’’ یہ سنٹر کی چال ہے ‘‘

گزشتہ سال پانچ اگست کو دفعہ تین سو ستر کے خاتمے اورجموں و کشمیر کی ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کا واقعہ عوام پرسکتہ طاری کردینے والا واقعہ تھا ۔کافی عرصے تک دل ، دماغ اور زبانیں جیسے مفلوج ہوکر رہ گئے ۔نہ کوئی کچھ سمجھ سکا ، نہ سوچ سکا اور نہ ہی کچھ بتا سکا ۔کا فی دنوں کے بعد جب لوگ اچانک صدمے سے ابھرے تو سارے قایدین نظر بند تھے ۔ سیاسی تنظیمیں منظر سے ہٹ چکی تھیں۔سامنے کچھ نہیں تھا اس لئے لوگ بھی خاموش رہے ۔اس دوران اپنی پارٹی کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت قائم ہوئی جو پی ڈی پی کے اُن لیڈروں پر مشتمل تھی جو پارٹی سے ناراض تھے ۔پارٹی کے قیام کا اعلان ہوا تو لوگوں کی زبانیں بھی کھل گئیں ۔بازاروں میں، نائیوں کی دکانوں پر ، ریستورانوں میں اور مباحث کی دیگر بیٹھکوں پر تقریباً ایک ہی رائے کا اظہار ہو ا ۔’’ یہ سنٹر کی چال ہے ‘‘۔اپنی پارٹی کو ریاست کی بحالی کے ساتھ اقتدار سونپنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اس خیال کے دائرے میں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کا خاتمہ کرنے کی مرکز کی پالیسی کا پہلو بھی موجود تھا ۔اس کے بعد جب قومی دھارے کی جماعتوں کے لیڈروں کی نظر بندی ختم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو سوشل میڈیا سے نائی کی دکانوں تک پھر بحث شروع ہوئی اور تقریباً ہر دانائے دہر نے یہ رائے پیش کی کہ ’’ یہ سنٹر کی چال ہے ‘‘۔اسے سمجھ میں آگیا ہے کہ اپنی پارٹی سے بات نہیں بنے گی نیشنل کانفرنس ہی کام آسکتی ہے ۔بیرونی دبائو کی وجہ سے سیاسی عمل جلد از جلد بحال کرنا لازمی بن چکا ہے، اس لئے ممکن ہے کہ ریاست کی بحالی کے ساتھ ساتھ دفعہ تین سو ستر کی جزوی بحالی کا بھی فیصلہ کیا گیا ہو تاکہ نیشنل کانفرنس اس کو لیکر مرکز کے ایجنڈے پر کام کرے جس کے لئے اسے راضی کرلیا گیا ہے ۔ڈاکٹر فاروق عبداللہ بھی سیاسی گفتگو سے گریز کررہے تھے، اس لئے اس بات کو یقین کے ساتھ آگے بڑھایا جارہا تھا ۔اس کے بعد امکان تھا کہ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کی نظر بندی بھی ختم کردی جائے گی لیکن جب ایسا نہیں ہوا تو پھر مباحث کا بازار گرم ہوا اور یہ رائے پیش کردی گئی کہ یہ بھی ’’سنٹر کی چال ہے ‘‘ سنٹر محبوبہ مفتی کی نظر بندی برقرار رکھ کر دراصل عوام میں اس کی اعتباریت کو بحال اور مضبوط بنارہی ہے تاکہ بعد میں جب اس کی نظر بندی ختم ہو تو اسے پارٹی میں پھر سے نئی روح پھونکنے میں کوئی دشواری نہ ہو ۔کچھ ہی دن پہلے بیروکریٹ سے سیاست کے میدان میں آنے والے شاہ فیصل نے اپنی بنائی ہوئی پارٹی سے استعفے دے دیا تو بازاری شوشہ بازوں اور سوشل میڈیا کے سیاسی ’’ دانشوروںــ‘‘ نے بغیر وقت ضائع کئے اعلان کرڈالا کہ ’’ یہ سنٹر کی چال ہے ‘‘ ۔ شا ہ فیصل کو نئے لیفٹنٹ گورنر کی مشاورتی کونسل میں شامل کرکے ایک اہم کردار ادا کرنے کا راستہ ہموار کیا گیا ہے ۔اس سے پہلے جب شاہ فیصل نے انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدے سے استعفیٰ دیکر سیاسی پارٹی کا قیام عمل میں لایا تو اس وقت بھی نائیوں اور سوشل میڈیا کے سیاسی شوشہ بازوں نے رائے قائم کی تھی کہ ’’ یہ سنٹر کی چال ‘‘ ہے ۔وہ ایک نیا مین سٹریم قائم کرنا چاہتا ہے اوراس کے لئے شاہ فیصل کا انتخاب کیا گیا کیونکہ وہ نوجوان پود کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہوسکتے ہیں ۔اس کے بعد بھی جو کچھ ہوگا بے شک اسے ’’ سنٹر کی چال ‘‘ ہی قرار دیا جائے گا ۔اس میں شک نہیں کہ مرکز کے نئے نئے منصوبے اس کی چالیں ہی ہوتی ہیں لیکن کشمیر میں اس کے ساتھ جتنی چالیں منسوب ہوتی ہیں ان کا شاید اسے بھی پتہ نہیں ہوتا ۔ہر ایک واقعہ کو سنٹر کی چال قراردینا کشمیریوں کی نفسیات کا ایک اٹوٹ حصہ بن چکا ہے لیکن اس میں کشمیریوں کی کوئی خطا نہیں ہے خود سنٹر نے ہی یہ نفسیات پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔
اس کا آغاز 1953ء میں اس وقت ہوا جب ریاست جموں و کشمیر کی منتخب حکومت کو راتوں رات ایک سارش کے تحت گرادیا گیا اور اُس وقت کے مقبول ترین عوامی لیڈر شیخ محمد عبداللہ کو گرفتار کرلیا گیا اور یہ ہندوستان کے اُس وزیر اعظم کے دور میں ہوا جس نے لالچوک کے پلیڈیم سنیما کے سامنے ایک جلسے میں شیخ صاحب کا ہاتھ تھام کر اوپر اٹھایا تھا اور شیخ صاحب نے ان سے کہا تھا ’’ تو من شدی من تو شدم ‘‘۔شیخ صاحب کو ہی ہندوستان کے ساتھ الحاق کا ذمہ دار بھی قرار دیا جارہا ہے ۔شیخ صاحب کو جس نے اپنا پانچواں ایمان کہا تھا، اُس بخشی غلام محمد کو اقتدار کی مسند پر بٹھادیا گیا ۔گیارہ سال اُس نے وزیر اعظم کی حیثیت سے حکومت کی۔ اس دورا ن کسی انتخاب میں عوام نے شمولیت نہیں کی ۔بخشی غلام محمد کو پھر کامراج پلان کے تحت اقتدا ر سے ہٹادیا گیا ۔ ان کی جگہ ایک غیر معروف شخص شمس الدین کو لایا گیا ۔اس دوران موئے مقدس کی چوری کا واقعہ رونما ہوا ۔ پھر شمس الدین کو ہٹاکر غلام محمد صادق کو لایا گیا ۔اس کے ذریعے دفعہ 370کو کھوکھلا کردیا گیا تو اس کی جگہ سید میر قاسم کو لایا گیا ۔ ہیر پھیر سے کانگریس کی حکومت قائم کردی گئی جس کے لیڈران کے گھر والے بھی ان کے ساتھ نہیں تھے ۔اس طرح کشمیر یوں کے ذہنوں میں یہ بات گھر کرگئی کہ ریاست جموں و کشمیر میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ ’’ سنٹر کی چال ‘‘ ہوتی ہے جس کا مقصد عوام پر اپنی پسند کی لیڈر شپ اور اقتدار تھوپنا ہوتا ہے ۔