یوکرین ،روس کے پنجوں میں،نیٹو اور امریکہ بے بس!

۲۴ ؍تاریخ کو روس نے بغیر کسی کی سُنے یوکرین پر حملہ کر دیا۔ابتدائی رپورٹس کے مطابق یوکرین میں تادم تحریر ۲۰۰؍ سے زائد شہری و فوجی مارے گئے ۔ روس نے مغرب خصوصاً امریکہ کو بڑی ہی ڈھٹائی سے بتایا کہ اگر کسی نے روس کو روکنے کی کوشش کی تو ایسا جواب دیا جائے گا، جس کا انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا ۔ایک اور بیان میں روس نے نیٹو کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر نیٹو نے مداخلت کی تو ہم ایٹمی ہتھیار بھی استعمال کریں گے ۔وہیں روس اور یوکرین کے درمیان جنگ جاری ہے اور روس یوکرین کے اندر داخل ہو گیا ہے اور روسی فوج کبھی بھی یوکرین پر قبضے کا اعلان کر سکتی ہے ۔اس وقت دنیا میں گوگل اور دیگر سماجی ویب سائٹس پر سب سے زیادہ یو کرینی صدر زیلنسکی کے بارے میں معلومات تلاش کی جا رہی ہیں ۔اب اس جنگ میں یورپ اور امریکہ نے یوکرینی صدر سے یوکرین چھوڑنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے تاہم انہوں نے امریکہ کی مشورے کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا ہے کہ میں بھاگنے والوں میں سے نہیں ہوں، اگر آپ کو میری مدد کرنی ہے تو مجھے ہتھیار دیجئے ،گولہ بارود دیجیے سواری نہیں ۔یو کرینی صدر نے اس کے بعد ٹوئٹر پر اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’’بہت ساری جعلی خبریں چلائی جا رہی ہیں کہ میں نے یوکرینی فوج کو ہتھیار ڈالنے کا حکم دیا ہے ،تو سُن لیں میں یہیں ہوں اور ہم اپنے ہتھیار نہیں ڈال رہے ہیں ۔ہم اپنے ملک کی حٖفاظت کرنے جا رہے ہیں ،ہمارے ہتھیار ہی ہماری سچائی ہے ۔یہ ہمارا ملک ہے ،اس کی حفاظت ہم اور ہمارے بچے کریں گے ۔اس سے قبل اُنہوں نے دنیا کے طاقت ور ممالک پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج صبح تک ہم اپنی ریاست کا دفاع کر رہے ہیں ،گزشتہ روز کی طرح آج بھی دنیا کے سب سے طاقتور ممالک دور بیٹھے نظارہ کر رہے ہیں ۔
روس اور یوکرین کے درمیان یہ لڑائی کوئی نئی نہیں ہے ۔ اس سے پہلے بھی روس نے یوکرین پر حملہ کیا ہے اور یوکرین کے مشرقی علاقوں میں روس کی پشت پناہی سے علاحیدگی کی تحریکیں بھی چلی ہیں ۔یوکرین پہلے روس کا ہی حصہ تھا، جسے ہم سویت یونین کے نام سے جانتے ہیں پھر جب سویت یونین دسمبر ۱۹۹۱ء ٹوٹ کے بکھر گیا تو یوکرین بھی آزاد ہو گیا ۔سات سال پہلے ۲۰۱۴ء جہاں روس نے جزیرہ نمائے کریمیا پر قبضہ کرکے لاکھوں تاتار اور قازق مسلمانوں کو بے دخل کیا، وہیں موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مشرقی یوکرین کے دو صوبوں لوہنسک اور دوہنسک پر قبضہ جمالیا اور بعد میں اسے روس نواز سرب باغیوں کے حوالے کردیا گیا۔  واضح رہے سرب باغی روسی حامی ہیں، اوریہ دونوں صوبے یوکرین کے زرخیز ترین علاقوں میں شمار ہوتے ہیں۔ جلد ہی یہ دونوں صوبے، ایک معاہدے کے تحت خودمختار ممالک بنا دئے گئے جنھیں اب گذشتہ دنوں خود روس نے بھی تسلیم کیا۔کچھ عرصے بعد ان دونوں ’’ملکوں‘‘ نے خود کو (Noverussia) نیورشیا کے نام سے مسیحی فیڈریشن میں ضم کرلیا ،جس کا سرکاری مذہب  روسی مسیحیت قرار پایا۔یوکرین کہتا ہے کہ ، ’’نیورشیا ‘‘دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بنایا گیا علاقہ ہے، جسے واپس لینے کے لیے وقتاً فوقتاً فوجی کارروائی بھی ہوتی رہتی تھی اور اس بیانیے کے مطابق یوکرینی فوج مبینہ طور ان علاقوں میں حملے بھی کرتی تھی ،اور یوکرین نے بہت بار کوشش کی کہ یہاں کے اُن باغیوں کو مکمل طور کچلا جائے ۔تاہم ابھی تک یوکرین کو اس حوالے سے ناکامی ہی ملی ہے ۔
