آنکھوں کا درد کون پڑھے ؟ فکر و فہم

حافظ میر ابراہیم سلفی
درد اسم جامع ہے جو وسیع معنوں میں ایک تجربہ ہوتا ہے، جس میں بے لطفی اور متصادم جذبے شامل ہوتے ہیں ،جو کسی نقصان یا نقصان کے امکان سے متعلق ہو، جو کسی شخص سے متعلق ہو۔درد ایک بنیادی عنصر ہے جو کسی ہم دردی اور دل جمعی کے مظاہرے کی عین ضد ہو، اس کا بالکل اُلٹ لطف یا خوشی ہے۔اہل قلم نے درد کی مختلف تعریفات بیان کی ہیں ۔یہاں بات طبی درد کی نہیں ہورہی بلکہ اس درد کی ہورہی ہے جو زندگی کے مختلف تجربات سے پیدا ہوتی ہے جو کبھی کبھی بیان کرنا یا محسوس کروانا ناممکن ہو جاتا ہے ۔ہمارا معاشرہ مختلف افراد ،مختلف اذہان اور مختلف داستانوں پر مبنی ہے ۔ہر ایک انسان کے ساتھ ایک کہانی جھڑی ہے،ہر انسان کی پریشانیاں مختلف ہیں ،ہر انسان اپنی جنگ خود لڑ رہا ہے ۔لڑتے لڑتے جب تھکان پیدا ہوتی ہے ،مایوسی چھاجاتی ہے ،ناامیدی غالب آجاتی ہے ،دل کا بوجھ آنسوؤں کی شکل اختیار کرلیتا ہے ،زبان گونگی پڑجاتی ہے ،جذبات کی ترجمانی کے لئے الفاظ نہیں ملتے ۔اسی کیفیت کو درد سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔کہیں رشتوں میں پھوٹ پڑجانا ،کہیں رزق کی تلاش میں بھٹکتے رہنا ،کہیں لاحاصل تمناؤں میں الجھ جانا ،کہیں جدائی کے زخم کھانا ،کہیں اپنوں سے جڑی امیدوں کا ٹوٹ جانا ،کہیں دھوکہ کا سامنا کرنا ،کہیں عیال کی زمہ داری سے بے بس ہو جانا درد کی اس کیفیت کو جنم دیتی ہے ۔انسانی فطرت ہے کہ ایسی کیفیت میں کسی سہارے کی تلاش پیدا ہوتی ہے ،اپنا سر رکھنے کے لئے کسی کے کندھے کی حاجت پڑتی ہے ،دل کو سمجھانے کے لئے کسی کے میٹھے بول کی ضرورت پڑتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا درد کوئی سمجھ سکتا ہے ،کیا اپنی باطنی کمزوریاں کسی کے سامنے رکھی جاسکتی ہے؟
سماج کا ہر طبقہ اس بات کا مکلف ہے کہ کسی کی اجڑی بستی کو آباد کرنے کی سعی کرے ۔لیکن ہماری غفلت اس انتہا پر ہے کہ کسی کا آشیانہ جل رہا ہوتا ہے اور ہمارا ضمیر پھر بھی خواب خرگوش میں سویا رہتا ہے ۔اپنی اس بے بسی کو دور کرنے کے لئے ہم کسی ساتھی کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ ہمارے قدم social media پر آکر رک جاتے ہیں ۔سوشل میڈیا یعنی virtual world  جہاں ہر چیز بناوٹی شکل میں موجود ہے شاید جذبات بھی۔اس دنیا میں آپکو ہمدرد بھی ملیں گے ،آپ سے باتیں کرنے والے بھی ملیں گے ،آپکو حوصلہ دینے والے بھی ملیں گے لیکن ان سب چیزوں کا انجام استحصال اور blackmailing پر ہوتا ہے ۔مطلقاً یہ بات نہیں کہی جارہی بلکہ اکثریت کی ترجمانی کی جارہی ہے ۔انسان اپنے والدین سے زیادہ ،اپنے خونی رشتوں سے زیادہ ایک اجنبی پر بھروسہ کرنے لگتا ہے لیکن انتہا کافی بھیانک ہوتی ہے ۔راقم کے نزدیک اس کے اولین ذمہ  دار تو والدین ہی ہیں جنہوں نے اپنے اور اولادوں کے درمیان اتنا فاصلہ رکھا ہے کہ وہ اپنی پریشانیاں ان کے سامنے بیان نہیں کرپاتے۔اپنے احساسات کو کسی اجنبی کے ساتھ share کرنے والا زمینی حقائق سے دور جاکر ایک خیالی دنیا میں لیل و نہار گزار رہا ہوتا ہے ۔والدین پر لازم ہے کہ وقت رہتے اپنے بچوں کی اندرونی گھٹن کو محسوس کیجئے اور ہر ایک دوست کی طرح دوا کرنے کی کوشش کیجئے، ورنہ کوئی اجنبی آکر آپ کے مستقبل کو روندھ کر رکھ دے گا۔فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ،’’تم میں سے ہرشخص حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا (حاکم سے مراد منتظم اور نگراں کار اور محافظ ہے) پھر جو کوئی بادشاہ ہے وہ لوگوں کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کا سوال ہو گا(کہ اس نے اپنی رعیت کے حق ادا کیے، ان کی جان و مال کی حفاظت کی یا نہیں؟) اور آدمی اپنے گھر والوں کا حاکم ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال ہوگا اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی اور بچوں کی حاکم ہے، اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا اور غلام اپنے مالک کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کے متعلق سوال ہو گا۔ غرضیکہ تم میں سے ہر ایک شخص حاکم ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیت کا سوال ہو گا۔ ‘‘(حدیث صحیح)
والدین کے بعد انسان کی توقعات دوستوں سے جڑی ہوتی ہیں لیکن حسرت یہ ہے کہ عصر حاضر میں دوستی کا رشتہ بھی مفاد کی بنیاد پر تعمیر ہوتا ہے۔مادہ پرستی کی اس فضا نے رشتوں کی حقیقت سے ہمیں محروم کردیا ہے۔جہاں جس قدر زیادہ دنیاوی اغراض پورے ہوں وہاں اس قدر دوستی کا رشتہ مضبوط ہوتا ہے اور حصول مفاد کے ساتھ ہی ایسے رشتے زیر زمین دفن ہوجاتے ہیں ۔انسان اپنی اندرونی کیفیت،چھپے ہوئے راز کسی کے سامنے کھول کے رکھ دیتا ہے لیکن مدت قلیل میں ہی یہ نازک راز سربازا نیلام ہوجاتے ہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انکی نشر و اشاعت کی جاتی ہے۔ یاد رکھیں یہ جذبات ،یہ دل کی کسک انمول ہوتی ہے ،کسی کی زندگی کی کمائی ہوئی لامثال میراث ہوتی ہے ،انکی خیانت نہ کریں ،آنسوؤں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ،بھروسے کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ،کوئی اپنی زندگی کے شب و روز آپکے سامنے کھول کے رکھ دے تو قدر کریں ،آپ خوش قسمت ہیں کہ کوئی آپکو آپنی درد کا مسیحا سمجھ رہا ہے ،اس اعلیٰ منصب کی قدر کریں ۔یہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ دوستی اور دل کا میلان کسی ایسے شخص سے رکھیں جو اس کے لائق ہو ،محتاط رہئے ۔فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ،’’اے اسلام لانے والے زبانی لوگوں کی جماعت ان کے دلوں تک ایمان نہیں پہنچا ہے! مسلمانوں کو تکلیف مت دو، ان کو عار مت دلاؤ اور ان کے عیب نہ تلاش کرو، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب ڈھونڈتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کا عیب ڈھونڈتا ہے، اور اللہ تعالیٰ جس کے عیب ڈھونڈتا ہے، اسے رسوا و ذلیل کر دیتا ہے، اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہو‘‘(سنن ترمذی)سعادت مند ہوتے ہیں ایسے لوگ جنہیں سمجھنے والے ساتھی اور رہنمائی کرنے والے دوست مل جاتے ہیں ۔اور یقیناً خو ش نصیب ہیں ایسے اشخاص جن کا دوست ،رازدار اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس ہے ۔یقین کریں کہ اللہ کے سامنے اشکبار آنکھوں سے فریاد کرنے میں الگ ہی مٹھاس ہے ،اللہ کے حضور آنسوؤں بہانے کی الگ ہی منزلت ہے کیونکہ ان آنسوؤں کی حقیقی قدر کرنے والا اللہ ہی کی ذات ہے۔اللہ کے سامنے تفصیلات رکھنے کی ضرورت نہیں وہ تو دلوں کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے ۔جب ہر طرف اندھیرا چھا جائے تب اللہ تعالیٰ سے امید کی کرن روشن ہوجاتی ہے ۔اپنی خلوت کو اللہ کے نام کیجئے ،آپ مایوس نہیں ہونگے۔جب سب راستے بند ہو جائیں در حقیقت یہی راستہ اللہ کی طرف لے جانے والا ہوتا ہے ۔رب العزت نے سیدنا ابراہیم ؑکو آگ سے بچایا ،یونسؑ کی حفاظت ظلمات میں کی ،ایوبؑ کو شفا عطا کی ،یعقوبؑ کو یوسف ؑسے ملایا ،موسیٰ ؑ کو فرعون پر فاتح بنایا تو آپکی پریشانیاں کیوں دور نہیں کرے گا؟ بس یقین کامل سے اسکی طرف متوجہ ہوجائیے ،آپکی زندگی میں بہار قائم ہوگی ۔ان شاء اللہ رابطہ6005465614