مجھے لگ رہا تھا کہ میں خود ہی اپنی لاش اپنے کندھوں پر اٹھا کر کسی اور دیس کا سفر کر رہا ہوں۔ میرے آس پاس جو اکا دکا آدمی کسی مجبوری کی وجہ سے ہی باہر نظر آرہے تھے اُن پر بھی یہی گماں ہورہا تھا کہ کب کے مر کھپ گئے ہیں۔ ابھی سات روز پہلے میرے اس گاؤں سے صرف پچاس کلو میٹر دور میرے بڑے شہر غوطہ پر بمباری ہوئی تھی اور سینکڑوں جانیں دھواں بن کر ہواؤں میں تحلیل ہوگئیں تھیں۔ میں اب یہ سمجھا تھاکہ درد جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو انسان بے نیاز کیسے ہوتا ہے۔ میں آگے بڑھتا گیا کہ ناگاہ میری نظر پتھر سے ٹیک لگائے ایک آدمی پر رک گئی۔ اپنی تمام وحشتوں کے باوجود مجھے اس چہرے میں شناسی کی جھلک نظر آئی اور میں فوراً ہی اپنے لاشعور کو کھنگالنے لگا۔ یہ چہرہ ،،، یہ چہرہ ، جیسے بہت دیکھا ہے اور اسی کے ساتھ میرے ذہن میں ایک بجلی سی کوندی اور میرے شعور کی سطح پر ایک چہرہ صاف اور واضح ابھر آیا۔ الجھے ہوئے بال ،، بکھری ہوئی بے ترتیب داڑھی، پھٹے پرانے سے کپڑے، وحشت زدہ آنکھیں، مرجھایا ہوا زرد زرد سا چہرہ ۔لیکن میں اس چہرے کو کیسے بھول پاتا جس نے چار سال مجھے یونیورسٹی میں پڑھایا تھا وہ بھی اسی مشہور شہر غوطہ میں، جس پر اب زمینی خداؤں کا قہر جاری تھا ،،،،میں ایک جست لگاکر اس کے پاس پہنچا …
’’آپ حسنین ہیں ، میرے استادِ محترم ، میں نے آپ کو اس حالت میں بھی پہچانا‘‘میری آواز میں ہلکا سا جوش تھا۔
حسنین نے میری طرف دیکھا، اِن کی آنکھوں میں عجیب سی ویرانی تھی۔ میں اس ویرانی کو کوئی معنی نہیں دے سکا ۔
’’نہیں ۔۔ مجھے کوئی تکلیف نہیں ، میں بس رونا چاہتا ہوں لیکن میرے ساتھ کوئی رونے والا نہیں۔ پروفیسر کی آواز مجھے کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ میرا سارا وجود جھنجنا اٹھا۔ یہ اس شخص کی آواز تھی جسے اپنے سٹوڈنٹ باغ و بہار کہا کرتے تھے ۔ میں سمجھ چکا تھا اور ایک لمحے میں۔ میں یہ جان گیا تھا کہ پروفیسر کا گھرانہ بھی بمباری کا نشانہ بن چکا ہے کیونکہ وہ بھی شہر کے مشرقی حصے میں ہی رہائش پذیر تھے۔ میں نے انہیں سہارا دے کر کھڑا کیاتوانہوں نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔ مجھے اندازہ کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہوئی کہ وہ شاید کئی دنوں سے بھوکے پیاسے بھی ہیں کیونکہ ان کے قدم بھی لڑکھڑا رہے تھے ۔بڑی مشکل سے حسنین کو میں اپنے ڈرائینگ روم تک پہنچا پایا اور وہ ہر تین چار قدم کے بعد بس یہی ایک جملہ دہرا رہے تھے کہ ’’میں رونا چاہتا ہوں لیکن میرے ساتھ کوئی رونے والا نہیں‘‘۔
ڈرائنگ روم میں بچے ٹی وی دیکھ رہے تھے، میرے ساتھ ایک اجنبی کو اندر آتے ہوئے دیکھ کر باہر چلے گئے۔ میں نے ریمورٹ سے ٹی وی بند کرنا چاہا لیکن حسنین نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روک دیا۔ سکرین پر حالیہ بمباری کے مناظر دکھائے جا رہے تھے اور اینکر ان مناظر پر کیمنٹری دے رہا تھا۔ روسی اور امریکی ڈرونز کا فرق سمجھا رہا تھا۔ ان کی ہولناکی ، بم گرانے کی رفتار اور تباہی کا حجم بتا رہا تھا۔ اسی اثناء میں سکرین پر امریکی ڈرون نمودار ہوا ، دوسری طرف سے ایک اور روسی ڈرون بھی ایک دھبے کی صورت سکرین پر دکھائی دیا، یہ غوطہ شہر پر بمباری ہی کے مناظر تھے جو خود انہی ڈرونز نے عکس بند کئے تھے کیونکہ اب جنگوں میں بھی کرکٹ کی تکنیک پر سب کچھ چنلوں سے ٹیلی کاسٹ کیا جاتا ہے۔ نیچے زمین پر مائیں شیر خوار بچوں کے لئے بھیک کی تلاش میں تھیں ، پانی کی تلاش میں تھیں اور دواؤں کی تلاش میں بھٹک رہی تھیں۔اب سکرین پہ ڈرونز صاف دکھائی دے رہے تھے۔ دونوں بمباروں نے ہوا میں غوطہ کھایا اور پھر اوپر اٹھتے گئے جیسے اوپر ہی اوپر ایکدوسرے کو کوئی محبت بھرا خفیہ پیغام دے رہے تھے اور اس کے بعد بمباری شروع ہوئی ، اب زمین پر حد نگاہ تک شعلے تھے ، آگ تھی اور دھواں تھا…ڈرون کی گھڑ گڑاہٹ بالکل قہقہوں سے مشابہت رکھتی تھی ۔
’’میں بھی کہیں یہاں ہی رہ رہا تھا ۔ میرے بچے کہاں گئے، وہ اس وقت گھر میں ہی تھے ،،، سب مجھے چھوڈ کر چلے گئے ،،،میں اب رونا چاہتا ہوں ، لیکن میرے ساتھ کوئی رونے والا نہیں ‘‘ حسنین منمنا رہا تھا ، بڑ بڑارہا تھا، میری طرف کچھ عجیب سی نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔ اچانک ٹی سکرین سے سب کچھ اتر گیا ،،، کوئی سگنل نہیں رہا ، رابطہ کٹ چکا تھا شاید۔
’کیا ٹی وی سنٹر پر بھی کوئی بم آگراہے‘‘ پروفیسر کی نحیف آواز سنائی دی لیکن سکرین پر اچانک سری دیوی کی کسی فلم کے مناظر آنے لگے ، میں حیران کہ اچانک سب کچھ کیوں بدل گیا۔ اب اینکر بھی دکھائی دیا جو بلک بلک کر رو رہا تھا۔ سری دیوی کا انتقال ہوچکا تھا۔ میں نے چنل بدل دیا۔ ایک دو اور تین ، پھر کئی اور چنل بدل دیئے، ہر چنل پہ اب سری دیوی اور اس کی موت کا سوگ منا یا جارہا تھااور اینکر بلک بلک کر ، تڑپ تڑپ کر ،خاک ملتے ہوئے ، اور کچھ دھاڈیں مار مار کر سری دیوی کے انتقال کی خبر دے رہے تھے ’’شاید یہ لوگ غوطہ شہر کے بچوں کا سوگ منا رہے ہیں ۔ لیکن میں نہیں سمجھ رہا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں شاید مجھے رونے والے مل گئے ہیں ‘‘
حسنین کی آنکھوں میں چمک سی عود کر آئی’’سر۔ یہ بالی وڈ کی ایک ایکٹرس کا سوگ منا رہے ہیں ‘‘میں نے دبی دبی سی آواز میں کہا۔
’’ا۔چھ ۔ا۔یہ میرے ساتھ نہیں رو رہے ۔ مجھے کوئی رونے والا نہیں مل رہا ‘‘ حسنین صوفے پر دراز ہوا ، آنکھیں پتھراگئیں ، چہرہ زرد پڑ گیا ، سانسیں اٹکنے لگیں ، سر ۔۔ سر ۔میں آوازیں ہی دیتا رہ گیا۔میں نے محسوس کیا پروفیسر ٹھنڈا پڑ چکا ہے ، دھڑکن رک چکی ہے اور سانسیں بھی تھم گئیں ہیں ،،،، اسی وقت میری بیوی تھالی میں کھانا پروس کر لائی ۔
’’اب اسے کھانے کی حاجت نہیں رہی ، میں کفن دفن کا انتظام کرنے جا رہا ہوں ‘‘ میری آواز خود مجھ سے بھی اجنبی سی تھی،
’’کیوں ،کیوں ارے کیا ہوا۔اسے کیا ہوا کچھ تو بولے ‘‘ میری بیوی پوچھ رہی تھی
’’انسان مر چکا ہے ‘‘ میں نے کہا اور تیزی سے باہر آگیا۔
رابطہ؛سوپور کشمیر، موبائل نمبر 9419514537
شام کے نام
وہ سارے یہاں بدگماں ہو رہے ہیں
کہ اہل زباں بے زباں ہورہے ہیں
اُجاڑی گئی گودیاں ہر قدم پر
کسی کے خراب آشیاں ہورہے ہیں
حدیں ظلم کی ساری ہیں توڑ ڈالیں
کہ معصوم بچے لُہاں ہو رہے ہیں
چمن لُٹ رہا ہے، ہے بلبل بھی سہمی
کہ گُل سارے نذرِ خزاں ہورہے ہیں
قلم رو رہا ہے، ضیائیؔ کے ہاتھوں
کہ زخمِ جگر اب جواں ہورہے ہیں
امتیاز احمد ضیائیؔ
رابطہ؛ پونچھ،موبائل نمبر9697618435