گذشتہ چند دنوں سے یہ محاذ پھر سرگرم ہو گیا ہے ۔ روس نواز باغیوں کا کہنا ہے کہ امریکہ اور نیٹو کی شہہ پر یوکرین ان کے شہری علاقوں پر گولہ باری کررہا ہے ،جس کے نتیجہ میں ہزاروں افراد پناہ لینے کے لیے مشرقی سرحد عبور کرکے روس جانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ظاہری طور پر روس اس وقت کہہ رہا ہے کہ یوکرینی فوج اُن علاقوں جو کہ روسی باغیوں کے قبضے میں ہے، پر زیادتیاں کررہا ہے اور ہم اُن کو اس ظلم سے نجات کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔تاہم اس جنگ کی اصل وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ یوکرین روسی منشا کے خلاف نیٹو کا ممبر بننے کی خواہش کرر ہا تھا جو روس کو منظور نہیں ہے ۔ لیکن تجزیہ نگاروں کاماننا ہے کہ اصل میں یہ لڑائی امریکہ کی چودھراہٹ کے خاتمہ کی ابتدا ہے اور نیٹو وغیرہ کا ممبر بننا بہانہ ہے۔ وہیں صاحب نظر افراد کاکہنا ہے کہ کشیدگی کی بنیادی وجہ تو نیٹو رکنیت کے لیے یوکرین کی خواہش ہے، لیکن تیاریوں اور پیش بندیوں سے صاف ظاہر ہے کہ امریکہ کی نظر یورپی گیس منڈی پر ہے اور روس کی یوکرینی گندم پر۔
اس جنگ میں پہلی بار امریکہ کی بے بسی کو دیکھ کے لگ رہا ہے کہ ایک طرفٖ امریکہ اور اُس کے چند ساتھی اور دوسری طرف ساری دنیا امریکہ اور نیٹوکے خلاف ہی  اکھٹی ہو گئی ہے ۔امریکہ کی بے بسی اور دیگر بڑے اور طاقت ور ممالک کی بے حسی کے سبب ہی دنیا میں لاکھوں لوگ جنگوں کی نذرہو کے پیوند خاک ہو گئے ہیں ،شہروں کے شہر اس نیٹو اور امریکہ نے برباد کر کے رکھ دیے ہیں ۔دنیا میںخون کی ہولی کھیلی جا رہی اور بڑی بڑی طاقتیں ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہیں ۔اس ساری صورتحال کے مقابلے کے لئے دنیا میں جنگ عظیم دوم کے بعد اقوم متحدہ کا ادارہ جو ۱۹۴۵ء میںجود میں آیا تھا اور مسلمانوں کی آواز اور اُن کے حق میں مدد کے لئے او آئی سی کا وجود عمل میں لایا گیا تھاتاہم ہم یہاں اقوم متحدہ اور او آئی سی کے کردا رکو جب سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہاں دنیا کو مایوسی ہی ہاتھ لگتی ہے ۔ایسا لگ رہا ہے اقوم متحدہ کی حیثیت سمندر میں ایک بہنے والے معمولی تنکے کے برابر بھی نہیں ہے،اور ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے او آئی سی محض سعودی عرب کے مفادات کی آبیاری میں مست و مگن ہے۔ ٹھیک اسی طرح سے اقوم متحدہ بھی دنیا کے بڑے بڑے ظالم اور سفاک ممالک خصوصاً امریکہ کے حق میں بغیر کسی شرم کے کھڑ اہے، جو کہ انتہائی افسوس ناک ہے ۔ہمارے ایک بزرگ نے کیا خوب کہا ہے کہ اقوام متحدہ اصل میں کفن چوروں کا ایک گروہ ہے ۔
اقوم متحدہ کا اصل کردار دنیا کے ظلم و ناانصافی اور جنگوں کا خاتمہ ہے، جتنے بھی دنیا کے مسائل ہیں ،اُن کا حل بات چیت اور گفتگو کے ذریعے نکالنا ہے ۔تاہم ہم دیکھ رہے ہیں جب سے اقوم متحدہ کا ادارہ وجود میں آیا ہے، دنیا میں درجنوں جنگیں ہوئی ہیں اور میں پہلے بھی بتا چُکا ہوں کہ چند ممالک کو تو امن کے نام پر کھنڈرات میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ دنیا میں آج کی تاریخ تک اصل کردار نیٹو کا ہے، یہی نیٹوجب اور جس کسی پر جنگ تھوپنا چاہیں تو تھونپ دیتے تھے ،جو احکام دنیا پر نافذ کرنا چاہتے تھے وہ کر دیتے تھے بلکہ دنیا کو آج بھی ان کے حکم کے مطابق ہی چلنا پڑ رہا ہے ۔ اگر اقوم متحدہ نے اپنا اصل کردار دنیا کے امن و انصاف اور دنیا کے مظلوم خطوں کو ظلم سے نجات دلانے کے لئے ادا کیا ہوتا تو ہمیں دنیا میں یہ خون ریز جنگیں دیکھنے کو نہیں ملتیں اور لاکھوں لوگوں کو ہم اس طرح مرتے نہیں دیکھتے ۔
