۔27جنوری1990:جب کپوارہ میں قیامت صغریٰ بپاہوئی

 کپوارہ//چلہ کلان کی یخ بستہ ہوائو ں سے لوگ ٹھٹرتے تھے اور27جنوری1994کے روز کہرے کی چادر نے آ سمان کیا زمین کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا لوگ صبح کی چائے سے فارغ ہو کر اپنے اپنے کام پر جانے میں مصروف عمل تھے اور اسی اثنا میں دن کی خوشیا ں ماتم میں تبدیل ہوگئیں جب پورے ضلع میں یہ خبر پھیل گئی کہ کپوارہ قصبہ میں فوج نے خون کی ندی بہا کر 27افراد کو گولیا ں مار کر جا ں بحق کیا۔ 27 جنوری 1994 کو جب کپوارہ قصبہ میں دکانیں کھلنے لگی تو اس دوران 11بجے کے قریب پورے قصبہ گولیو ں کی گن گرج سے دھل اٹھا لوگ ابھی معاملہ سے متعلق معلو مات حاصل کرنے میں مصروف تھے کہ پورے قصبہ میں قیامت صغریٰ بپا ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے لاشو ں کے انبار لگ گئے ہر طرف چیخ و پکار اور آ ہ وزاری تھی لیکن فوج نے لوگو ں پر گولیا ں برسانے کاسلسلہ جاری رکھا اور کسی کو بھاگنے کا بھی موقع نہیں دیا گیا اور اس طرح چند ہی منٹوں میں 27افراد کو موت کی نیند سلا دیا گیا ۔کپوارہ کے لوگ اس دن کو منحوس مانتے ہیں اور جب یہ واقعہ یاد آ تا ہے تو وہ سہم کر رہ جاتے ہیں ۔

واقعہ کیسے پیش آیا 

ایک عینی شاہد محمد عبد اللہ کا کہنا ہے کہ 26جنوری کو مزاحمتی قیادت نے پوری وادی میں ہڑتال کی کال دی تھی لیکن فوج نے پہلے ہی کپوارہ قصبہ میں دکاندارو ں کو متنبہ کیا تھا کہ اگر انہو ں نے26جنوری کے روز دکانیں بند رکھی تو انہیں اس کی سزا بھگتنا پڑے گی ۔انہو ں نے کہا کہ سردی کا سخت زور تھا اور بازار دیر سے ہی کھلتا تھا جبکہ اگلے روز شب برات تھی کہ اسی اثنا میں بائی پاس سڑک پر ریگی پورہ پل کے نزدیک گولیو ں کی آ وازیں سنائیں دیں اور لوگ ابھی یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ قصبہ کے ہر طرف فوج نے اپنے بندقوں کے دھانے کھول دیئے اور ہر طرف افرا تفری مچ گئی لوگ چیخ و پکار کے اپنی جان بچانے کیلئے ادھر ادھر بھاگنے لگے لیکن فو ج نے ہر جان بچانے والے پر براہ راست گولیا ں بر سائیں ۔ریگی پورہ ٹاپ ،پاپا 2اور ملہ پوسٹ پر تعینات فوجیو ں نے اپنے بندوقوں سے آ گ برسائی ا۔ اس کا اندزاہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کپوارہ قصبہ کے قدیم پل پر قائم پولیس پوسٹ کو بھی نشانہ بنا یا گیا اور چند ہی منٹو ں میں پورے قصبہ کی گلی کوچے اور اقبال مارکیٹ اور بائی پاس سڑکیں انسانی خون سے لال ہوگئیں اور ہر طرف لاشوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے ۔