۔11فروری: مقبول بٹ کی برسی: ترہگام میں مشعل بردار جلوس برآمد

کپوارہ//لبریشن فرنٹ کے بانی مرحوم مقبول بٹ کے گھر میں اتوار کی شام سے ان کی برسی پر تیاریو ں کا سلسلہ جاری ہے اور آج پیر کو ان کے گھر میں ایک خصوصی تعزیتی تقریب کا اہتمام کیا جارہا ہے جس کے دوران مکمل ہڑتال ہوگی اور مزار شہداء پر حاضری دی جائے گی ۔مرحوم مقبول بٹ کی ہمشیرہ محمودہ نے کشمیر عظمیٰ کو بتا یا کہ ظہور احمد بٹ کی گرفتاری اور جیل میں ان کے حوصلہ پست نہیں ہیں بلکہ میرے بڑے بھائی محمد مقبول بٹ کی برسی پر جلسہ جلوس کا مکمل انتظام ہے تاکہ دنیا کہ پتہ چل سکے کہ مقبول بٹ کی تہاڑ جیل میں پھانسی دینے کے بعد ان کے خاندان کے حوصلے بلند ہیں اور وہ آ زادی سے دستبردار نہیں ہونگے ۔انہوں نے کہا کہ جب تک کشمیر ی قوم کو آ زادی نصیب ہوگی وہ مرحوم محمد مقبول بٹ کے مشن کو ہر حال میں جاری رکھیں گے اور اس کیلئے وہ کوئی بھی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں ۔ان کا مزید کہنا ہے کہ میرے 4بھائیو ں نے آ زادی کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا جبکہ چھوٹے بھائی ظہور احمد بٹ کو وقت وقت پر گرفتار کر کے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیلو ں میں بند کر دیا گیا اور آج بھی وہ پابند سلا سل ہے ۔نماز عشاء کے موقع پر ترہگام قصبہ میں مردوزن نے ایک مشعل بردار جلوس نکالا جو گلی کوچوں سے ہوتے ہوئے ترہگام کے مین چوک تک پہنچ گیا۔جلوس میں شامل لوگ آزادی کے حق میں نعرہ بازی کرتے تھے۔
 
 
 

