۔70سال سے لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہوئی نہ کبھی ہوگی

سرینگر// 4بار ڈیڈ لائنوں کےلئے توسیع ملنے کے باوجود بھی تین گھرانوں کےلئے ایک بجلی ٹرانسفارمر نصب کرنے اور بجلی کے بوسیدہ ڈھانچے کو بدلنے کےلئے شروع کی گئی سکیم آر اے پی ڈی آر پی9سال بعد بھی مکمل نہیں ہورہی ہے جبکہ ریاست کے 30اضلاع میں اس سکیم کے تحت سال2016.17میں 1817.26 کروڑ روپے واگذار بھی ہوئے ہیں ۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ سکیم در اصل پرائیوٹیائزیشن کی طرف پہلا قدم ہے جس کا بنیادی مقصد صارفین پر مزید دباﺅ بڑھانا ہے تاکہ 70سال سے لوڈ شیڈنگ کی مار جھیل رہے انہیں کسی قسم کی راحت نہ دی جائے۔جموں کے 11اضلاع میں اس سکیم کے تحت اگرچہ40فیصد کام مکمل ہے لیکن کشمیر کے 10اضلاع میں ایک بھی قصبے میں یہ کام مکمل نہیں ہوسکا ۔سرینگر کے جن 10فیڈروں پر کام شروع کر کے ادھورا چھوڑا گیا ہے وہاں کی آبادی کا الزام ہے کہ وہاں 3کنبوں کےلئے 26کے وی ٹرانسفارمر لگایا گیا ہے اور ایک کنبہ 8کلو واٹ سے زیادہ بجلی استعمال نہیں کر سکتا ۔ تین گھروں کو ایک بجلی ٹرانسفارمرکے ساتھ تین ایم سی بی بورڈ ،جن پر ٹرپ سسٹم لگا ہوتا ہے، فراہم کئے گئے ہیں لیکن اُن ایم سی بی بورڈ سے سرما کے دوران بجلی کی زیادہ طلب سے اکثر وبیشتر ٹرپ اتر جاتی ہیں پھر اس ٹرپ کو چڑھانے کےلئے محکمہ کی منت سماجت کرنی پڑتی ہے جہاں لوگوں کو جرمانہ کی دھمکی دی جاتی ہے۔آر اے پی ڈی آر پی سکیم بھارت میں 2008میں شروع کی گئی ۔یہ ایک ایسی سکیم ہے جس کے تحت شہر اور قصبوں میں بوسیدہ بجلی کے ترسیلی نظام کو بہتر بنایا جانا تھا۔ ریاستی سرکار نے اگرچہ اس سکیم کو مکمل کرنے کی حد 2018رکھی ہے لیکن جس طرح کشمیر وادی میں اس سکیم پر کام ہو رہا ہے اُس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے یہ کام 2020میں بھی مکمل نہیں ہو گا ۔سرکاری ذرائع کے مطابق رواں مالی سال2016-17میں اس سکیم کے تحت بجلی شعبہ کو مزید بہتر بنانے کےلئے 30قصبوں کےلئے سرکار نے 1817.26کروڑ کی رقم منظور کی اور یہ پیسہ وادی کے 19اور جموںکے 11قصبوں کےلئے منظور ہواہے ۔ذرائع نے بتایا کہ وادی میں دریائے جہلم کے بائیں طرف آنے والے قصبوں میں 340.89کروڑ کا پروجیکٹ منظور ہواہے جبکہ معاہدے کے حوالے سے لاگت353.99طے ہوئی ہے ۔ جہلم کے بائیں طرف آنے والے قصبوں میں جن میں ترال اور گاندبل بھی شامل ہیں، کےلئے 372.33کروڑ کی رقم منظور ہوئی ہے جبکہ معاہدے کے حوالے سے لاگت355.51طے ہوئی ہے ۔اسی طرح سے جنوبی کشمیر کے اننت ناگ ، بجبہارہ ، ڈورو، ویری ناگ، کولگام ، شوپیاں اورپلوامہ کےلئے 57.51کروڑ کی رقم منظور ہوئی ہے جبکہ معاہدے کے حوالے سے لاگت کا ایک بھی پیسہ وہاں خرچ نہیںہواہے ۔اسی طرح شمالی کشمیر کے بارہمولہ ، سوپور ، پٹن ،ہندوارہ ، کپوارہ ،بانڈی پورہ سوپور اورسمبل کے قصبوں کےلئے 101.63کروڑ کی رقم منظور ہوئی تاہم وہاں بھی یہ رقم خرچ نہیں ہوئی ہے۔وہیں لداخ کے لہیہ اور کرگل اضلاع کے قصبہ جات کےلئے منظور کی گئی رقم 17.20کروڑ ہے اور اس علاقے میں بھی کسی قسم کا کوئی کام شروع نہیں ہو سکا ہے ۔محکمہ بجلی میں موجود ذرائع نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ سکیم کے تحت 10فیڈروں پر کام مکمل کرنے کا ٹارگٹ مارچ 2017مقرر کیا گیاتھا جبکہ 59فیڈروں کےلئے جون 2017ٹارگٹ تھا۔سکیم پر کام کرنے والی کمپنی کے اصرار پر پھر دسمبر 2017کو ان پر کام مکمل کرنے کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی لیکن 4بار کمپنی کی ڈیڈ لائن میں توسیع کے بعد بھی کام نہ ہونے کے برابر ہے ۔کشمیر عظمیٰ کے پاس موجود دستاویزات کے مطابق ڈیڈ لائن میں توسیع کے بعد محکمہ نے کمپنی سے کہا ہے کہ اگر وہ اس ڈیڈ لائن کو بھی پار کرے گی تو ایک تو اُن کی بنک گارنٹی ضبط کی جائے گی وہیںجرمانہ بھی کیا جائیگا۔ تاہم نہ بنک گرانٹی ضبط ہوئی اور نہ ہی جرمانہ کیا گیا ۔ذرائع نے بتایا کہ جموں کے توی نالے کے بائیں طرف آنے والے قصبوں کےلئے منظور ہوئے پروجیکٹ کا کل تخمینہ 260.47کروڑ روپے ہے جبکہ معاہدے کے حوالے سے یہ تخمینہ262کروڑ 94لاکھ ہے ۔اسی طرح جموں توی نالہ کے دائیں طرف کے علاقوں میں آنے والے قصبوں کےلئے 349.85کروڑ روپے کا پروجیکٹ تیار ہوا ہے جبکہ معاہدے کے حوالے سے لاگت 333.27کی رقم طے ہوئی ہے ۔اسی طرح پونچھ ،راجوری ، اکھنور ، ڈوڈہ ،بھدرواہ ،کشتواڑ ،کےلئے 79.59کروڑ کا پروجیکٹ منظور ہوا ہے جبکہ معاہدے کے حوالے سے لاگت83.53کروڑ کی رقم طے ہوئی ہے ۔ کٹھوعہ ، سانبہ ، آرایس پورہ کے قصبوں کےلئے 85.73کروڑ کا پروجیکٹ منظور ہوا ہے ۔