انہو ں نے مزید کہا کہ 20منٹوں میں 27افراد کو بے دردی سے جا ں بحق کیا کیا گیا ۔ایک اور عینی شاہد کا کہنا ہے کہ لوگو ں کو اپنے گھرو ں سے باہر آنے کی بھی اجات نہیں دی گئی تاکہ وہ زخمیو ں کو فوری طور اسپتال پہنچائیں گے ۔انہو ں نے کہا کہ ڈی آ فس کا ایک ملازم خضر محمد اپنی ڈیوٹی پر جارہا تھا کہ اس کو فوج نے گھسیٹ کر کوڑا کرکٹ کے ڈھیر میں بٹھا کر اس پر گولیا ں چلائیں جبکہ گلگام کے غلام نبی پائر جو محکمہ جنگلات میں فارسٹ گارڈ تھا کو خاکی وردی پہننے پر گولی مار کر قتل کیاگیا ۔عینی شاہدین کے مطابق کپوارہ قتل عام سے دوروز قبل پولیس اہلکارو ں اور فوج کے درمیان اس بات کو لیکر شدید تلخ کلامی کے علاوہ ہاتھا پائی ہوئی تھی کہ فوج کانوائے میں شامل ایک گاڑی نے ایک بزرگ شہری کو ٹکر مار دی تھی جس پر ایک پولیس اہلکار نے فوجی اہلکار کو سخت ڈانٹ پلائی جس کے بعد فوج نے انہیں دھمکی دی کہ اس کے سنگین نتا ئج بر آمد ہو سکتے ۔26جنوری کے ہڑتال کے بعد فوج کے غصہ میں مزید اضافہ ہو گیا اور27جنوری کی صبح کو قصبہ میں خون کی ندی بہا دی گئی۔ایک اور چشم دید گواہ کا کہنا ہے کہ جب قصبہ میں واقع پیش آ یا تو ہر طرف لاشیں بکھری پڑی تھی اور زخمیو ں کو اسپتال لے جانے کے لئے جو لوگ دکانو ں یا اپنے گھرو ں سے باہر آتے تھے ان کی بھی شدید مار پیٹ کی گئی اتنا ہی نہیں بلکہ ایمبو لینس گا ڑیو ں کو بھی لاشیں اٹھانے کی اجازت نہیں دی گئی ۔واقعہ کے خلاف جب کپوارہ کے مختلف علاقوں سے لوگو ں نے کپوارہ کی طرف پیش قدمی کی تو انہیں کپوارہ پہنچنے نہیں دیا گیا اور قصبہ میں تمام راستو ں کو خار دار تار بندی سے بند کیا گیا ۔جا ں بحق ہوئے افراد کے لواحقین کو اپنی عزیزوں جو اس سانحہ میں جا ں بحق ہوگئے لاشیں اٹھانے کی بھی اجازت نہیں دی گئی ۔کپوارہ سانحہ کے خلاف پوری وادی میں ہڑتال اور مظاہرو ں کے سلسلے نے طول پکڑا جس کے بعد پولیس نے سکھ لائی فوجی یونٹ کے خلاف ایک کیس زیر ایف آ ئی آ ر نمبر 13/1994US302,307RPCدرج کر کے تحقیقات شروع کی گئی اور جس میں اس فوجی یونٹ کو واقعہ کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا گیا لیکن لو احقین کا کہنا ہے کہ24سال گزر جانے کے با وجود بھی کسی بھی ملو ث اہلکار کو نہ تو گرفتار کیا گیا اور نا ہی سزا دی گئی اور لو احقین ہنوز انصاف کے طلب گار ہیں ۔
 
 

ریاستی حقوق کمیشن کے دائرہ اختیار پر سوالیہ!