’مرحوم ایک نظریہ ساز انسان‘

قربانیاں رنگ لائیں گی :یاسین ملک

 سری نگر//لبریشن فرنٹ کے محبوس چیئرمین محمد یاسین ملک نے کہاہے کہ محمد مقبولؒ بٹ ایک نظریہ ساز انسان، قابل سیاست دان، مجاہد اور سفارت کار تھے جنہوں نے اپنے قوم و ملت کی ہر سطح اور منزل پر راہنمائی کی اور بالآخر اسی مقدس مشن کیلئے اپنی جان کی بازی بھی لگا گئے۔ فرنٹ چیئرمین جو دیگر قائدین شوکت احمد بخشی، نور محمد کلوال،محمد سلیم ننھا جی، غلام محمد ڈار، صدر ضلع گاندربلبشیر احمد بویا ، صدر ضلع بڈگام گلزار احمد پہلوان ،فیاض احمد وغیرہ سمیت  پولیس حراست میں ہیں ،نے مرحوم مقبول بٹ کی ۳۵ویں برسی پر انہیں یاد کرتے ہوئے کہاکہ مرحوم مقبول بٹ کو جدوجہد اور قربانیوں کا مجسم اور تحریک آزادی آزادی ٔ جموں کشمیر کا بنیادی ستون قرار دیا جاسکتا ہے۔ یاسین ملک نے کہا کہ ناجائز تسلط کے خلاف مقبولؒ بٹ نہ صرف کشمیریوں کیلئے بلکہ دنیا کی ہر اس قوم و ملت کیلئے کہ جو اپنی آزادی کی جنگ میں مصروف ہے کیلئے بھی ایک تابناک علامت بنے رہیں گے ۔ یاسین ملک نے کہا کہ مرحوم بٹ کوئی عام انسان نہیں تھے بلکہ انسانوں کی اس قبیل سے تعلق رکھتے تھے کہ جن کے نزدیک اعلیٰ مقاصد کیلئے لڑنا اور جان دینا ہی سب کچھ ہوا کرتا ہے۔ مقبولؒ بٹ ایک نظریہ ساز ، ایک مجاہد ،ایک سیاسی قائد ، ایک دانشور ، ایک عظیم قلم کار اور ایک بے لوث سفارت کار بھی تھے جنہوں نے ان سارے شعبوں میں صف اول میں رہ کر متاخرین کیلئے ان مٹ نقوش چھوڑے تاکہ عزیمت کی راہ میں جدوجہد کرتے ہوئے ان کے پائوں کسی ظلم و جبر سے نہ ڈگمگائیں ۔انہوں نے کہا کہ بھارت نے نہ صرف یہ کہ محمد مقبول بٹ اور انکے بعد محمد افضل گورو کو تختہ دار پر لٹکایا بلکہ ان کی اجساد خاکی اور باقیات تک کو تہاڑ جیل میں ہی قید کرکے رکھا ہوا ہے۔ فرنٹ چیئرمین نے کہا کہ 11؍ فروری1984؁ء کے دن بھارت نے کشمیریوں کے اس بے لوث قائد کو تختہ دار پر لٹکاکر یہ گمان کیا کہ انہوں نے کشمیریوں کی آواز کو دبادیا ہے لیکن حق یہ ہے کہ بھارت اپنی اس کاوش میں ناکام ہوا اور مقبول ؒ بٹ کی شہادت کے بعد کشمیر کے ہر گھر اور ہر گلی سے ہزاروں مقبولؒ پیدا ہوئے جنہوں نے بھارت کے  تسلط کے خلاف جدوجہد کو
 
 

مرحومین کے اجساد واپس کئے جائیں

دلی سنگدلی کی روش ترک کرے:گیلانی

سرینگر//حریت(گ) چیئرمین سید علی گیلانی نے مرحوم مقبول بٹ اور افضل گورو کی باقیات واپس لوٹانے کی مانگ دہراتے ہوئے کہا کہ یہ خالصتاً ایک انسانی مسئلہ ہے اور دہلی والوں کو اپنی سنگ دلی ترک کرکے ان کی باقیات واپس کرنے میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ حریت چیرمین نے کہا کہ مرحوم محمد افضل گورو کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ان کے گھر پر ایک تعزیتی مجلس کا اہتمام کیا گیا تھا، البتہ حکومت نے پورے علاقہ کو سیل کرکے کرفیو جیسی پابندیاں عائد کی اور سینکڑوں آزادی پسند لیڈروں اور کارکنوں کو حراست میں لیا گیا۔ حریت راہنمانے کہا کہ یہ چوری اور سینہ زوری کے مترادف کارروائی ہے اور ہم اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔گیلانی نے کہاکہ بھارت کو معلوم ہونا چاہیے کہ زور زبردستی کے ذریعے وہ کشمیریوں کو اپنے مطالبے سے دستبردار ہونے پر مجبور نہیں کرسکتے ہیں اور نہ ہم اپنے سرفروشوں کو فراموش کرسکتے ہیں۔ بھارت پچھلی 7دہائیوں سے اپنے فوجی طاقت کے ذریعے ہماری تحریک کو دبانے کی کوشش کررہا ہے، البتہ اس کو نہ صرف یہ کہ کوئی کامیابی نہیں ملی ہے، بلکہ کشمیری قوم کا جذبۂ آزادی اور زیادہ مضبوط ہوگیا ہے اور ہماری نئی نسل جدوجہد کے حوالے سے زیادہ حساس بن گئی ہے۔
 
جاری رکھا ہوا ہے۔