ہر طرف دکھائی دے رہی ہے۔ لاشیں منتظر ہوتی ہے قبروں میں اترنے کے لئے اور ہر طرف آہ و زاری ہوتی ہے۔ اس لئے ہر ایک کی زبان پر یہ جملہ ہوتا ہے کہ ’’گورکن ضرور آئے گا‘‘انھیں دفن کرنے کے لئے۔انھوں نے اپنے ڈراموں میں انسانی خواہشات کو دلکش اسلوب کے ساتھ پیش کرنے کی کامیاب سعی کی ہے۔جس کی ایک عمدہ مثال ان کا ڈرامہ ’’ابیوز‘‘ہے۔یہ ڈرامہ پڑھتے ہوئے نئی نسل کے احساسات، جذبات اور مشاہدات کا ہمیں بھر پور ادراک حاصل ہوتا ہے کہ مختلف چیزوں کا غلط استعمال کر کے ہم اپنا قیمتی وقت اور قیمتی زندگی کس طرح برباد کر سکتے ہیں۔سیدیعقوب دلکش کے احساسات و جذبات ، تجربات اور مشاہدات نے ان کو فکشن کی دنیا میں قدم رکھنے کے لئے اکسایا ہے۔ان کی خاص خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اپنی مقامی صورتحال اور اپنی مٹی سے جڑے رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔انہوں نے اپنے افسانوں اور ڈراموں کا اسلوب خود تلاش کیا ہے۔سید یعقوب کی کہانیاں احساس ،درد و غم اور تباہ و برباد ہوئی انسانیت ،اخلاقیات ،سماجیات اور بے ضمیری میں غرق ہوئی زندگی کی کہانیاں ہیں۔
دلکش نے ہمیشہ دوستی کا دامن دلکشی کے ساتھ تھام کر رکھا، دشمنی سے کبھی بھی رشتہ نہیں جوڑا ، اپنے دشمنوں کو بھی دوستی کے جام سے تر تازہ رکھتے تھے ۔ان کے کرم فرمائوں کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ ۔آپ کے ڈرامے ٹی وی اور ریڈیو سے نشر ہوتے رہتے تھے۔بقول سلیم سالک’’سید یعقوب دلکش کشمیری زبان کے ہمہ جہت فکشن نگار ہیں۔فلسفی انداز،سمندر سوچ اور اپنی دنیا میںمگن شخصیت لگ بھگ چالیس سال سے کشمیر ی فکشن کی آبیاری کر رہے ہیں۔ان کی تخلیقات میںعلامت کا برتائو زیادہ ملتا ہے‘‘۔ شیرازہ(کشمیری) میں وقفے وقفے سے آپ کے افسانے شائع ہوتے رہے ہیں اور قارئین سے داد و تحسین ملتی رہی ہے۔
ادب کے تئیں آپ کی نظر کافی وسیع تھی جس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ آپ نے بیشتر ادبی تحریکات و رجحانات کو پڑھا بھی اور سمجھا بھی ہے۔سید یعقوب نے کلاسیکی ادب کے علاوہ دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی تاریخ،سماجیات، اقتصادیات اور سیاست کا بھر پور مطالعہ بھی کیا تھا جس کی وجہ سے انہیں برصغیر کی تاریخ اورسماجیات سے وابستہ مختلف مسائل و مشکلات پر کافی عبور حاصل تھا۔ان کا دل غنی بھی اور دل کش بھی تھا۔سید یعقوب نے اپنی زندگی میں کبھی بھی مذہب ، فرقوں یا ذات پات کو اہمیت نہیں دی۔ ان کے بیشتر افسانوں اور ڈراموں میں وادی کشمیر کا دکھ اور درد اپنے جوبن پر نظر آتا ہے۔آپ کی تخلیقی دنیا کی سیر کرنے کے بعد اس بات کا اعتراف ہر کوئی ادب نواز کرسکتا ہے کہ آپ نے کشمیری زبان و ادب کو اپنے تخلیقی جواہرات سے مالا مال کر دیا۔ الغرض زندگی کی کٹھن راہوں کا سفر طے کر کے آخر کا ر10 مارچ2023 کو اصلی سفر پر روانہ ہوئے اور سارے ادبی شہر کو ویران کر کے گیا ۔بقول خالد اشرف ؎

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو و یران کر گیا
���
رعناواری سرینگر،موبائل نمبر؛9103654553