آزادی اور جمہوریت ۔ علماء و مدارس کا اہم کردار ! حال و احوال

جاوید اختر بھارتی

بعض لوگ کہتے ہیں کہ جمہوریت کا کیا مطلب ہے تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارے ملک میں تقریر و تحریر کی آزادی ہے، ووٹ دینے، ووٹ مانگنے اور سیاسی پارٹی بنانے کا اختیار ہے ، نگر پنچایت کے سبھاسد سے لے کر اسمبلی و پارلیمنٹ کے ارکان تک اور گرام پنچایت کے پردھان سے لے کر ملک کے وزیراعظم تک عوام کے سامنے جوابدہ ہیں آئین کے دائرے میں رہ کر سب کو اپنی بات کہنے کا حق ہے یہی جمہوریت ہے۔
یہ صد فیصد سچائی ہے کہ علماء کرام کی بدولت ہی بھارت انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا ہے اور آج بھی مدارس میں ملک سے وفاداری کی تعلیم دی جاتی ہے ،امن و سلامتی کا پیغام دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں جب بھی کوئی مسئلہ درپیش آیا ہے تو مسلمانوں نے آگے بڑھ کر ملک کی حفاظت کی ہے، اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیا ہے۔ اس لئے نہ تو مسلمانوں پر شک کی گنجائش ہے اور نہ ہی دینی مدارس پر انگلی اٹھانے کی گنجائش ہے ۔ سیاسی پارٹیوں اور حکومت کے فیصلوں پر احتجاج و خیر مقدم دونوں کا اختیار ملک کے آئین نے دیا ہے اور آئین تب بنا ہے جب سبھی مذاہب کے ماننے والوں نے صف آرا ہوکر انگریز جیسی ظالم سامراج کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور ہندوستان کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرایا۔
وقتاً فوقتاً کچھ فرقہ پرست جس طرح بدزبانی کر تے ہیں اور دینی مدارس پر جو بیہودہ الزامات لگا تے ہیں،وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جہاں اسلام ہوگا، وہاں سلامتی ہوگی ،جہاں ایمان والے ہوں گے وہاں امن و امان ہوگا کیونکہ اسلام کے معنیٰ ہی سلامتی کے ہیں اور سلامتی کی ہی تعلیم اسلام دیتا ہے۔ ماضی میں جو پورے ملک میں احتجاج اور مظاہرہ ہورہا تھا اسے قطعی طور پر مذہبی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی،بلکہ جس طرح ملک آزاد کرانے میں ہر مذاہبِ کے لوگوں نے حصہ لیا تھا ،اسی طرح آئین و جمہوریت بچانے کے لئے اور جمہوریت کی شان بڑھانے کے لئے ہر مذاہبِ کے لوگ احتجاج و مظاہرے میں حصہ لے رہے تھے، اس لئے کہ ہر انصاف پسند و سیکولر ازم میں یقین رکھنے والے کو اس بات کا احساس ہورہا تھا اور احساس ہورہا ہے کہ ملک کےمسلمانوں کے ساتھ ہورہے ناروا سلوک اور زیادتیوں سے سے ملک کا ہی نقصان ہوگا۔اس لئے ملک میں فرقہ پرستی کا خاتمہ ہوجائےاور پوری طرح امن و سکون قائم رہے، یہ ملک کے ہر شخص کی ذمہ داری ہے۔
مسلمانوں کو بھی اپنے آباؤ و اجداد کی تاریخ کو یاد رکھنا ہو گا کیونکہ جو قوم اپنے اسلاف کی تاریخ بھلا دیتی ہے وہ قوم سیاسی طور پر اپنا وجود کھو دیا کرتی ہے، کہیں اس کی کوئی شناخت نہیں ہوتی اور وہی حال آج ملک میں مسلمانوں کا ہے ۔اس لیے جمہوریت میں سیاسی پہچان کا ہونا لازمی ہے اور سیاسی پہچان تبھی قائم ہوگی جب ہم اپنے اسلاف کی تاریخ سے روشناس ہوں گے۔آج علماء کرام پر مقدمات درج کئے جارہے ہیں جبکہ اس ملک کو آزاد کرانے کیلئے علماء کرام نے سروں پر کفن باندھے انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے ہزاروں ہزار کی تعداد میں شہادت پائی ہے۔
ریشمی رومال کی تحریک علماء کرام نے چلائی، انقلاب زندہ باد کا نعرہ علماء کرام نے لگایا ، گاندھی جی کو مہاتما کا خطاب علماء کرام نے دیا، تقسیم ہند کی مخالفت علماء کرام نے کیا، جامع مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر انگریزوں کے خلاف خطاب علماء کرام نے کیا، ملک کی آزادی کے بعد جب دستور ہند مرتب ہوا تو سب سے پہلے خیرمقدم علماء کرام نے کیا، قدم قدم پر ملک سے حب الوطنی کا ثبوت علماء کرام نے دیا اور ہزاروں علماء نے ملک کو آزاد کرانے کے لئے اپنی جانیں قربان کیں، ان کا تعلق اسی مدارس سے تھا جن مدارس پر آج کچھ فرقہ پرست گھناؤنے الزامات لگارہے ہیںاور ہندو مسلم اتحاد کو توڑنےکا ٹھیکہ لے چکے ہیں،اُنہیں نہ تو ملک کی پرواہ ہے اور نہ ملک کی عوام کی پرواہ ہے، نہ آئین کی پرواہ ہے نہ عہدے کے وقار کا لحاظ ہے۔ بس سروں پر غرور سوار ہے، زبان درازی، بدکلامی، بدزبانی، گالی اور دھمکی و اشتعال انگیز بیان بازیاں کرنا ان کا مشغلہ بن گیا ہے۔ آج ہماری صفوں میں بھی ایسے تنگ نظر بھی پیدا ہو گئے ہیںجو ملک کی آزادی سے متعلق بھی مضامین لکھتے ہیں، ان کے مضامین سے اختلافات، تعصبات، بغض حسد ،نفرت کی بو آتی ہے ۔ہمارے نزدیک بلا تفریق مذہب و ملت وہ سب قابل احترام ہیں، جنہوں نے ملک کو آزاد کرانے میں جان و مال کی قربانی دی ہے۔
[email protected]