اب جو یہ جنگ روس اور یوکرین کے درمیان جاری ہے، یہ اصل میں نیٹو اور اس مغرب کی چودھراہٹ کے خاتمے کے لئے ہے۔ افغانسان سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد یہ چند ممالک جن میں روس اور چین سر فہرست ہیں، دنیا میں امریکی ورلڈ آڈر کو بدلنا چاہتے ہیں ۔اس سارے منظر نامے کے بیچ روس کی نظر میں یوکرین کی اہمیت بہت زیادہ ہو گئی ہے ۔یوکرین روس سے جب جنم لینے کے بعد روس کے خلاف یا روس کے دشمنوں کے ساتھ اس طرح سے اپنے روابط بڑھانے اور روسی طاقت کو للکارنے کی کوشش کرے گا تو روس اس کو کبھی برداشت نہیں کر سکتا ۔ دوسری طرف یوکرین انتہائی ذرخیز ملک ہے اور امریکہ، نیٹو کے ساتھ مل کے روس کی نکیل یوکرین کے ذریعے کَس کے رکھنا چاہ رہا تھا ،جس میں وہ ناکامی کی راہ پر جا رہا ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ آج تک امریکہ نے مسلمانوں کو کیمونسٹ روس کے خلاف استعمال کیا ہے ،اور جب امریکہ کی بالا دستی قائم ہوئی تو مسلمانوں کو ہی تخت ِ مشق بنایا گیا ۔تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کہیں مسلمان پھر سے امریکہ کے ہاتھوں استعمال نہ ہو جائیں اور وہی غلطی پھر دہرائیں جو مسلمانوں نے ماضی میں کی ہیں ۔ اب اس جنگ سے دنیا میں بھی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں، اگر یہ جنگ طوالت پکڑ گئی یا دیگر ممالک کو بھی اس میں ملوث ہونا پڑا، تو دنیا میں توانائی کا بحران پیدا ہو سکتا ہے ۔
برصغیر کے ایک مشہور کالم نویس مسعود ابدالی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’یوکرین یورپ میں غذائی اجناس اور خوردنی تیل (Vegetable Oil) کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے، جیسے کہ ایک زمانے میں پنجاب کو برصغیر کا بریڈ باسکٹ کہا جاتا تھا۔گزشتہ برس یوکرین نے ایک کروڑ 80لاکھ ٹن گندم برآمد کی۔یورپی یونین کے علاوہ لبنان، شام، یمن اور مصر یوکرینی گندم کے بڑے خریدار ہیں۔ چین اور یورپی ممالک بھی یوکرینی گندم خریدتے ہیں۔ قیمت کم ہونے کی وجہ سے لبنان کی ضرورت کی پچاس فیصد گندم یوکرین سے آتی ہے۔ لیبیا اپنی ضرورت کا 43 فیصد اور یمن 22 فیصد یوکرین سے حاصل کرتے ہیں۔ ملائشیا، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش میں استعمال ہونے والی گندم کا 28فیصد یوکرین سے آتا ہے۔ مصر نے گزشتہ برس 30 لاکھ ٹن گندم یوکرین سے خریدی۔ دوسرے ملکوں کی تو خیر ہے لیکن اگر جنگ کے نتیجے میں یوکرینی گندم کی رسد متاثر ہوئی تو لبنان، شام اور یمن جیسے تباہ حال ملکوں کے لیے مہنگا غلہ خریدنا بہت مشکل ہوگا۔وہیں دوسری طرف گندم اور دوسرے ضروری دالوںکے کھیت روس سے ملحقہ مشرقی یوکرین میں ہیںاور مشرقی یوکرین کے دو زرخیز صوبوں پر پہلے ہی روس نواز باغیوں کا قبضہ ہے۔ اس لڑائی سے جہاں دنیا بھر میں توانائی کا بحران پیدا ہوگا، وہیں غذائی قلت کے مارے شامی، یمنی اور لبنانی نانِ شبینہ سے محروم ہوجائیں گے‘‘۔
اس سارے منظر نامے کے بیچ ہم اس نتیجے پر پہنچیں ہیں کہ مغرب ،نیٹو اور امریکہ کی دھمکیوں اور روس پر پابندیوں کے باوصف روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا ہے جو مغرب کے لئے نیک شگون نہیں ہے ۔وہیں چین بھی کھلے عام روس کی حمایت میں کھڑا ہے۔ اب ایسا لگ رہا ہے کہ دنیا میں طاقت اب امریکہ اور نیٹو سے شفٹ ہو کر روس اور چین کی طرف آ رہی ہے ۔ یعنی دنیا کی طاقت اب بڑی تیزی سے بدلنے جا رہی ہے اور اقوم متحدہ کی وقعت اور حیثیت دنیا میں کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔ اس سے دنیا خصوصاً  یورپ اور امریکہ کے حالات کا بدل جانا لازم ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ روس کس طرح سے امریکہ اور یورپ کی دشمنی مول لے کے اپنے لئے کامیابی کی راہیں تلاشنے کے ساتھ دنیا کا موجودہ منظر نامہ تبدیل کرتا ہے ۔
(رابطہ  9906664012)