سرینگر// سرینگر میں1990کے بعد اگر چہ بیشتر علاقے خون میں نہلانے کی داستان پیش کررہے ہیں،تاہم شہر کا ماضی بھی خونین داستانوں سے مزین ہے۔ گائو کدل،اخراج پورہ،گاڈہ کوچہ زینہ کدل،مشعل محلہ اور زکورہ میں ہوئے خونین سانحات کی یادیں ابھی تازہ ہی ہیںتاہم شہر سرینگر میں ماضی قریب میں سینٹرل جیل کے سامنے بھی گولیوں سے انسانوں کوکچے آموں کی طرح گرایا گیا۔شہر خاص کے ذالڈگر علاقے میں چکاچوند بازار اور جدید فن تعمیر اگر چہ ہر سو نظرآرہا ہے تاہم 152سال قبل ہوئے کشت وخون کے نشان اور دھبوں کا کوئی بھی نشان نظر نہیں آتا ہے۔علاقے کے بزرگ اور معمر لوگوں کے دلوں میںاس قتل عام کی خلش ضرور نظر آتی ہے،جنہوں نے اس قتل عام کی داستان اپنے آباو اجداد سے سنی ہے۔1865میں ذالڈگر میں ڈوگرہ فوج کے ظلم و جبر کی داستان اس وقت بھی لوگوں کے قلب و جگر میں تازہ ہے،جب دن دھاڈے28شالبافوں کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔29اپریل1865میں ڈوگرہ سرکار کے داغ محکمہ شال کی طرف سے سخت ٹیکس نظام رائج کرنے کے خلاف شہر خاص میں شالبافوں نے سخت احتجاجی مظاہرے کئے۔تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ منظم احتجاج کا سلسلہ شروع کیا گیا جس کو تواریخ نے’’شالباف تحریک‘‘ کا نام دیا۔ بیرون ریاست ایک یونیورسٹی میں کشمیر کی تاریخ پر تحقیق کر رہیسکالر عادل مظفر کا کہنا ہے ’’قلیل تنخواہوں ، سخت ایام کار اور ٹیکسوں میں بے حد اضافہ کے علاوہ ان شالبافوں پر پابندی عائد کرنے کا مقصد تھا کہ یہ شالباف کشمیر چھوڑکر چلے جائیں‘۔ان کا کہنا تھا کہ خام مال اور لداخ سے درآمد شدہ اون میں ٹیکسوں کی عائدگی کے علاوہ تیار شدہ موضوعات کی کسٹم ڈیوٹی میں بھی ٹیکس عائد کیا گیا۔ عادل مظفر نے مزید کہا کہ1865میں2لاکھ54ہزاربرطانوی پونڈ کے شال برآمد کئے گئے تاہم شالبافوں کو اس رقم میں سے کچھ کم و قلیل دیا گیا۔انہوںنے بتایا کہ تحقیق کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ16سے18گھنٹوں تک کام کرنے کے بعد بیشتر شالبافوں کو5سے7روپے ماہانہ دیا جاتا تھااور اس میںسے بھی انہیں قریب5روپے بطور تیکس ہی ادا کرنا ہوتا تھا۔محققین کے مطابق شالبافوں کی سب سے بڑی ستم ظریفی یہ تھی کہ وہ اپنا پیشہ تبدیل نہیں کرسکتے اور نہ ہی کام کرنا بند کر سکتے تھے۔ان محققین کا ماننا ہے کہ اضافی ٹیکسوں کی ادئیگی کے بعد کچھ شالبافوں نے لاہور نقل مکانی کی اور جس نے آواز اٹھائی انہیں جیل بھیج دیا گیا ۔ سب سے پہلے افغان گورنر حاجی کریم داد خان نے ٹیکس عائد کیا اور اس کو داغ شال کا نام دیا گیا۔1856 میںبیک وقت ٹیکسوں میں300فیصد اضافہ کیا گیا جبکہ داغ شال محکمہ میں پنڈت راج کاک دھر کو انسپکٹر تعینات کیا گیا تھا۔تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ دھر نے ظلم وجبر اور تشدد کا سہارا لیکر شالبافوں سے ٹیکسوں کامحصول کرنا شروع کر دیا۔شالبافوں کو جب بھوک مری کا سامنا کرنا پرا تو انہوں نے جدوجہد کا راستہ اپنانے کا تہیہ کیا اور29اپریل1865 کو احتجاجی جلوس برآمد کرنے کا فیصلہ لیااور مظاہرین ذالڈگر کے ایک میدان میں جمع ہوئے اور مظاہروں کے دوران پنڈت راج کاک دھر کے پتلے بھی نذر آتش کئے گئے۔ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ دھر نے گورنر کرپارام کو خبر بھجوائی کہ احتجاجی مظاہرین کامنصوبہ ہے کہ وہ ان کی رہایش گاہ کی طرف پیش قدمی کریںگے۔ کرپا رام نے کرنل بجوائے سنگھ کی سربراہی میں فوج روانہ کی اور فوج نے کٹہ کل ذالڈگر کے نزدیک احتجاجی مطاہرین کو ایک تنگ پل پر گھیر لیا اور مظاہرین میں افراتفری مچ گئی اور پل بھی ٹوٹ گیا،جس کی وجہ سے28مظاہرین غرقاب ہوئے۔معروف معالج اور وونڈڈ پراڈائر کے مصنف کا کہنا ہے کہ فوج نے بندوقوں کے دہانے کھولے اور28شالبافوں کو بھون ڈالا۔ انتظامیہ کی طرف سے بندشیں عائد کرنے کے باوجود لوگوں نے28نعشوں کو دریا سے باہر نکال کر مہاراجہ رنبیر سنگھ کے محل کی طرف لاشوںسمیت پیش قدمی کی۔کچھ مورخین کا کہنا ہے کہ لوگوں نے اگلی صبح نہیں بلکہ اسی شام کو محل کی طرف مارچ کیا،جس کے دوران انکی جھڑپ فوج سے ہوئی اور درجنوں شالبافوں اور انکے لیڈروں کو حراست میں لیا گیا۔جس دوران شیخ رسول اور ابلی بابا کو حراست کے دوران شیر گڑھی محل کے تہہ خانے میں تشدد ڈھایا گیا اور دونوں جاںبحق ہوئے اور اس طرح وادی میں پہلی مرتبہ دوران حراست قتل کا سلسلہ شروع ہوا۔یکم مئی 1865کو کچھ قیدیوں علی محمد پال،غلام رسول شیخ،قد لالہ اور سُنہ شاہ سمیت دیگر لوگوں کو جموں روانہ کیا گیا جبکہ علی پال اور رسول شیخ رام نگر جیل میں تپ دق میں مبتلا ہوئے اور وہیں فوت ہوئے۔قدلالہ اور سنہ شاہ کی تقدیر میں بھی اس طرح جان بحق ہونا تھا۔محققین کا کہنا ہے کہ کشمیر کے جاں بحق ٹریڈ یونین لیڈروں سے کیا برتائو کیا گیااوراس سلسلے میں کوئی چارج شیٹ کسی بھی عدالت میں داخل نہیںکی گئی اور نہ ہی تحقیقات کی گئی۔