یقین

خندہ جبیں، خوش پوش، لبوں پہ ہمیشہ سنجیدہ سی مسکراہٹ لئے، مہربان اور شفقت بھرے لہجے کی حامل، یتیموں اور مفلسوں کی خفیہ طور مدد کرنے والے، چھوٹے بڑے اور پیچیدہ مسائل سلجھانے میں ماہر، زیرک اور آسودہ حال شفقت حسین اپنے خاندان اور پورے گاؤں کے لئے ایک سایہ دار چنار کی مانند ہیں، جس کے سائے میں آکر اپنے پرائے سبھی راحت اور سکون محسوس کرتے ہیں۔
صابر و شاکر جان صاحب کا شمار بھی گاؤں کے بڑے زمینداروں میں ہوتا ہے۔ انہیں رب العزت نے شرافت اور عزت کے علاؤہ پانچ پانچ بیٹیوں سے نوازا ہے۔ ان کی بیٹیاں سگڑھ اور امور خانہ داری میں ماہر ہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت اور حیا دار طبیعت نے جان صاحب کی شان میں چار چاند لگائے ہیں۔ وہ بیٹیوں کو بوجھ سمجھنے والے انسان نہیں ہیں بلکہ انہیں اپنی بیٹیاں گلے میں پھولوں کی مالا کی طرح لگتی ہیں۔ ان کا دل چاہتاتھا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو اپنی نظروںسے دور نہ کریں۔ مگر دنیا کے دستور کے سامنے ہر انسان بے بس ہو جاتا ہے۔جان صاحب کی بڑی بیٹی زرق جہاں تعلیم سے فارغ ہوئی تواس نے اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لئے ایک پرائیویٹ اسکول میں جاب ڈھونڈ لی۔ اس کے لئے ڈھیر سارے رشتے آنے لگے۔ لیکن سرکاری نوکری نہ ہونے کی وجہ سے کوئی رشتہ طے نہ ہوسکا۔شفقت حسین کے دوست نے بھی جاں صاحب کے سامنے کئی سال قبل امن کا ذکر کیا تھا، تب زرق جہاں زیر تعلیم تھی۔ امن کے والد ،جو کہ شہر میں مقیم ایک اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں،شفقت حسین کے قریبی دوست تھے ۔ برسر روزگار امن ظاہری طور پر اچھا لڑکا تھا لیکن انسان کے باطن سے تو اللہ ہی واقف ہوتا ہے۔
جان صاحب کے دل میں شفقت حسین کی بے پناہ عزت تھی۔ ان پر کافی یقین اور بھروسہ تھا اور انہیں اس بات کا بھی یقین تھا کہ شفقت کبھی کسی کا برا نہیں چاہتے بلکہ ان کے دل میں ہر ایک کے لیے ہمدردی اور خلوص ہے اور یہ بھی جانتے تھے کہ گھر میں زرق جہاں کے علاوہ چار اور بیٹیاں لائن میں کھڑی ہیں۔ ہر طرح سے مطمئن ہو کر زرق جہاں کا رشتہ امن کے ساتھ طے ہوا۔
ہلکے آسمانی رنگ کے خان ڈریس کے اوپرکالا کوٹ زیب تن کئے سر پر باریک کڑھائی والی میچنگ ٹوپی پہنے ہاتھ میں عصا لیے ہوئے شفقت حسین شادی سے ایک ہفتہ قبل ہی جان صاحب کے گھر پر بہ نفس نفیس موجود رہے۔ سارے کام ان کی نگرانی میں نظم و ضبط کے ساتھ ہوتے رہے۔ 
