سبزار احمد بٹ
استاد کو روحانی باپ کا درجہ حاصل ہے۔ ایک استاد ہی ہے جو ایک انسان کو تاریکی کی دنیا سے نکال کر روشنی اور جان پہچان کی دنیا میں لاتا ہے بلکہ ایک استاد کو انسان ساز کہا گیا ہے کیونکہ یہ ایک استاد کی ہی تربیت کا نتیجہ ہوتا ہے کہ انسان سچ مچ انسان بنتا ہے اور ایک انسان اعلیٰ اقدار کا مالک بن جاتا ہے۔ استاد کے ہاتھوں میں قوم کا مستقبل ہوتا ہے ایک استاد سخت محنت کے بعد کچے ذہنوں کی تراش خراش کر کے ان نونہالوں کا مستقبل سنوارتا ہے، اس کے لیے ایک استاد کو جتنی عزت دی جائے کم ہے۔ استاد اور شاگردکا رشتہ ایک مقدس رشتہ تھا، ہے اور رہے گا۔ ہاں مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس رشتے میں ایک طرح کا خلیج سا پیدا ہوگیا۔ ایک زمانہ تھا جب شاگرد استاد کے سامنے آنکھ بھی نہیں اٹھاتا تھا زبان چلانا تو دور کی بات تھی لیکن بدقسمتی سے یہ رشتہ اب کمزور بلکہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ اس کیلئے بہت سے عوامل ذمہ دار ہیں۔ ایک طرف اساتذہ بھی تعلیم کو کاروباری شکل دینے پر تلے ہوئے ہیں اور دوسری طرف طلاب بھی اس غلط فہمی کے شکارہیں کہ وہ فیس دیتے ہیں استاد کا احترام کیوں کریں لیکن یہ بات نہیں سمجھتے ہیں کہ استاد کا حق ہم ہرگز ادا نہیں کر سکتے ہیں۔ استاد جو ہماری تربیت کرتے ہیں تو اس کے عوض ہم انہیں کیا دے سکتے ہیں سوائے احترام کے۔ استاد یہ سمجھتا ہے کہ وہ دس سے چار سکول جاتا ہے تو اس نے اپنا حق ادا کیا ہے۔ جبکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ ایک استاد کو اپنے طلاب کی اتنی ہی فکر ہونی چاہئے جتنے اپنے بچوں کی ہوتی۔ ایک استاد کو اپنے طلاب سے محبت ہونی چاہئے تب ہی وہ بہتر تعلیم دے سکتا ہے۔ محبت نہ ہو تو تعلیم کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ایک استاد کو اپنے طلاب کو مروّجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تعلیم ،تہذیبی اور ثقافتی تعلیم بھی دینی ہے تاکہ بچے اپنے والدین کے ساتھ ساتھ اپنے اساتذہ کا بھی احترام کریں اور ملک کے بہترین کی ترقی میں اپنا حصہ ادا کر کے ملک کے شہری بن جائیں۔ بد قسمتی سے ان باتوں کا آج فقدان نظر آ رہا ہے۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دونوں طرف سے تبدیلی کی ضرورت ہے کیونکہ دونوں طرف سے خلیج بڑھتا جا رہا ہے بقولِ شاعر
کچھ وہ کھینچے کھینچے رہے کچھ ہم تنے تنے
اسی کشمکش میں ٹوٹ گیا رشتہ چاہِ کا
محبت اور چاہت کے اس رشتے کو پھر سے استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں اساتذہ کو بھی پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہونگے کیوں کہ اس میدان میں چھوٹی سی غلطی کے بھی بیانک نتائج نکل سکتے ہیں۔ خدانخواستہ اگر ایک استاد سے غلطی ہوجائے تو اس کا خمیازہ پوری قوم بلکہ آنے والی نسلوں تک کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ معاشرے کو بھی استاد کے تئیں اپنے رویے میں تبدیلی لانا ہوگی۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ کچھ اساتذہ اپنے منصب سے انصاف نہیں کرتے ہیں یا نہیں کر سکتے ہیں لیکن اکثر اساتذہ بڑی لگن اور محنت سے اپنا کام کرتے ہیں۔ اس لیے معاشرے کو ان کی عزت کا خیال رکھنا چاہئے۔آج ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہے جو ایک خوش آئند بات ہے لیکن لیکن کبھی کبھی اس ٹیکنالوجی کو اساتذہ کے خلاف استعمال کر کے اساتذہ کی معمولی معمولی باتوں کو سوشل میڈیاپر اچھالا جاتا ہے اور بنا تحقیق کے خبریں چلائی جا رہی ہیں ۔
