! یہ ہاتھ اُٹھا نا دلیلِ شکستہ پائی ہے

محمد ابراہیم خان
الحمداللہ! آپ ایک سلجھے ہوئے اور تعلیم یافتہ نوجوانوں ہو اور مجھے امید ہے شادی بھی نہایت ہی سادگی سے کرو گے ۔ اور ہاں اس میں تو کوئی شک نہیں کہ رشتہ بھی مقدر میں ہے، جس لڑکی کا رزق تمہارے پاس لکھا ہوگا وہ تو آکر رہے گی اور نکاح بھی تمہارا ہو جائے گا ۔ ہمار اکیا! ہم تو ایک عرصے سے دعا کر رہے ہیں اور امید ہے کہ تمہارے سر پرست اور تم خود بھی تو دعا کر ہی رہو گے ۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ مقدر میں تو لکھا ہے، اس پر تمھارا بھی پختہ یقین ہے ۔

یہ ہم بار بار یاد دہانی اس لئےکروارہے ہیں کہ ہمیں انتظار ہے دعوتِ ولیمہ کا۔اور جب تک نکاح نہیں ہوتا ،آپ دعوت پر بُلا بھی نہیں سکتے ۔ اگر تم کبھی بُلا لیتے تو پھر اتنا بھی نہ کرنا پڑتا۔ ہم تو دعوت اُڑا کر چپ بیٹھ جاتے۔ ہاں البتہ آپ کا اصرار ہے تو ہم دعا تو کرتے رہیں گے ۔

 ہماری سمجھ میں ایک بات تو یہ آتی ہے کہ جس طرح آپ مسلسل تلاش روزگار میں تھے بلکہ شاید بیروزگاری کے خلاف جو احتجاج ہوا ہوگا، اُس میں شرکت کی ہوگی اور آخر روزگار مل ہی گیا ۔ اُسی طرح کسان بھی خوب محنت کرتا ہے اور بیج بوتا ہے، بارش ہوتی ہے اور اسے محنت کا پھل مل ہی جاتا ہے ۔ٹھیک ہے آپ نے ایک پوسٹ بھیجی ہے اور اسی طرح میرے ایک شاگرد ہیں، اُن کی بھی ایک پوسٹ موصول ہوئی ہے ۔ ہمیں یہ دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے کہ تعلیم یافتہ دیندار طبقہ کے نوجوانوں نے اس آن لائن سلسلے کو بڑا مفید بنا دیا ہے ۔ ورنہ آج انٹر نیٹ کی تباہ کاریوں کا ایک عذاب مسلط ہے قوم کے نوجوانوں پر ۔اس سلسلے میں بھی سعی و جہد کی ضرورت ہے ۔ آپ اس سلسلے سے بیزارگی دکھائیں یا’’ اس لعنت سے ، اللہ جوانوں کو بچالے ‘‘ اس طرح خوب خوب دعائیں کریں ، اور کوئی جدوجہد نہ کریں تو حالات آپ ہی آپ نہیں بدلیں گے ۔آپ اچھے لکھنے والوں کو اس طرف متوجہ کریں اور وہ اچھی مفید پوسٹ ڈالیں تو ایک اچھا سلسلہ شروع ہوگا اور تبدیلی آئے گی ۔ہمارا خیال ہے کہ ان مثالوں میں کافی عملی ثبوت پیش کر دئے گئے ہیں ۔ہمیں واٹس ایپ پر ایک پوسٹ آپ نے یہ بھی سینڈ کی، جس کا جواب دینے کی ہمیں فرصت ہی نہیں مل رہی تھی ، سوچنے کے انداز بھی الگ الگ ہوتے ہیں ۔ ہمیں حال ہی میں ایک نوجوان نے بھی ایک پوسٹ ارسال کی ، جس پر ہم کافی دیر تک غور وفکر کرتے رہے ۔ اور پھر آپ کے لئے بھی کچھ وقت نکالنا ہی پڑا ۔آپ پہلے اپنی ہی ارسال کردہ تحریر کو پڑھ لیں اور پھر حالات کے تقاضوں کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں ۔ آپ نے لکھا ہے ، یا کہیں سے منقول ہے کہ” ایک حضرت جي ؒ کے زمانے کا قصہ ہے کہ ان کے زمانے میں مہنگائی بہت بڑھ گئی۔ کچھ لوگ حضرت جی کے پاس آئے اور مہنگائی کی شکایت کی اور کہا کہ : کیا ہم حکومت کے سامنے مظاہرے کرکے اپنی بات پیش کریں؟

حضرت نے ان سے فرمایا : مظاہرے کرنا اہل باطل کا طریقہ ہے۔پھر سمجھایا کہ دیکھو! انسان اور چیزیں دونوں الله تعالیٰ کے نزدیک ترازو کے دو پلڑوں کی طرح ہیں ، جب انسان کی قیمت الله تعالیٰ کے یہاں ایمان اور اعمال صالحہ کی وجہ سے بڑھ جاتی ہے تو چیزوں کی قیمت والا پلڑا خودبخود ہلکا ہوکر اوپر اٹھ جاتاہے اور مہنگائی میں کمی آجاتی ہے۔