مرکز کے ساتھ ساتھ قد آور لیڈروں نے بھی اس نفسیات کو مستحکم کرنے میں غیر معمولی کردار ادا کیا ۔جو کوئی بھی نوجوان شیخ محمد عبداللہ کی تنقید کرتا تھا، اسے وہ آئی بی کا ایجنٹ قرار دیتے تھے ۔جو بات بھی ان کو پسند نہیں ہوتی تھی اسے وہ ’’ سنٹر کی چال ‘‘ قرار دیتے تھے ۔اُس وقت کے میر واعظ مولوی محمد فاروق کو بھی انہوں نے کئی بار آئی بی کا ایجنٹ قراردیا ۔ان کی قائم کردہ سیاسی جماعت عوامی ایکشن کمیٹی کو بھی وہ ’’ سنٹر کی چال ‘‘ کہتے رہے ۔جماعت اسلامی کو بھی وہ سنٹر کی چال کہتے تھے ۔میر واعظ فاروق صاحب بھی اکثر و بیشتر ’’سنٹر کی چال ‘‘کا جملہ استعمال کرتے تھے ۔اس کے بعد جب کشمیر میں بندوق داخل ہوا اور پہلی گولی چلی تو پہلے پہل بہت سے لوگوں نے اسے بھی ’’سنٹر کی چال ‘‘ قرار دیا لیکن پھر جب بات صاف ہوگئی اور حریت کانفرنس کا قیام عمل میں آیا تو اس نے ہر مخالف بات کو ’’ سنٹر کی چال ‘‘ قرار دینے کی ذمہ داری سنبھال لی ۔کئی نسلوں کے کانوں نے ’’ سنٹر کی چال ‘‘ کے الفاظ سنے تو یہ ایک رویہ اور ایک نفسیات بن گئی جو خون میں داخل ہوگئی ۔ اب یہ کشمیریوں کے جینز کا حصہ ہے ۔وہ کسی بھی بات پر سوچتا نہیں بلکہ ہر بات کو براہ راست ’’ مرکز کی چال ‘‘ قرار دیگر مستر د کردیتا ہے ۔جب مرکز کے اعلیٰ پایہ کے سیاست دانوں کا وفد گیلانی صاحب کے دروازے پر پہنچ کر دستک دینے لگا تو اسے بھی ’’ سنٹر کی چال ‘‘ سمجھ کر دروازے بند رکھا گیا ۔اب یہ نفسیات لیڈروں میں بھی سرایت کرچکی ہے ۔
اس نفسیات کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ پچاس سال سے عام نوجوانوں کے سیاست میں داخلے کے دروازے بند ہیں ۔اس لئے آج سیاست کے میدان میں صرف پرانے قایدین کے بچے یا ان کے اپنے پسندیدہ چمچے اور چیلے ہیں ۔سیاست میں نوجوانوں کے داخلے کا دروازہ بند ہونے کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ نوجوان مذہبی جماعتوں کے ساتھ ملی ٹنسی میں جانے لگے جہاں انہیں آگے بڑھنے کے وہ مواقع ملے جن کی ہر نوجوان کو چاہت ہوتی ہے ۔شا ہ فیصل کوئی عام نوجوان ہوتا تو اس کا بھی یہی حال ہوتا لیکن سوگام کپوارہ کے دور دراز علاقے کے اس نوجوان جس نے اپنے بچپن میں ہی اپنے والد کی گولیوں سے چھلنی لاش دیکھی لیکن وہ غم و غصے اور انتقام کی آگ میں جل کر فنا نہیں ہوا ۔اس نے مثبت سوچ کے ساتھ تعلیم کی قوت اور طاقت پر بھروسہ کیا ۔ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد آئی اے ایس کے امتحان میں پورے ملک میں اول آیا تو راتوں رات شہرت اور عزت کے آسماں پر چھاگیا ۔بہت سے لوگوں کو یہ خطرہ نظر آیا کہ وہ نوجوانوں کا رول ماڈل بنے گا ۔اس لئے انہوں نے مختلف طریقوں اورمختلف ذرائع سے اس کی شبیہ بگاڑنے کی کوشش کی ۔ اسے چاکلیٹ بوائے کا لقب بھی دیا گیا ۔لیکن اس نے جس عہدے پر بھی کام کیا عوام کی خدمت کا جذبہ اس میں نمایاں تھا ۔ان کی کردار کشی کرنے کا بھی کوئی موقع کسی کے پاس نہیں تھا کیونکہ ان کی دیانتداری اور ایمانداری پر انگلی اٹھانے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے ۔پھر ایک دن انہوں نے سب کو اُس وقت سب کو چونکا دیا جب انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیکر سیاست کے میدان میں آنے کا اعلان کردیا۔کچھ لوگوں نے اسے مجنون قرار دیا کیونکہ اس نے اپنا روشن ترین مستقبل دائو پر لگادیا تھا ۔اس نے اپنی ایک سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان کردیا تو لوگوں نے اسے بھی ’’ سنٹر کی چال ‘‘ قرار دیا ۔ 37سالہ شا ہ فیصل کی سمجھ میں تب یہ بات آنے لگی کہ کشمیر کی زمینی حقیقت اور کشمیریوں کی ذہنی حالت کس قدر پیچیدہ ہے ۔ گزشتہ سال 5اگست کو انہیں بھی نظر بند کردیا گیا ۔ انہیں ہندوستان سے باہر جانے سے بھی روک دیا گیا ۔تب ان کی سمجھ میں جمہوری سیاست کے تضاد بھی آئے ہوں گے اور انہیں سیاسی را ہ اختیار کرنے پر افسوس بھی ہوا ہوگا ۔چونکہ وہ فیصلہ کرنے کی جرأت اور صلاحیت رکھتے ہیں ،اس لئے انہوں نے یہ فیصلہ بھی کردیا کہ وہ سیاست سے کنارہ کش ہورہے ہیں ۔انتہائی صداقت کے ساتھ انہوں نے وجہ بھی بتادی کہ زمینی حقیقت بدل چکی ہے اور اس بدلی ہوئی صورتحال میں وہ ایسا کچھ بھی نہیں کرسکتے جو وہ کرنا چاہتے تھے ۔حالانکہ اسے بھی ’’ سنٹر کی چال ‘‘ قرار دیا جارہا ہے حالانکہ ’’ سنٹرل کی چال ‘‘ تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ ثابت ہوچکی ہے جس کا استعمال ہر قوت نے کیا ہے ۔لیکن عوام اب بھی اس جھوٹ پر آنکھیں بند کرکے یقین کرتے ہیں ۔یہ جھوٹ اور اس پر یقین جب تک باقی رہے گا کشمیر میں نئی نسل کے لئے سیاست کے دروازے بند رہیں گے سوائے سیاسی لیڈرو ں کے بچوں کے ۔
جب تک کسی قوم میں نوجوانوں کو آگے آکر فیصلہ سازی کی قوت حاصل نہیں کرتے اس قوم کی تقدیر نہیں بدل سکتی ۔کشمیر میں بڑی زبردست سیاسی صلاحیتیں رکھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان موجود ہیں جو اس قوم کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن خود یہ قوم ہی ان کے اس میدان میں آگے بڑھنے کے راستے روکے ہوئے ہے ۔ اس لئے سیاست میں صرف غنڈوں ، بدمعاشوں ، چاپلوسوں ، دھوکے بازوں ، جاہلوں اور سیاسی وارثوں کی ہی جگہ باقی رہی ہے ۔جو اس قوم کا ہر طرح سے استحصال کررہے ہیں اور اس کے لئے آلام و مصائب کو بھی دعوت دے رہے ہیں ۔ کاش کہ یہ قوم بیدار ہوتی اور اس بات کو سمجھ کر ایک اپنے اندر ہی ایک انقلاب بپا کرکے تاریخ کے سارے مفروضوں کو مسترد کر کے آگے بڑھنے کا فیصلہ کرتی ۔