کبھی استاد کسی بچے کو پانی کی بالٹی یہاں تک کہ پانی کا گلاس لانے کے لئے بھی کہے تو اگلے دن اس استاد کو اخبار کی سرخی بنایا جاتا ہے اور نہ جانے کیا کیا لکھا جاتا ہے۔کبھی کوئی استاد کسی بچے کو ڈانٹے کہ ڈھنگ کے کپڑے پہنا کرو،اپنے بال ٹھیک کرو تو اگلے دن اسی بات پر ہنگامہ کھڑا کر کے استاد کا سرِ بازار تماشہ بنایا جاتا ہے۔ کچھ بچوں نے اپنی حالت اس قدر خراب کی ہوتی ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ سکول نہیں کسی سنیما ہال کی طرف جارہے ہیں۔ کیا ایسے بچوں کو سدھارنے کا حق استاد کو نہیں ہے؟ آخر تربیت کس چیز کا نام ہے پھر؟ سوشل میڈیا سے منسلک بھائیوں کو اساتذہ کے حوالے سے کوئی بھی خبر موصول ہوتی ہے تو وہ اسے سوشل میڈیا پر بنا کسی تحقیق کے چلاتے ہے اور یہ سوچتے ہی نہیں ہیں کہ کہانی کا دوسرا پہلو بھی ہوسکتا ہے۔ان کا یہ رویہ دیکھ کر انسان کے ذہن میں چند سوالات آجاتے ہیں کہ کیا ہمارے صحافی حضرات اب غصے اور جذباتی کردار اپنا کر اپنا کاروبار چلانے لگے ہیں ؟ کیا صحافی بھائیوں نے حقائق کی چھان پھٹک کرنا چھوڑ دیا ہے؟ یا انہیں حقائق معلوم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی ہے؟ ۔ سوال یہ ہے کہ کیا استاد بچوں کو ان کی بہتری کیلئے ڈانٹ بھی نہیں سکتا۔ کسی دن اگر سکول کا خاکروب بیمار پڑ جائے تو کیا استاد اور بچے مل کر سکول کی صفائی نہیں کر سکتے ہیں؟ کسی بچے نے اگر سکول میں پانی کی بالٹی اٹھائی تو کون سی قیامت آ گئی۔ اس بات کا ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالنے کی کیا ضرورت ہے اور والدین کیا اس بات کو اپنی کامیابی سے گردانتے ہیں کہ ہمارے بچے کو سکول میں کوئی کام نہیں بولا جائے گا۔ استاد کو کوئی حق نہیں ہے کہ وہ ہمارے بچے کو ڈانٹے۔ استاد کو صرف پڑھانا ہے۔ نہیں ہرگز نہیں کوئی بھی پتھر بنا تراشے مورت نہیں بن سکتا اور تراشنے کیلئے پتھر کو تھوڑی سی سختی ضرور برداشت کرنا پڑے گی۔ استاد کا کام فقط پڑھانا نہیں ہے بلکہ بچوں کی اخلاقی تربیت کرنا اور بچوں سے محبت و شفقت سے پیش آنا بھی استاد کے ذمہ ہیں۔ بقول ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام ؎
“اوسط اساتذہ بچوں کی تربیت کرتے ہیں۔ اچھے اساتذہ انہیں سمجھاتے اور لائق بناتے ہیں جبکہ عظیم اساتذہ انہیں تحریک دیتے ہیں “۔میں اساتذہ کے کسی بھی غلط قدم کے حق میں نہیں ہوںبلکہ میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ اساتذہ ایک نازک اور مقدس پیشے سے وابستہ ہیں لہٰذا انہیں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہئے کیونکہ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک استاد کی غلطی کی وجہ سے پوری اساتذہ برادری کو شرمندہ ہونا پڑتاہے ۔ استاد ہونے کے ناطے ایک شخص کو اس بات کا بخوبی علم ہونا چاہئے کہ وہ سکول میں کیا کر سکتا ہے اور کیا نہیں کر سکتا ہے۔ایک استاد کو اپنے حدود کا علم ہونا چاہئے۔ اساتذہ کو بچوں سے محبت اور ہمدردی سے پیش آنا چاہئے ان کی چھوٹی موٹی غلطیوں کو نظر انداز کر کے انہیں بہترین تربیت دینی چاہیے اور اساتذہ اور شاگرد کے مقدس رشتے کو پھر سے زندہ کرنا چاہئے،جبھی بہترین تعلیمی صورتحال کی توقع کی جا سکتی ہے۔