اور جب انسان کی قیمت الله تعالیٰ کے یہاں اس کے گناہوں اور معصیتوں کی کثرت کی وجہ سے کم ہوجاتی ہے تو چیزوں والا پلڑا وزنی ہوجاتا ہے اور چیزوں کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔لہٰذا تم پر ایمان اور اعمال صالحہ کی محنت ضروری ہے تاکہ الله پاک کے یہاں تمہاری قیمت بڑھ جائے اور چیزوں کی قیمت گر جائے۔پھر فرمایا:لوگ فقر سے ڈراتےہیں حالانکہ یہ شیطان کا کام ہے۔ الشیطان یعدکم الفقر اس لئے تم لوگ جانے انجانے میں شیطانی لشکر اور اس کے ایجنٹ مت بنو۔الله کی قسم ! اگر کسی کی روزی سمندر کی گہرائیوں میں کسی بند پتھر میں بھی ہوگی تو وہ پھٹے گا اور اس کا رزق اس کو پہنچ کر رہے گا۔مہنگائی اُس رزق کو روک نہیں سکتی جو تمہارے لئے الله پاک نے لکھ کر مقرر کر دیا ہے۔کثرت سے استغفار کی جائے’’اَسْتَغفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَیْہِ ‘‘

اب ایک اور اس سے کافی مختلف ، مدلل ، اور دعوت غور وفکر دیتی ہوئی ایک تحریر ایک نوجوان نے واٹس ایپ پر یہ ڈالی ، اِسے بھی پڑھ کر د یکھئے کچھ سوچئے اور کچھ کیجئے ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ غیبی مدد نہ اسپین سے مسلمانوں کے خاتمےکے وقت آئی نہ خلافت عثمانیہ کو بچانے کے لئے آئی ، اسرائیل کا قیام روکنے کے لئےاور نہ بابری مسجد کو بچانے کے لئے  آئی ،نہ عراق وشام کی تباہی کے وقت آئی،نہ میانمار میں قتل و غارت کے وقت آئی اور نہ ہی گجرات اور کشمیر کے لئے آئی۔پھر بھی گھروں اور مسجدوں میں بیٹھ کر غیبی مدد کی صدا ؟ ہاں!غیبی مدد جنگ بدر میں آئی، جب 1000 کے مقابلے میں 313میدانِ جنگ میں اُترے۔غیبی مدد جنگ خندق میں آئی جب اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پّیٹ پر 2 پتھر باندھ کر خود خندق کھودی اور میدانِ جنگ میں اُترے۔غیبی مدد افغانستان میں آئی، جب بھوکے پیاسے مسلمان بے سرو سامانی کے عالم میں میدانِ جنگ میں اُترے۔دنیا کا قیمتی لباس پہن کر،مال و زر جمع کر کے،لگژری ایئر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں بیٹھ کرجھُک جُھک کر لوگوں کے ہاتھ چومنے کی خواہش لے کر،لوگوں کی واہ واہ کی ہنکار کی خواہشات لئے مسجدوں کے ممبروں پر بیٹھ کر بددعائیں کر کے غیبی مدد کے منتظر ؟طاغوت کے نظام پر راضی اور پھر غیبی مدد کے منتظر ؟اللہ کی زمین پر اللہ اور اُس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نظام کے نفاذ کی جدوجہد کے بجائے صرف نعت خوانی ،محفلِ میلاد یا تسبیح کے دانوں کو دس لاکھ بیس لاکھ گھما کر غیبی مدد کے منتظر ؟آفاقی دین کو چند جزئیاتِ عبادت میں محصور و مقید کر کے غیبی مدد کے منتظر ؟مسلمانوں کو مجاہد کے بجائے مجاور بنا دینے کے بعد غیبی مدد کے منتظر؟

جہاد فی سبیل اللہ اور جذبہ شہادت سے دُور رہ کر اور دُور رکھ کر مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و جبر اور مصائب و مشکلات دیکھ کراللہ دشمن کو غرق کر دے،اللہ دشمن کو تباہ و برباد کر دے،یا اللہ مظلوموں کی مدد فرما،یا اللہ دشمنوں کو ہدایت عطا فرما دے اور اگر اُن کے نصیب میں ہدایت نہیں تو انہیں غرق کر دے،جیسی بددعاؤں پر اکتفاء کر کے سکوت اختیار کر لینے اور سکون سے نوالہ حلق سے نیچے اُتار کر پیٹ بھر بھر کر گہری نیند سونے والے غیبی مدد کے منتظر ؟یعنی سب کچھ اللہ کے ذمہ لگا کر اور خود کنارہ کشی اختیار کر کے غیبی مدد کے منتظر ؟میدان جہاد میں اُترنے سے ڈرتے اور کتراتے ہوئے آسمانوں سے فرشتوں کے نازل ہو کر مسلمانوں کی غیبی مدد کے منتظر ؟کیا نعوذباللہ ،اللہ اور اُس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ڈرامہ کرتے ہو ؟اتنی جرأت تو شیطان میں بھی نہ تھی اور نہ ہے۔سُنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ہمیں بتاتی ہے کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میدانِ جنگ سجایا اور بعد میں اللہ کی غیبی مدد کے لئے دُعا کے لئے ہاتھ بلند فرمائے جبکہ آج کا جہاد صرف بددعا کی دعا ہے اور نہ دُعا سے پہلے اور نہ دعا کے بعد کوئی عملی اقدامات و جد وجہد ۔ایسی صورت میں صرف اللہ کی پکڑ اور عذاب ہی آتا ہے نہ کہ کوئی غیبی مدد۔ امید ہے کہ ان باتوں سے یہ بات تو سمجھ میں آ گئ ہوگی کہ توکل سے یہ قطعی مراد نہیں ہے کہ عمل سے دور بس دعائیں مانگتے رہئے ۔بلکہ عمل سے پہلے بھی اور دوران عمل اور عمل کے بعد بھی دعا مانگنا ضروری ہے۔ دعا تو مومن کا ہتھیار ہے اور ہتھیار اُٹھا کر ہی میدان کا رُخ کرنا پڑتا ہے ۔عمل سے دور دُعاؤں کے مانگنے والوںیہ ہاتھ اُٹھا نا دلیلِ شکستہ پائی ہے۔