۔2۔جی انٹر نیٹ رفتار اور آن لائن کلاسز | نجی تعلیمی اداروں اور انتظامیہ کا طلبہ کیساتھ مذاق:والدین

سرینگر//2۔جی انٹر نیٹ رفتار میں آن لائن کلاسز مذاق کے سوا کچھ ثابت نہیں ہورہے ہیں ۔ان خیالات کا اظہار مختلف نجی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بچوں کے والدین نے کیا ۔انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا اور ای ۔میل کے ذریعے اُن کو جو اسائنمنٹ بچوں کی پڑھائی کیلئے فراہم کی جارہی ہے ،وہ یا توڈائون لوڈ نہیں ہو تی یا پھر سمجھ سے باہر ہے ،کیونکہ طلبہ اور اساتذہ کے درمیان ایک خلیج ہے ۔کے این ایس کے مطابق اب جبکہ کرونا وائرس سے بچاو کے اقدام کے بطور جاری لاک ڈائون کے فوری طور ہٹالئے جانے کے امکانات معدوم ہوگئے ہیں بعض نجی اسکولوں نے طلبا کو آن لائن پڑھانے کا انتظام کیا ہے، تاہم بیشتر اسکول یا تو خاموش ہیں یا پھر انہوں نے آن لائن کلاسز کے نام پر مذاق شروع کیا ہے۔سرینگر کے کئی نامی نجی اسکول نے بچوں کے والدین کے موبائل فون پر ایس ایم ایس بھیج کر بچوں کو وٹس ایپ گروپ میں شامل ہوکر ’’آن لائن‘‘کلاس لینے کی ہدایت دی ہے اور اس قدم کو مذکورہ اسکول کی جانب سے ’’بچوں کو آن لائن پڑھانے کا انتظام‘‘قرار دیا جارہا ہے۔حالانکہ وٹس ایپ کے ذریعہ صوتی پیغامات بھیجے جارہے ہیں اور یہ بیشتر یکطرفہ ہے یعنی بچوں کیلئے سوال پوچھنے کا کوئی موقعہ نہیں ہے۔دنیا کے دیگر ممالک اور علاقوں کے ساتھ ساتھ وادی کشمیر میں بھی لاک ڈائون ہے اور اسکول اب قریب ڈیڑھ ماہ سے بند ہیں۔سرکار کی جانب سے تالہ بندی کا اعلان کئے جانے کے وقت آن لائن کلاسز کے حوالے سے کوئی پیشگی انتظام کیا گیا تھا اور نہ ہی اس سمت میں کوئی سوچ و بچار کیا گیا تھا تاہم اب جبکہ تالہ بندی کو آگے بڑھایا گیا، بعض نجی اسکولوں نے آن لائن کلاسز کی شروعات کی ہے۔اول درجہ کے چند اسکولوں کی دیکھا دیکھی دیگر کئی نجی اسکولوں نے بھی آن لائن کلاسز کی شروعات کا اعلان کرکے گھروں میں قید طلباکو ایک خوشخبری سنائی تو ہے تاہم اسکے لئے جو ’’انتظام‘‘کیا گیا ہے اُسے مذاق سے زیادہ کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ طلبااور انکے والدین نے کہا کہ اسکول کی جانب سے مختلف وٹس ایپ گروپ بنائے گئے ہیں جہاں بچوں کو مختلف مضامین کے اسباق سے متعلق صوتی پیغامات بھیجے جاتے ہیں۔تاہم طلبا کا کہنا ہے کہ ایسے میں انکا کوئی فائدہ نہیں ہو پارہا ہے۔ چھٹی جماعت کے ایک طالبِ علم نے فون پر کہا ’’گروپ میں شامل بچے سبق کے متعلق سوال نہیں پوچھ پارہے ہیں کیونکہ ایک طرف ٹیچر سبق سناتی ہے اور دوسری جانب درجنوں بچے ایک ساتھ مسیج لکھتے رہتے ہیں اور ایسے میں کوئی کچھ نہیں سمجھ پارہا ہے‘‘۔طلبا کے والدین کا کہنا ہے کہ سرکار کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے آن لائن کلاسز کے حوالے سے قواعدوضوابط جاری کرنے چاہیئے۔ان والدین کا کہنا ہے کہ سرکار کو آن لائن تعلیم کے معتبر ذرائع کے استعمال کو لازمی قرار دیتے ہوئے نجی اسکولوں کو ضابطے کے تحت  کام کرنے کا پابند بنایا چاہیئے۔دلچسپ  بات یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر ایسے کئی سوفٹ وئیر موجود ہیں کہ جن کے ذریعہ طلبا کو موثر طریقے سے گھر بیٹھے پڑھایا جاسکتا ہے اور یہ نظام نہ صرف بنیادی تعلیم بلکہ اعلیٰ تعلیم کے لئے بھی کئی ممالک میں رائج ہے۔حالانکہ وادی کشمیر میں تیز رفتار انٹرنیٹ کے ممنوعہ ہونے کی وجہ سے اس طریقہ تعلیم میں کئی مسائل درپیش ہیں۔اس لئے تیز رفتار انٹر نیٹ خدمات کی بحالی لازمی قرار دی جارہی ہے ۔