آسرا افسانہ

راجہ یوسف

’’ ہاہاہاہاہاہاہاہا‘‘کمرے میں غیر مانوس قہقہہ ابھراتو میں چونک گیا۔بڑی عجلت سے اپنے دائیں بائیں دیکھا ۔ اِدھر اُدھر تلاشا۔ سارے کمرے پر طائیرانہ نظر ڈال دی مگرآس پاس کوئی نہ تھا۔ بس میں تھا اور میری تنہائیاں تھیں جو میری شریکِ سفر تھیں، میری ہمدم بھی اور دوست بھی۔ قہقہہ بڑا کھوکھلا تھا لیکن اس میں حقارت تھی، طنز تھا ، بے بسی تھی اوریہ میرے اندر سے ہی پھوٹا تھا، جیسے کوئی میرے اندر بیٹھا میرا مذاق اڑا رہا تھا ۔ یہ طنز تھا کہ طعنہ۔۔۔ مذاق تھا کہ مخول۔۔۔ ٹھٹھاہ تھا یا مسخرہ پن۔۔۔۔۔ ابھی میں اپنے اندر سے پھوٹے قہقہے کاتجزیہ ہی کر رہا تھا کہ میرے پاپا کی آواز ا ٓگئی ،جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ۔
ــ’’ ارے ساجد ابھی تک سویا پڑا ہے ۔ سورج سر پرا ٓگیا ہے ۔ بیٹا دیر تک سونا بہت بڑا گناہ ہے۔ اِس برکت جاتی رہتی ہے‘‘۔ میں ہڑ بڑا کر بیٹھ گیا۔ سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا اور کافی دیر کے بعد ذہن ودل کو یکجا کرنے میں کامیاب ہوا ۔ پاپا کی آواز ہمیشہ مجھے بھونچال کی آمد آمد جیسی لگتی تھی مگر پھر معمولی جھٹکے کے بعد سب کچھ معمول پر آجاتا تھا۔ لیکن یہ آوازمیرے خیالی سپنوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیتی تھی۔
’’ ساجد بیٹا زندگی کی گاڑی کو آگے لے جانے کے لئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے ۔ بیٹا اگر ابھی تمہاری نوکری نہیں لگ رہی ہے تو غم کس بات کا ہے ۔ جب تک تم اپنے پاپا کا ہاتھ کیوں نہیں بٹاتے ہو‘‘ ممی پہلے کچھ کھلاتی تھی اور پھر پیار سے سمجھاتی بھی تھی۔
’’ ممی میں نے کتنی بار آپ کو بتادیا ہے کہ مجھے پاپا کا یہ کام نہیں کرنا ہے۔ یہ ٹابا ڈابہ والا کام مجھ سے نہیں ہوگا ممی ۔میں نے اس لئے MBA نہیں کیا ہے کہ میں گھر آکر یہ ہوٹل کا کام کروں۔ لوگ چپڑ چپڑ کھانا کھاتے رہیں، میں ان کے برتن اٹھوا لوں اور میز کرسیوں کی صفائی کرا دوں۔ یہ بھی کوئی کام ہے کیا۔ آپ پا پا سے مجھے پیسے دلادو میں عرب جاوں گا اور پیسے کما کر لاوں گا ‘‘ ممی میری باتیں سن کر خاموش ہو جاتی تھی۔
ممی اور پاپا کی باتوں پر کان کون دھرتا تھا۔ وہ دونوں تو صبح و شام کچھ نہ کچھ کہتے ہی رہتے تھے۔ میں بھی ایک کان سے سنتا تھا اوردوسر کان سے نکال دیتا تھا۔۔۔۔ پھر بھی میں ممی کو استعمال کرکے پاپا سے پیسے لیکر دوبئی یا کسی دوسرے ملک کو چلا بھی گیا ہوتا لیکن روحی کے پیار نے میرے پیروں میں زنجیر ڈال دی تھی۔ روحی جو میری جان تھی ، جس کے بغیر میری زندگی لق ودق سحرا سے بھی زیادہ ویران ہوتی۔ اب تومجھے دو ہی کام کرنے میں مزا آتا تھا۔ ایک روحی کے ساتھ گھنٹوں فون پر باتیں کرنا، یا اپنے کمرے میں بیٹھ کر خوبصورت سپنے بننا۔ جب بھی ممی پاپا کی کِھٹ پٹ سے میں پریشان ہو جاتا تھا تو میں گھر سے نکل جاتا تھا ،اور کسی اچھے سے ریسٹورنٹ میں یا کسی خوبصورت Tourist Resort پر روحی کے ساتھ پیار بھری باتیں کرتا تھا،ایسے ہی اپنے اداس دل کو راحت اور منتشرذہن کو سکون دینے کی کوشش کرتا تھا۔ پھر دیر سے گھر واپس آکر سیدھا اپنے کمرے میں چلا جاتا تھا ، جہاں میرے خیالی سپنے میرے انتظار میں بے قرار ہوتے تھے۔ مجھے میری خیالی دنیا بہت پیاری لگتی تھی۔ مجھے ہمیشہ لگتا تھا کہ میں یہاں کا واحد راجکمار ہوں اوریہاں صرف میری مرضی چلتی ہے۔ زمیں پر راج کرنایا آسمانوں کو تسخیرکرنا میرے لئے بڑی بات نہیں ہے۔میں اکثر زمین پر رینگتی شورلیٹ جیسی گاڑی کو چھوڑ کر ہوائی ہیلی کاپٹر چاپر میں بیٹھ کر بادلوں کے سنگ تیرتا رہتا ہوں۔ جہاں کی دنیا ریشم کی تاروں سے نرم اور روئی کے گالوں سے نازک ہے۔یہاں ہوائوں کے سنگ مدھر اور میٹھا ساز کانوں میں رس گھولتا ہے اورخوشبو ذہن ودل کو معطر کر دیتی ہے ، آنکھوں کو تراوٹ بخشنے کے لئے نیلا آسمان اور آسمان میںلاکھوں تارے۔۔۔ جہاں کا میں اکیلا وارث ہوں۔
پر آج میری یہ ساری خیالی دنیا میرے ہی اندر سے پھوٹے ایک کھوکھلے قہقہے سے بکھر کر رہ گئی تھی۔ حقیقت کے سامنے ریشم جیسے نرم و نازک بادلوں کے گالے آب آب ہو رہے تھے۔۔۔ ساز مدہم پڑ چکے تھے ۔ اورآسمانوں میں بنائے گئے خیالی گھروندوں کا سنہرا سازوسامان زمین کے خس وخاشاک اور تنکوں سے بھی زیادہ حقیر لگ رہا تھا۔
احساسِ ندامت سے جب میں نے خود کو خیالی دنیا سے باہر کھینچ لایااور غور سے اپنے ارد گرد و پیش کو دیکھاتو جب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔اب نہ پاپا کی دھماکہ دار ٓواز آ رہی تھی اور نہ ممی کے ممتا بھرے بول ہی سنائی دے رہے تھے۔ وہ کب کے زندگی کی جنگ ہار چکے تھے اورمیری بیوی روحی میرے ساتھ کسمپرسی کی زندگی گذار رہی تھی ۔ میری تین کمسن بیٹیاں یاس اور ناامیدی کے ساتھ روحی کا چہرہ تکتی رہتی تھیں۔اور روحی ۔۔۔ وہ بے بسی سے مجھے دیکھتی رہتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے چہرے کی شوخی اور باتوں کی چاشنی کب کی ختم ہوچکی تھی اور میں اب اُس سے آنکھیں ملانے کی جر اء بھی نہیں کر پا رہا تھا۔
پاپا کے ڈھابے کا زنگ آلودہ شٹرتیز گھڑگھڑاہٹ کے ساتھ اوپر اٹھا تو اڑوس پڑوس کے سارے دکاندار، ٹھیلے والے اور راہگیر میرے پاس آگئے۔ میری پیٹھ تھپتھپائی، مجھے حوصلہ دیا، اور میری مدد کے لئے تیار بھی ہوگئے ۔
’’ ساجد بیٹا زمانہ بدل گیا ہے ،اب یہ ٹابے ڈھابے کا زمانہ لد گیا ہے۔ بیٹا تم MBA کرکے آئے ہو اور زمانے کے ساتھ چلنے کے لئے تمہیں خود کو اور ٹابے کو Update کرنا ہوگا ۔ تم زمانے سے آگے نکل جائو تاکہ زمانہ تیرے ساتھ ساتھ چلنے پر مجبور ہوجائے۔ اس کے لئے ہم سے جو بھی مدد چاہئے وہ بے دریغ کہہ دینا اور یہ ساتھ میں جو بینک ہے، یہاں تمہارے پاپا کی اچھی Reputation رہی ہے، جس کا تم اچھا فائیدہ اُٹھا سکتے ہو‘‘ یہ عبدالرحمان تھا جو پڑوس میں دکانداری کرتا تھا، پاپا کا اچھا دوست رہا ہے ۔۔۔اور آج میرا مہربان ۔
پھر مختصر وقت میں میرے گھر کا نقشہ ہی بدل گیا ۔میری بیٹیاں میرے گھر کی تیں شہزادیاں لگ رہی تھیں ۔روحی کے چہرے پر رونق لوٹ آئی تھی ۔ اوروہ زرق برق لباس میں نئی نویلی دلہن جیسی لگ رہی تھی۔اب مجھے احساس ہورہا تھا کہ حقیقت کی دنیا میری خیالی دنیا سے بہت زیاد ہ حسین اور خوبصورت تھی۔۔۔
مگر۔۔۔ جب تک میں اپنا بہت ساراکھو چکا تھا۔
���
اسلا م آباد،اننت ناگ، موبائل نمبر؛9419734234