شادی کی تقریب شروع ہوئی تو اپنے پرائے سبھی اس تقریب میں شریک ہوئے۔ کئی دن پہلے زرق جہاں کو مایوں بٹھایا گیا۔ پھر مہندی کی رسم بھی خیر سے ادا کی گئی۔ اس کے بعد ضیافتوں کا پروگرام، نکاح خوانی اور برات کے استقبال کی تیاریاں اور پھر رخصتی۔
شہر سے آئی ہوئی بیوٹیشن اور زرق جہان کی سہلیاںبڑی نزاکت سےاس کو سجا رہی ہیں۔عورتیں زرق برق اور مختلف رنگوں کی پوشاک زیب تن کیئے ہوئے شادی کے روایتی گیت گا گا کر تقریب کی رونق دوبالا کر رہی ہیں۔ اس تقریب میں شامل ہر انسان کا موڈ خوشگوار ہے اور موسم بڑا سہانا۔ گھر آنگن رنگ برنگی روشنیوں سے جگمگا رہا ہے۔ضیافتوں سے اٹھتی ہوئی خوشبو اور خوشیوں کا منظر، جیسے شادی نہیں خوشیوں اور خوشبوؤں کا کوئی میلہ ہو۔ ہر طرف رنگ ہی رنگ اور ہنستے مسکراتے چہرے۔ برات آنے کا وقت قریب آتے ہی نکاح پڑھنے کے لیے قاضی صاحب بھی آ گئے۔ اسی دوران امن  کے گھر والوں کی طرف سے فون آیاکہ امن آستین کا سانپ نکلا۔ اس نے شادی کرنے سے انکار کردیا ہے۔ انکار کی وجہ بھی نہ بتائی گئی۔ ایک ہی لمحے میں سارا منظر بدل دیا، جیسے خاموش قیامت برپا ہوئی ہو۔ جان صاحب اور اس کی بیگم بی بی ثریّا کے ہوش اڑ گئے۔ یہ ایک ایسا خاموش دھماکا تھا کہ جس سے ہر انسان کا دل چھلنی ہوا اور آنکھیں نم ناک۔زرق جہاں، اس کی سہیلیوں اور بہنوں کی رنگت پیلی پڑگئی۔ بات کرنے کی سکت نہ رہی۔ جیسے ان کے بدن سے جان نکالی گئی ہو۔ حالات ایسا رخ اختیار کرینگے، کبھی کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔
جانے کیا لکھا تھا زرق جہاں کے ہاتھوں کی لکیروں میں ورنہ آج تک شفقت حسین کی نگرانی میں بے شمار رشتے طےہوکر، پایہ تکمیل کو پہنچے۔ ان کی زندگی میں ایسا موقع پہلی بار پیش آیا جب ان کا یقین دھوکہ کھا گیا، وہ بھی کسی اپنے سے۔ جب انسان کا یقین دھوکہ کھاتا ہے تو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ شفقت حسین کی سانسیں بے ترتیب چلنے لگیں۔ان کے پاؤں تلے زمین کھسک گئی۔آب آب ہوگئے۔ جہاں کھڑے تھے وہی زمین پر بیٹھ گئے۔ آج زندگی میں پہلی بار آبرو پر حرف آیاتھا۔ کافی دیر سوچتے رہے، دل ہی دل میں کوئی فیصلہ لیا اور کھڑے ہوگئے۔ شرمندگی کا احساس اتنا شدید تھا کہ کسی سے نظریں ملانا بھی مشکل ہو رہا تھا اور اپنے لفظوں کو بیان کرنا۔۔۔! پھر بھی نظریں نیچے کر کے اور اپنے خشک گلے کو تر کرتے ہوئے جان صاحب اور بی بی ثریا کو یقین دلاتے ہوئے کہا کہ میں شام ہونے سے پہلے کچھ نہ کچھ ضرور کروں گا، یہ میرا وعدہ ہے۔ اللہ پر یقین رکھنا اس کی رحمت سے نا امید نہ ہونا۔ زرق جہاں میری بیٹی ہے۔ میں اسے دکھی نہیں دیکھ سکتا ہوں۔ میں اس کو اس کی خوشیاں دلاکر رہوں گا۔ اس کے بعد شفقت حسین نے اپنے ڈرائیور سے گاڑی نکالنے کے لیے کہا۔ وہ شہر کی طرف روانہ ہوئے، جہاں ان کا اپنا بیٹا اظہار حسین شہر کی یونیورسٹی میں پڑھائی کر رہا تھا۔ دنیا میں اکثر دیکھا گیا کہ عظیم اور نیک لوگ اپنی عزت یا دوسرے کی عزت کو برقرار رکھنے کے لئے اپنی قیمتی سے قیمتی چیز داؤ پر لگانے سے نہیں ہچکچاتے۔ لیکن اولاد تو انمول دولت ہوتی ہے۔ یہ شفقت حسین کے مزاج کا ٹھہراؤتھا، یقین تھا اپنی تربیت پر اور یقین تھا اپنے خون پر کہ اس نے شہر پہنچنے سے پہلے اپنے بیٹے کو فون کیا۔ اسے بتایا کہ ضروری بات کرنی ہے۔ بات کرنے کے لئے یونیورسٹی سے باہر پارک میں بلایا۔ پارک میں دونوں باپ بیٹے ملے۔ شفقت حسین نے تمام صورتحال سے اپنے بیٹے کو آگاہ کیا۔اظہار حسین نے اپنے ابا کی ہر بات سر جھکا کر سن لی۔ سر اُٹھا تو اقرار کے ساتھ۔ زبان سے بھی اقرار کرتے ہوئے کہا کہ ابّا! آپ اپنے پرائے کے لیے کتنے رفیق وشفیق اور ہمدرد ہیں۔ آپ نے ہمیشہ اپنی کم اور دوسروں کی زیادہ پرواہ کی ہے۔ یہی انسانیت کا تقاضا ہے۔ یہ بہت بڑی  بات ہے۔ یہ فیصلہ وقت کی ضرورت ہے اور حالات کے مطابق بھی ہے۔ ویسے میری نظر میں رشتہ ٹوٹنا کوئی عیب نہیں۔ چاہے شادی سے پہلے ٹوٹے یا شادی کے وقت۔ دکھ کی بات تو ضرور ہے لیکن رشتہ ٹوٹنے سے نہ عزت کم ہونی چاہئے اور نہ قیمت۔ ابا، مجھے اپنے آپ پر فخر ہے کہ آپ نے مجھ پر بھروسہ کر کے یہ فیصلہ کیا۔ ایسے فیصلے عظیم اور یقین والے لوگ ہی تو کر سکتے ہیں۔ اگر یہ فیصلہ صحیح سمت جائے  گا تو ہر ایک کی آبرو بھی برقرار رہے گے اور کتنے دل ٹوٹنے سے بچ جائیںگے۔
میں آپ کی بات سمجھ ہی نہ پایا بیٹا، کیا میرا یہ فیصلہ صحیح سمت نہیں جائے گا؟ شفقت حسین نے اپنے بیٹے سے وضاحت چاہی۔
 ابا، میرا مطلب ہے کہ آپ کے فیصلے سے جان صاحب اور زرق کا متفق ہونا ضروری ہے۔ کہیں زرق کے ساتھ نا انصافی نہ ہو جائے۔ معاملہ چار دن کا نہیں عمر بھر کا ہے۔ اگر زرق راضی  ہے تو مجھے کوئی بھی اعتراض نہیں۔ اظہار حسین کی ہر بات واضح تھی۔
 ہاں بیٹا!یہ پیچیدہ مسئلہ بن گیا۔ گھر پہنچ کر اس مسئلے کو حل کریں گے۔ اظہار حسین نے کوئی سوال نہیں اٹھایا۔ جیسا باپ ویسا بیٹا۔ بالکل اپنے باپ کا پرتو۔ اس کے ساتھ ہی وہ دونوں باپ بیٹا گاؤں کی طرف روانہ ہوئے۔
دنیا کی ریت رہی ہے کہ جب کسی کا رشتہ ٹوٹتا ہے تو لوگ کاتب تقدیر کو بھول کر اس ٹوہ میں لگ جاتے ہیں کہ رشتہ کب ٹوٹا؟ کیوں ٹوٹا؟ اور کس طرح ٹوٹا؟ ہرطرف تیراورنشتر۔لوگ اپنی اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کو بھول کر اس کی عیب جوئی شروع کرتے ہیں جس کا رشتہ ٹوٹا ہو۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ لیکن اس کے برعکس دنیا میں اچھے اور توکل پرست لوگوں کی کمی نہیں۔ ان اچھے لوگوں کے پاس یقین کی دولت ہوتی ہے۔ اپنے یقین کی وجہ سے کسی دوسرے انسان کی دنیا بدل دیتے ہیں۔ یہ بہت بڑی بات ہوتی ہے۔