فوج اور پولیس کے مواقف میں تضاد، انصاف کیسے فراہم ہو؟

بلال فرقانی
 
سرینگر//سانحہ کپوارہ سے متعلق پولیس اور فوج کی رپورٹوں میں تضاد کے بیچ24برس بعد بھی اس قتل عام میں ملوث اہلکار تحقیقات سے مستثنیٰ ہیں۔وزارت دفاع کا ماننا ہے کہ فوج سے متعلق شکایات کی تحقیقات کا ریاستی حقوق انسانی کمیشن کو اختیار نہیں ہے جبکہ فوج کی طرف سے کوٹ آف انکوائری کو قومی انسانی حقوق کمیشن نے بھی توثیق کی ہے ۔بشری حقوق کے مقامی کارکن اور انٹرنیشنل فورم فار جسٹس کی طرف سے سانحہ کپوارہ سے متعلق ایک تحقیقی رپورٹ ’’کپوارہ،خون کا نظارہ‘‘میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کیا گیا ہے کہ اس سانحہ کے حوالے سے اگرچہ تحقیقاتی عمل بھی شروع کیا گیا تاہم پولیس کا ماننا ہے کہ فوج نے کسی بھی مرحلے پر تحقیقاتی عمل میں تعاون نہیں کیا۔رپورٹ کے مطابق فوج کا بھی اس بارے میں اپنا ایک  فوج کاموقف ہے کہ کورٹ مارشل کے دوران یہ ثابت ہوا کہ فوج نے دفاع میں گولی چلائی جبکہ قومی انسانی حقوق کمیشن نے فوج کی کورٹ آف انکوئری کی توثیق کی ہے۔4 سال قبل سرگرم حقوق البشرکارکنوں محمد احسن انتو اور عبدالروف خان نے مشترکہ طور بشری حقوق کے مقامی کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔ انہوں نے اپنی عرضی میں کہا کہ فوج کی 15 پنجاب ریجمنٹ نے معصوم اور بے قصور شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ مذکورہ عرضی میں انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن سے گزارش کی گئی تھی کہ وہ اس معاملے کی چھان بین کرے ۔ادھر انٹرنیشنل فورم فار جسٹس کی طرف سے مرتب کردہ تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن نے اس حوالے سے 15پنجاب یونٹ اور ریاستی پولیس کے سربراہ کے نام نوٹس جاری کی اور انہیں ہدایت دی کہ وہ اس حوالے سے اپنی رپورٹ کمیشن کے پاس پیش کرے ۔ پولیس کی سی آئی ڈی ونگ نے اس حوالے سے جو رپورٹ مئی 2012میں پیش کی اس میں کہا گیا کہ تحقیقات کے دوران پتہ چلا کہ 27جنوری 1994کو کپوارہ بازار میں سیکنڈ لیفٹنٹ ایس بخشی کی سربراہی میں’ روڑ اوپننگ پارٹی‘ تعینات کی گئی تھی اور انہوں نے بلا کسی اشتعال کے بس اڈہ کپوارہ میں گولیاں چلائی جس کے نتیجے میں کئی افراد جاںبحق اور متعدد زخمی ہوئے ۔ پولیس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اس حوالے سے پولیس سٹیشن کپوارہ نے ایک ایف آئی آر زیر نمبر 19/94زیر دفعات 302,307اور 149آر پی سی کے تحت درج کیا گیا اور تحقیقات کے دوران 18افراد کی نعشیں بر آمدہوئی اور 38زخمی ہوئے تھے ۔ سی آئی ڈ ی ونگ کی طرف سے کمیشن کے پاس پیش کئے گئے رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ تحقیقات کے دوران کئی شاہدین کے بیانات بھی قلم بند کئے گئے جس کے دوران یہ سامنے آیا کہ فوج کی این سی اے سے وابستہ روڑ اوپننگ پارٹی کپوارہ سانحہ کیلئے ذمہ دار ہے ۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ تحقیقات کے دوران اگرچہ کئی بار متعلقہ یونٹ سے گزارش کی گئی کہ روڑ اوپننگ پارٹی میں شامل اہلکاروں کی شناخت کی جائے تاہم مذکورہ یونٹ نے کوئی جانکاری نہیں دی ۔ رپورٹ میں اس بات کو ظاہر کیا گیا کہ اس کے بعد 28انفنٹری ڈو یژن کپوارہ کے کرنل ،جنرل سٹاپ سے بھی رابطہ قائم کیا گیا تاہم انہوں نے جوابی مکتوب میں کہاکہ فوج نے ا س حوالے سے پہلے ہی ’’کوٹ آف انکوائری‘‘ شروع کی ہے تاہم مذکورہ کوٹ مارشیل کے حتمی فیصلے سے آگاہ نہیں کیا گیا اور بعد میں فوج کی طرف سے تحقیقاتی عمل میں تعاون نہ کرنے کی وجہ سے 1997میں اس کیس کو بند کیا گیا ۔ سی آئی ڈی رپورٹ کے مطابق 2004میں ایک مرتبہ پھر اس کیس کو کھولا گیا اور اس وقت کے ایڈیشنل ایس پی نے’’ آرمی سروس کور31میڈیم رجمنٹ کو اس حوالے سے تفصیلات فراہم کرنے کی استدعا کی تاہم مذکورہ یونٹ نے کہا کہ ان کے پاس کوئی بھی دستاویز موجود نہیں ہے اور 28انفنٹری ڈویژن کے ساتھ رابطہ قائم کیا جائے ۔ رپورٹ کے مطابق بعد میں 28انفنٹری ڈویژن کے ساتھ ایک مرتبہ پھر خط و کتابت کا سلسلہ شروع ہوا اور انہیں اس حوالے سے معلومات فراہم کرنے کی استدعا کی گئی تاہم مذکورہ ڈویژن نے واضح کیا کہ جب یونٹ سے اس سلسلے میں معلومات حاصل ہونگی تو انہیں تحقیقاتی کمیٹی تک پہنچایا جائیگا تاہم آج تک وہ دستاویزات فراہم نہیں کئے گئے ۔ پولیس کی سی آئی ڈی ونگ کی طرف سے جو رپورٹ کمیشن کے پاس پیش کی گئی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ان تمام حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ فوج اس معاملے میں تعاون فراہم نہیں کر رہی ہے ۔ ادھر جوڈیشل مجسٹریٹ کپوارہ کی عدالت نے بھی ’اے ایس سی ‘31 میڈیم ریجمنٹ کو اس حوالے سے تفصیلات طلب کی تھی تاہم وہ بھی نہیں ملی اور یہ کہ سیکنڈ لیفٹنٹ ایس بخشی کو بھی شمالی کمان کی وساطت سے نوٹس بھیجی گئی تاہم’’ ایک مرتبہ پھر مذکورہ یونٹ تعاون کرنے میں ناکام ہوگیا ‘‘۔ رپورٹ کے مطابق  بشری حقوق کے ریاستی کمیشن نے بعد میں یہ معاملہ وزارت داخلہ کے بشری حقوق شعبے کے ساتھ اٹھایا جبکہ اس سلسلے میں مذکورہ وزارت کے ڈپٹی سیکریٹری پی کے آہو جا نے یہ معاملہ وزارت دفاع کی نوٹس میں لایا ۔ دونوں وزارتوں کے درمیان خط و خطابت کا سلسلہ بھی کافی دیر تک جاری رہا جس کے بعد شمالی کمان کے کرنل جنرل سٹاپ اے ای جیمز نے مارچ 2013میں واضح کیا کہ ریاستی انسان حقوق کمیشن اور ضلع پولیس کپوارہ کی طرف سے متعلقہ واقعہ کے حوالے سے کوئی بھی نوٹس موصول نہیں ہوئی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس حوالے سے واقعے کے بعد ممبر پارلیمنٹ سید شہاب الدین نے قومی انسانی حقوق کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اس حوالے سے جب کمیشن نے فوج کی طرف سے کی گئی کوٹ آف انکوائری کا جائزہ لیا تو وہ اس بات سے مطمئن ہوئے کہ کوٹ مارشیل کے دوران آزادانہ گواہوں اور واقعات سے متعلق صیح عکاسی کی گئی ہے اور بعد میں کیس کو اس بناء پر خارج بھی کیا گیا ۔ مارچ 2013میں ہی وزارت دفاع کے ایک سینئر آفیسر پروین کمار نے اس سلسلے میں وزارت خارجہ کو واقعے سے متعلق جانکاری فراہم کرتے ہوئے کہا کہ فوجی ہیڈ کواٹر سے جو تفصیلات فرہم ہوئی ہے اس کے مطابق’’ 27جنوری کو سرحدی ضلع کپوارہ میں 11بج کر 20منٹ پر ملک دشمن عناصر نے کئی جگہوں سے اس وقت گولیاں چلائی جب فوجی کانوائے کپوارہ سے سرینگر جارہی تھی‘‘ ۔تفصیلات میں مزید بتایا گیا ’’ اس موقعے پر فوج نے بھی دفاع میں گولیاں چلائی جس کے دوران 3 پولیس اہلکاروں سمیت 18افراد جاںبحق ہوئے جبکہ 3ملک دشمن عناصر سمیت 39ززخمی بھی ہوئے ‘‘۔ اس رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ فوج نے بعد میں فوری طور پر کاروائی کی اور زخمیوں کو اسپتال پہنچایا جبکہ ملک دشمن عناصر گنجان آبادی کی آڑ میں فرار ہونے میں کامیاب ہوئے ۔ وزارت دفاع کے رپورٹ میں مزید کہا گیا ’’ ملک دشمن عناصر نے یہ کاروائی دانستہ طور پر کی تاکہ فوج کو مشتعل کیا جاسکے‘‘ ۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ آرمی ہیڈ کوارٹر سے اس سلسلے میں ملی جانکاری کے مطابق ضلع پولیس کپوارہ نے اپریل 2012 میں ا س سلسلے میں 28انفنٹری ڈیویژن کو’ اے ایس سی‘ 31میڈیم رجمنٹ کے واقعے میں ملوث ہونے کا دعویٰ کیا تاہم اس نام کا یونٹ فوج میں موجود نہیں ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ آرمی سروس کور ڈویژن اور بٹالین کپوارہ میں تعینات ہے جبکہ اس کے علاوہ 2اور 3ہندسوں والے آرٹلری رجمنٹ شناخت کے طور پر کپوارہ میں 2یا 3سالوں کیلئے تعینات رہتے ہیں ۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ جس وقت کپوارہ میں یہ واقعہ پیش آیا اس وقت کپوارہ میں3سے لے کر 4ایسے ریجمنٹ موجود تھے اور یہ کہ اس حوالے سے پولیس کو ہر مرحلے پر تعاون کیا گیا ۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اس کے علاوہ کوٹ آف انکوائری بھی کی گئی جس کے دوران فوج پر لگائے گئے تمام الزامات بے بنیاد ثابت ہوئے ۔رپورٹ نے ان تمام چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ کیس کی پہلے ہی تحقیقات قومی انسانی حقوق کمیشن نے کیا ہے اس لئے ایس ایچ آر سی کی طرف سے ہدایات کو مد نظر رکھتے ہوئے کیس کو دوبارہ کھولا نہیں جاسکتا ور یہ 1993کے انسانی حقوق پاسداری کی خلاف ورزی ہے ۔ اس دوران یہ بھی کہا گیا ہے ’’ ریاستی انسانی حقوق کمیشن کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ فوج سے متعلق کی گئی شکایات کی تحقیقات کرے ‘‘۔ ادھر7جولائی2014کوبشری حقوق کے انسانی کمیشن نے فوج کو ایک بار اس سلسلے میںاپنی دفاع کیلئے قانون ماہرین کی ٹیم روانہ کرنے کو کہاگیا تاکہ دونوں فریقوں کے دلائل کو سنا جاسکیں۔یہ معاملہ ہنوز لٹکا ہوا ہے اور متاثرین کو انصاف فرہم ہونے میں تاخیر ہو رہی ہیں۔