’’ یہ ماجرا کیا ہے ‘‘

راشد، آ کھانا کھا لے بیٹا ، ایک بج گیا ہے ، میں نے کھانا لگا دیا ، یہ پھر ٹھنڈا ہوجائے گا۔
راشد کہاں گیا تو ؟ ابھی یہاں آنگن میں ہی بیٹھا تھا۔ شاید محلے کے بچوں کے ساتھ کھیلنے گیا ہوگا۔ چلو پانچ دس منٹ انتظار کروں گی تب تک آئے گا۔
 " کلثوم آپا کا شوہر کسی حادثے کا شکار ہوگیا تھا اور اسی میں اپنی جان کھو بیٹھا تھا۔ ایک بیٹی تھی اس کا بیاہ ہوگیا تھا۔ اب اس کا صرف یہی ایک بیٹا تھا ، اسی  کو دیکھ کر وہ جی رہی تھی "
جب راشد نہیں آیا تو کلثوم آپا بے چین ہوکر اس کی تلاش میں نکلی۔
صغریٰ بی بی سے پوچھا " بہن ، راشد کو کہیں دیکھا ہے ؟ 
نہیں " صغریٰ بی بی نے جواب دیا۔
بیٹی ، کہیں میرے لعل کو مت دیکھا ؟ سولہ سالہ فاطمہ سے پوچھا۔
نہیں اماں میں نے نہیں دیکھا " فاطمہ نے جواب دیا۔
اسی طرح چند اور لوگوں سے پوچھا لیکن سب نے نفی میں جواب دیا۔ 
اسی اثنا میں کلثوم آپا نے دو جوانوں کو دیکھا، جو راحت اندوری صاحب کا شعر گنگنا رہے تھے۔ لگتا تھا کہ ان کو شعر و شاعری کے ساتھ دلچسپی تھی۔ کلثوم آپا نے ان کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی اور اپنے لخت جگر کے بارے میں سوچنے لگی۔
محلے کے ایک بزرگ غلام رسول ، جیسے عرف عام میں رسول کاک کہتے تھے، نے کلثوم آپا سے پوچھا " کیوں کلثوم کیا ہوا ، پریشان کیوں دکھ رہی ہو " ؟
کیا کہوں رْسْل کا کا۔ بیٹا ابھی یہاں تھا پتہ نہیں کہاں چلا گیا۔ رْسْل کاک نے کہا ابھی کم سن ہے اس کی عمر تو ابھی دس سال بھی نہیں ہے ، بچوں کے ساتھ کھیلنے گیا ہوگا۔ پریشان مت ہو۔ 
کلثوم آپا کے دل کو تھوڑی تسلی تو مل گئی۔ لیکن وہ تو ایک ماں تھی ، ان دو باتوں سے اس کو  کہاں چین ملتا۔
" پتہ نہیں کہاں چلا گیا، ابھی یہاں ہی تو تھا ، ابھی۔۔۔۔۔۔۔۔  "  یہ باتیں کلثوم آپا واپس آتے ہوئے رستے میں خود کے ساتھ  ابھی کر ہی رہی تھی کہ پیچھے سے دو بچے دوڑ کر آئے۔ اور اس کو آواز دی " اماں اماں اماں " 
 کلثوم آپا نے پیچھے مڑ کر کہا " راشد میرے بیٹے ابھی تک تم کہاں تھے ؟ " 
وہ دونوں بچے کلثوم آپا کے نزدیک پہنچے ، ان میں راشد تھا ہی نہیں۔ بچوں نے اُس سے کہا " اماں آپ کا راشد وہاں زمین پر پڑا ہے "
یہ سننا تھا کہ کلثوم آپا کے  پیروں تلے زمین کھسک گئی۔ دوڑنا چاہا لیکن پورا شریر کانپنے لگا۔ سینہ پیٹتے ہوئے راشد راشد چلانے لگی۔وہ صرف اللہ سے دعا مانگ رہی تھی کہ " خدایا میرے راشد کو سلامت رکھنا۔ میرے راشد کو۔۔۔۔۔ "
دور سے ہی لوگوں کا ہجوم دیکھا۔ ہمت کر کے نزدیک پہنچی تو کیا دیکھا کہ وہاں راشد تھا ہی نہیں بلکہ راشد کی لاش تھی۔ اس کو دیکھ کر بے ساختہ چیخ و پکار کی آوازیں بلند ہوئیں۔ ہائے راشد ، راشد مجھ سے ایک بار بات کرنا ، راشد ماں کو گلے لگاؤ نا راشد۔ اٹھو راشد چلو گھر چلتے ہیں ، میں نے کھانا لگایا ہے وہ ٹھنڈا ہوجائے گا۔ راشد میں تمہیں خود سے کیسے جدا دیکھ سکتی ہوں۔ میرے اس بڑھاپے میں تم میرا واحد سہارا ہو۔ تمہارے لیے میرے دل میں کتنے ارمان ہیں۔ ان ارمانوں کو مجھے پورا کرنا ہے راشد۔ خاموش کیوں ہو راشد ؟؟؟
لوگ راشد کی لاش کو گھر لے جانے کی تیاری کر رہے تھے۔
 بھیڑ کافی بڑھتی گئی۔ اس دوران کئی عورتیں بھی پہنچیں اور کلثوم آپا کو تسلی دینا شروع کی۔ صغریٰ بی بی بھی رورہی تھی ، وہ ایک ہاتھ سے اپنے آنسوؤں کو پونچھ رہی تھی اور ایک ہاتھ سے کلثوم آپا کو اٹھایا اور  فاطمہ نے کلثوم آپا کا دوسرا ہاتھ تھاما۔
 رْسْل کاک مایوس بید کے درخت کے ساتھ کھڑا پتہ نہیں کیا سوچ رہا تھا۔ شاید یہی کہ اس معصوم کی کیا خطا تھی؟ 
بھیڑ میں سے کلثوم بی بی کی نظر پھر ان دو جوانوں پر پڑی اور اس کو وہ شعر یاد آیا جو وہ گنگنا رہے تھے ؎
سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا
کچھ پتہ تو کرو چناؤ ہے کیا
وہ سمجھ گئی کہ " یہ ماجرا کیا ہے "
 
ای میل ؛[email protected]