یہ انسان ہی ہے ظالم ! فکرو فہم

شہباز رشیدبہورو
نفس کے غلام ،اقتدار کے حریص ،عیاشی کے دلدادے ،دینار ودرہم کے متوالے اور لذت کی ایک چنگاری سے دین وایمان جلا کر راکھ کر دینے والا بھلا اپنی یا ملک وملت کی کیا تقدیر سنواریں گے ۔وہی تو ہیں جن کی مادی خوشحالی کے لئے لاکھوں لوگوں کی خوشحالیاںجہنم سے بدل دی جاتی ہیں ،وہی تو ہیں جن کا شاہی قافلہ اور خدم و حشم دوسروں کے پیٹ بھوکے رکھ کر اور دوسروں کا خون بہا بہا کر اپنا وجود قائم رکھتا ہے ۔تاریخ سے بادشاہوں کے قصے پڑھ کر ان حضرات کی نفس پرستی ،لذت پرستی ،شہوت پرستی ،چودھراہٹ پسندی اور تن آسانیوں کا نقشہ جو سامنے آتا ہے وہ نہایت تکلیف دہ ہوتا ہے کہ کیوں اور کیسے یہ لوگ اپنے اخروی انجام سے بے خبر رہتے تھے ۔حالانکہ یہ دیکھتے تھے کہ یہاں کی نہ کوئی شئے اور نہ ہی کوئی حالت دائمی ہے بلکہ سب کچھ عارضی اور زوال پذیر ہے ۔ہر دن سورج طلوع ہو کر غروب ہوتا ہے ،ہر دن روشنی کے بعد اندھیرا چھا جاتا ہے اور ہر دن لوگ مرتے ہیں ۔لیکن یہ سب ان کے لئے عام سے واقعات بن کر عبرت کے لئے کافی نہیں بنتے ۔
یہ بڑے افسوس کے ساتھ لکھنا پڑھ رہا ہے کہ انسان کی تاریخ زیادہ تر ظلم وبربریت سے عبارت رہی ہے ۔یہ انسان ہی ہے جس نے خون کے دریا بہائے ،یہ انسان ہی ہے جو اپنے ہم نوع انسانوں کو وحشی جانوروں کے پنجرے میں ڈال کر ان کی چیخ وپکار اور بالآخر موت سے لطف اندوز ہوتے ہیں،یہ انسان ہی ہے جو اقتدار کے بل بوتے پر جس غریب کو چاہتا مارتا ہے اور جسے چاہتا ہے زندہ چھوڑجاتا ہے ،جس کو قرآن نے یوں ایک ظالم کی زبان سے نقل کیا ،’انا احی و امیت‘ ۔یہ انسان ہی ہے جس نے مجبور اور بے کس لوگوں کو آگ کے گڑھے میں زندہ ڈال دیا ،جس کا تذکرہ قرآن نے یوں کیا’ قتل اصحاب الاخدود‘ ۔یہ انسان ہی ہے جس نے معصوم انسانوں کو فاسفورس بموں کی بارش کرکے صفائے ہستی سے مٹادیا ،یہ انسان ہی ہے جس نے ایٹم بم گرا کر انسانوں کو بھاپ میں تبدیل کیا،یہ انسان ہی ہے جس نے مظلوم انسانوں کو کونٹینر میں بند کرکے ایک دوسرے کا پسینہ پینے پر مجبور کیا،یہ انسان ہی ہے جس نے اپنے سے کمزور انسانوں کو گیس چیمبرس میں ڈال کر انہیں کھاد میں تبدیل کیا،یہ انسان ہی ہے جس نے اپنے ہی بھائیوں کی آنکھیں نکال کر انہیں اندھا کرنے کے بعد ان کا ایک ایک انگ کاٹ کر انہیں مرنے کےلئے تڑپتا ہوا چھوڑ دیا،یہ انسان ہی ہے جس اپنی ایجادات سے مظلوموں کی مکانات زمیں بوس کر کے ان کے مکینوں کو زندہ دفن کیا ۔آخر اور کون کون سی ظلم کی شکل لکھوں جو اس حضرت انسان نے روا نہیں رکھی۔
کیا یہ مذاق نہیں اخلاق اور حیا کی ساری حدیں پھلانگ کر مرد وخواتین ظلم و بربریت پر،مفلسی وتنگ دستی پر تبصرے کر رہے ہیں ۔آج ظالم ہی منصف بنا بیٹھا ہے ،غریبوں سے نفرت کرنے والا ہی غربت دور کرنے کی بات کرتا ہے ،بے حیائی کو پھیلانے والے بے حیائی کو روکنے کی بات کرتے ہیں ،پوری قوم کے نوجوانوں کو حواس باختہ کرنے والے نوجوانوں کو موٹیویشنل لیکچر سنارہے ہیں ،دہشت گرد ہی دہشت گردی کو روکنے کی بات کررہے ہیں ،سود کھانے والے سود کو روکنے کی بات کرتے ہیں ،ایٹم بم اور نہ جانے کیا کیا تباہ کن ہتھیار بنانے والے دہشت گردی کا لیبل چسپاں کرنے کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں ،گلوبل وارمنگ کے اصلی مجرم غریب ممالک کو انڈسٹریر وغیرہ قائم کرنے سے روک رہے ہیں حالانکہ خود اپنے ممالک کو صنعتوں سے بھر دیا ہے،تنہائی میں شیطان کے دوست بننے والے معاشرے میں ولی بنے بیٹھے ہیں۔