حسب وعدہ ہلکی آہٹ کے ساتھ شام ہونے سے پہلے   پہلے شفقت حسین اپنے بیٹے کے ساتھ ہر بات طے کرکے جان صاحب کی دہلیز پر پہنچ گئے۔ یہ ان کا دل جانتا تھا کہ وہ کس صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ ان کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو رہی تھیں۔ہمت جٹا کر اس نےالتجایہ انداز اور  ندامت بھرےلہجے میں اپنی رائے جان صاحب اور بی بی ثریا کو کے سامنے پیش کی۔
اظہار حسین آیا زرق جہاں کو اپنا بنانے کے لئے ، اس کا شریک سفر بننے کے لئے، لیکن فیصلہ کرنے کا اختیار جان صاحب اور زرق جہاں کو دے کر انہیں عزت بخش دی۔ انہیں ہمت دی اور حوصلہ دیا، خلوص کے ساتھ ۔ جان صاحب کا بکھرا اعتماد بحال ہوگیا۔ چونکہ وہ شریف اور خاندانی انسان تھے اسی لئے انہوں نے شفقت حسین کی رائے کا احترام کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا فیصلہ بالکل صحیح ہے۔ اچھا ہے مناسب تدبیر ہے لیکن صورتحال پہلے جیسی نہ رہی۔ ہم اپنی بیٹی سے پوچھ کر ہی کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں۔
شادی کی تاریخ طے ہوتےہی ایک لڑکی کتنی لجّا اور شرم و حیا کے ساتھ کتنے مہینے ہفتے دن اور لمحے انتظار کرتی ہے اس حسین اور قیمتی گھڑی کے لئے۔ تصور میں کسی انسان کے ساتھ اپنی حسین دنیا بسا تی ہے اور پھر اگر وہی انسان اس گھڑی بدل جائے تو اس لڑکی کے لیے اس سے بڑا صدمہ کیا ہوسکتا ہے۔ دلہن بنی بیٹھی زرق جہاں کے لیے یہ کس قدر دردناک اور اذیت انگیز تھا، یہ وہی جانتی تھی۔ یہ گھڑی اس کی زندگی بدل تو گئی لیکن اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے اُس سے بھی کوئی واقف نہ تھا۔ گھر میں تمام عزیزواقارب موجود تھے۔ اس کے باوجود پورے گھر میں خوفناک سناٹا اور خاموشی تھی۔ وقت جیسے رک گیاتھا۔ ایک ایک پل ایک ایک صدی کی طرح بیت رہا تھا۔ 
جان صاحب اور بی بی ثریانے اپنے عزیزوں سے صلاح مشورہ کیا۔ اس کے بعد بی بی ثریا اپنی لاڈلی بیٹی زرق جہاں کے پاس آئی۔ زرق جہاں اپنے کمرے میں تنہا بیٹھی تھی۔ لاڈلی بیٹی کے دکھ کی وجہ سے ان کادل بھاری ہو رہا تھا۔ زبان بھی ساتھ نہ دے رہی تھی۔ اپنی تمام تر ہمت جمع کرکے بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا،ہم بہت شرمندہ ہیں۔ ہماری وجہ سے آپ کو تکلیف پہنچی، آپ کا دل ٹوٹ گیا۔
