آوار ہ کُتّےاور بے بس بستیاں! فکرو ادراک

بٹ شبیر احمد
کتے جب تک بھونکتے ہیں تب تک دوسروں کی نیند اور آرام میں خلل ڈالتے ہیں ۔ ماوں، بہنوں اور بچوں،بیٹیوں میں ڈر اور خوف بھی پیدا کرتے ہیں لیکن جب یہی کتے بھونکنے کے علاوہ کاٹنے پہ آتے ہیں تو یہ آدم خور بن کر انسانی زندگی کے دشمن بن جاتے ہیں اور پورے گاوں،محلے اور شہر کا امن و سکون چھین لیتے ہیں ۔آدم خور جانور ہو یا آدم خور انسان۔یہ نہ ذات پات دیکھتے ہیں نہ مذہب ۔نہ رنگ و نسل دیکھتے ہیں اور نہ مقام مرتبہ ۔بچے ،بوڑھے،مرد و زن کے لئے یہ خطرہ جان بن جاتے ہیں ۔
سال 2016 کی بات ہے۔میں کھلسی( لداخ )میں ڈیوٹی دے رہا تھا ۔ایک روز ایک کتے نے معصوم چھوٹی بچی کو کاٹ لیا، اس کا اتنا سنجیدہ نوٹس لیا گیا کہ دو چار دنوں کے بعد ہی ہم نے دیکھا کہ سارے کھلسی گائوں میں کتوں کو زندہ پکڑ کر گاڑی میں لے جا رہے تھے ۔میں نے سوچا  شاید یہاں سے لے جا کے انہیں کسی دوسرے گائوں میں یا کسی غیر آبادی والی جگہ پہ چھوڑا جائے گا کیونکہ ہمارے یہاں یہی مشاہدہ ہوتا تھا کہ شہر سے گاڑیوں میں بھر بھر کے انہیں گائوں اور قصبوں میں چھوڑا جاتا تھا، اس لئے ان کو محلوں اور گلیوں میں دیکھ کر ہی اندازہ ہوتا تھا کہ یہ نئے نئے یہاں چھوڑئے گئے ہیں ۔لیکن یہاں جگہ کی تبدیلی والا معاملہ نہیں تھا ۔یہاں انسانی زندگی کی اہمیت اور حفظ و امان والی بات تھی ۔حقیقت جاننے کے بعد معلوم ہوا کہ ان لوگوں نے سپریم کورٹ کے Animal Birth Control  فیصلے کو عملی جامہ پہنایا ،جس میں کہا گیا ہے کہ انڈین پینل کوڈ سیکشن 428/429 اور آرٹیکل،(51Ag  کے تحت نس بندی کی جاسکتی ہے ۔ پھر ہم اس جگہ پہ بھی گئے، جہاں ان کتوں کی نس بندی کرکے پوری نگرانی کے بعد انہیں چھوڑ دیا جاتا تھا ۔
اس کے بعد پھر وہی گنے چنے کتے ہی نظر آتے تھےاور ان کی کیا مجال کہ وہ پھر سے کسی کو کاٹنے کے لئے دوڑتے ۔ ان کے خلاف جو کریک ڈاون کیا گیا تھا، وہ اس بات کا ثبوت تھا کہ ان لوگوں کے لئے کسی انسانی جان کی کتنی قدروقیمت تھی ۔ایک زمانہ ایسا تھا جب بستیوں اور محلوں میں کتے نظر آتے تھے مگر اب جہاں جائو،جدھر دیکھوکتے ہی کتے نظر آتے ہیں ۔بازاروں،محلوں،مسجدوں اور مندروں کے باہر ۔باغوں اور کھیتوں میں اسکولوں اور ہسپتالوں کے باہر غرض زمین کا کوئی ٹکڑا یہاں ایسا نہیں بچا ،جہاں کتوں کی بھر مار نہ ہو اور آئے روز کسی نہ کسی حادثے کا سبب بن رہے ہیں، انہوں نے لوگوں کا دائرہ حیات تنگ کرکے رکھ دیا ہے ۔نہ جانےکتنے معصوم بچوں اور بزرگوں کے لئے یہ کتے باعث وبال بن گئے ۔ ان کتوں کی ہڑبھونگ نے پوری وادی کو حیران و پریشان کر دیا ہے۔ لیکن کوئی حاکم وقت ٹس سے مس نہیں ہوتا ہے ۔اگر انسانی معصوم جانوں کو بچانے کے لئے کوئی آپشن موجود ہے تو پھر کیوں انسانی جانوں کو خطرے میں دیکھ کر بھی حاکم وقت تماشائی بنے بیٹھے ہیں ۔سمارٹ سٹی اور سمارٹ قصبوں،خوبصورت گائوں اور دلکش بستیوں کے لئے سب سے پہلے یہ لازمی ٹھہرتا ہے کہ وہاں کے لوگ حفظ و امان محسوس کرے ۔وہاں کے بچے ،بوڑھے اور عورتیں آوارہ کتوں کا شکار نہ بنے ۔ اگر اس حساس معاملے کی جانب ابھی بھی توجہ نہیں دی گئی تو بہت جلد وقت آئے گا جب ہر شخص کا اکیلے میں باہر نکلنا دشوار بن جائے گا اور کتوں کے خوف اور ڈر کی وجہ سے بچے اسکول جانا بند کر دیں گے ۔شہروں اور قصبوں کی خوبصورتی پر کروڑوں میں خرچ کیا جارہا ہے ،یہ خوش آئند قدم ہے مگر جب ان قصبوں اور شہروں کے ہر نکڑ پہ کتے آدم خور بن کر آدم کو بے دم کر دیں اور آئے روز اپنی تعداد میں بے تحاشا اضافہ کرتے جائیں تو انسانی جان کی کیا وقعت ہے۔ یہ خوبصورتی کس کام کی ہے ۔ جس محلے کی آبادی دو سو کے قریب ہیں، وہاں سو کے قریب کتے پائے جاتے ہیں اور اغلب ہے کہ آنے والے وقت میں کتے ہی اس تعداد میں آگے بڑھ جائیں پھر حاکم وقت کے لئے بھی باہر نکلنا دشوار ہوگا ۔اس لئے حکام کو ان کتوں کے بارے میں سنجیدہ نوٹس لیتے ہوئے چند ٹھوس اقدام اٹھانے چاہیں تاکہ ان کتوں سے کسی جان کو خطرہ لاحق نہ ہو۔ ویسے دیکھا جائے تو اب میونسپل کارپوریشن بھی کافی فعال ہوگیا ہے ۔ان کی آمدنی بھی اب تسلی بخش ہے ،ان کو بھی عوام الناس کے اس معاملے کی طرف فوری توجہ دینی چاہیے اور ہر طرح کی کوشش کرنی ہوگی تاکہ آوارہ کتوں کی آوارگی اور بڑھتے ہوئے تعداد پر قدغن لگائی جائے۔
(رابطہ ۔ 9622483080)