۔2018: خواتین بھی گولیوں کی بھینٹ چڑھ گئیں

 سرینگر//وادی میں صنف نازک بھی گولیوں کا ایندھن بن رہی ہیں اور ہرسال ایسے واقعات میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔امسال دردزہ میں مبتلا خاتون کے علاوہ معصوم طالبہ سمیت6خواتین کو ابدی نیند سلا دیا گیا،جبکہ درجنوں زخمی بھی ہوئیں ۔24جنوری کوشوپیاں کے چھی گنڈ علاقے میں فائرنگ کے دوران زخمی ہونے والی دوشیزہ سائمہ وانی 10فروری کو 15روز بعدزخموں کی تاب نہ لاکر چل بسی۔ ’ صائمہ وانی کے سر میں گولی لگی تھی۔ اس واقعہ میں سمی جاج نامی دوشیزہ بھی زخمی ہوئی تھی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جس مکان میں جھڑپ ہوئی تھی وہ صائمہ کا ہی مکان تھا۔ضلع کولگام کے ہائورہ مشی پورہ میں7جولائی کو فو رسزکی فائرنگ سے کمسن طالبہ عندلیب جان جاں بحق ہوئی۔ پولیس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دوشیزہ ’’مشتعل ہجوم‘‘ کا حصہ تھی اور فوج کی طرف سے دفاع میں چلائی گئی گولی کا شکار بنی۔ بشری حقوق کے مقامی کمیشن میں ہلاکت سے متعلق پولیس رپورٹ میں کہا گیا کہ گشتی پارٹی نے دفاع میں گولیاں چلائی،جس میں 2 لڑکیاں عندلیب جان دختر علی محمد الائی اور کوثر جاں دختر محمد شفیع الائی زخمی ہوئیں،جس کے بعدعندلیب جاں بحق ہوئی۔19اکتوبر کو پلوامہ کے شادی مرگ گائوں میں دردزہ میں مبتلا ایک خاتون فردوسی زوجہ خورشید احمد شیخ کراس فائرنگ کے دوران جان بحق ہوئی۔ڈپٹی کمشنر پلوامہ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس سلسلے میں ایک ایف آئی آر زیر نمبر92/2018زیر دفعہ307آرپی سی کے تحت پولیس تھانہ راجپورہ میں درج کر کے تحقیقات شروع کی گئی ہے۔24نومبرکو کا ونی گنڈ کولگام میں فورسز اور جنگجوئوں کے درمیان زخمی دوشیزہ مسکان بھی دم توڑ بیٹھی۔ 17اگست کو دربگام پلوامہ میں نامعلوم جنگجوئوں نے 38سالہ خاتون شمیمہ زوجہ علی محمد ساکن قوئل کو نزدیک سے گولیاں مار کر ابدی نیند سلادیا ۔ معروف سیول سوسائٹی کارکن اور کشمیر سوشل اینڈ ڈیولپمنٹ اسٹڈیز کی سربراہ پروفیسر حمیدہ نعیم کا کہنا ہے کہ صنف نازک کو دانستہ طور پر ایندھن بنایا جاتا ہے۔حمیدہ نعیم نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا’’وادی میں خواتین کو جنگی آلہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے،اور یہ پیغام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ قوم کی عزت کے ساتھ وہ کیا کر سکتے ہیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ امسال اور گزشتہ برس کالج کی طالبات بھی سڑکوں پر آئیں اور اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں خاموش کرنے کیلئے اس طرح کے حربے استعمال میں لائے جاتے ہیں۔