نہیں ماں، اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں ہے، نہ ہی کسی اور کا۔ یہ تو میرے مقدر کا لکھا تھا۔ یہ سارا مقدر کا کھیل ہوتا ہے۔زرق جہاں نے جواب دیا۔ بیٹی کی باتیں سن کر ان کے اندر ہمت آئی تو انہوں نے شفقت حسین کے لائے ہوئے رشتے یعنی اظہار حسین کا ذکر کیا۔ اسے یقین دلایا کہ جو وہ چاہی گی وہی ہوگا۔ اپنے معصوم چہرے پر بہتے ہوئے آنسو صاف کرتے ہوئے زرق جہاں کہنے لگی۔ ماں، میرا دل چاہتا ہے کہ اب میں یہ گھر چھوڑ کر کہیں نہ جاؤں۔ لیکن میں نہ تو خود غرض ہوں نہ ہی ضدّی۔ میں اپنے والدین اور اپنی بہنوں کی خاطر اپنی جان تک قربان کرنے کو تیار ہوں۔امن ہو یا اظہار حسین یا کوئی اور، میرے لیے کوئی خاص نہیں۔ میرے لئے صرف آپ کی عزت اور آپ کا فیصلہ اہم ہے۔ دراصل والدین کی رضامندی میں ہی بیٹی کی رضامندی   ہوتی ہے۔ جو بھی آپ کا فیصلہ ہوگا مجھے دل سے منظور ہو گا۔ آپ جس سمت اور جس وقت اشارہ کریں گے میں اس سمت میں چل پڑوں گی۔ آپ مجھ کو ہر حال میں فرمانبردار بیٹی پائینگے۔
ماں، کبھی کبھی انسان بہت مجبور ہوتا ہے۔ امن کی تھی کوئی بڑی مجبوری رہی ہو گی اور کسی کو اپنی مجبوری نہ بتاسکا ہوگا۔ اسی لئے نوبت یہاں تک پہنچی سب کو دکھ پہنچا۔لیکن اللہ تعالی کے ہر فیصلے میںکوئی نہ کوئی مصلحت ضرور ہوتی ہے۔ بس اس پر یقین اور کامل ایمان ہونا چاہیے۔ شفقت چاچا بھی قابل احترام ہیں۔مجھے کسی سے کوئی گلہ نہیں۔زرق جہاں نہ مایوس تھی نہ خفا۔ اس کے لہجے میں ہلکا سا درد تھا۔ ایک ہی پل میں سب کو بری کردیا۔ بیٹی کی مثبت سوچ سے واقف ہو کر جان صاحب کے ذہن کے دریچے کھل گئے۔ان کے اندر ہمت آئی۔ان کی آنکھیں بھر آئیں اور سوچنے لگے کہ جن بچوں کو ہم معصوم سمجھتے ہیں کبھی کبھی وہ ہم کو بہت کچھ سیکھنے کو دیتے ہیں۔ ہمیں جینا سکھا دیتے ہیں اور یہ بھی سوچنے لگے کہ عورت ذات کمزور نہیں ہوتی بلکہ مرد سے بھی زیادہ بہادر ہوتی ہے۔ ہر طرح کے حالات کے لیے مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوتی ہے۔ ہر سوال کا جواب جانتی ہے۔ اگر عورت ذات کا کوئی دوسرا نام ہوتا تو شاید صبر و تحمل ہوتا ہے یا ایثار ہوتا یا پھر یقین۔اپنی بیٹی کی ایک ایک بات ان کے زخموں کا مرہم بن گئی۔ رات آہستہ آہستہ ڈھلنےلگی۔ ایک تیز طوفان آیا تھا لیکن ایک مہکتے ہوئے جھونکے کی طرح گزر گیا۔ فجر کے نور کے ساتھ ساتھ زرق جہاں   اظہار حسین کے قدم سے قدم ملا کر بابل کی دہلیز کو پار کر گئی، جیسے شمس و قمر کی جوڑی۔ یقینًا ایسے جوڑے تو عرش پر ہی بنتے ہوں گے۔ ہر طرف پھول ہی پھول کھلے جو ہمیشہ کھلتے رہے۔
 
���
رابطہ؛پہلگام، اننت ناگ
موبائل نمبرات؛ 9419038028، 8713892806