عظمیٰ نیوز سروس
سرینگر// بڈگام سے تعلق رکھنے والے ایک باصلاحیت نوجوان عروج احمد نے حال ہی میں گوا میں منعقدہ 37ویں قومی کھیلوں میں چاندی کا تمغہ حاصل کیا ہے۔یہ کامیابی نہ صرف عروج کے ذاتی عزم اور محنت کا ثبوت ہے بلکہ اس کے کوچ میر سلمیٰ کی طرف سے فراہم کردہ انمول رہنمائی کا بھی ثبوت ہے۔ان کی کوچ سلمیٰ کی غیر متزلزل حمایت اور ماہرانہ تربیت نے قومی اسٹیج پر عروج کی کامیابی کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ ایتھلیٹ کوچ جوڑی کی شراکت اس گہرے اثرات کی روشن مثال ہے جو اعتماد اور ٹیم ورک کھیلوں کی دنیا میں مرتب کر سکتے ہیں۔عروج کا کہنا ہے ’’میں سینئر نیشنل کیٹیگری کے تحت سکائی مارشل آرٹس میں چاندی کا تمغہ جیتنے کی اپنی کامیابی پر بہت خوش ہوں‘‘۔انہوں نے کہا کہ’ میں گزشتہ سات سالوں سے یہ کھیل کھیل رہا ہوں اور اپنی کامیابی سے بہت خوش ہوں‘۔انہوں نے مزید کہا’’میں اپنے ضلع میں واحد شخص ہوں جس نے اس کھیل میں چاندی کا تمغہ جیتا ہے اور میں اپنے کوچ، اپنے خاندان اور ہر اس شخص کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے اس کارنامے کو حاصل کرنے کیلئے میرا ساتھ دیا‘۔اسی طرح سکائی کی تاریخ کا سراغ کشمیر کی تاریخ کے ابتدائی دنوں سے لگایا جا سکتا ہے، جب انسان نے انفرادی یا اجتماعی طور پر خود کو جنگلی جانوروں سے بچانا سیکھا۔ 4012 قبل مسیح سے پہلے سکائی مارشل آرٹ کو کشمیری اپنی حفاظت کیلئے استعمال کرتے تھے ۔ادھر ایس پی کالج میں زیر تعلیم تیسرے سمسٹر کی ایک ہونہار طالبہ دیشا پنڈت نے ایک اہم کارنامہ انجام دیتے ہوئے سکائی زمرہ میں گولڈ میڈل حاصل کیا ہے۔ ایس پی کالج کے پرنسپل پروفیسر (ڈاکٹر) غلام جیلانی قریشی نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے طالبہ کو اس کی شاندار کامیابی پر مبارکباد دی۔انہوں نے کہا کہ ’ہمارا ادارہ ایک پرورش کا ماحول فراہم کرنے میں بے حد فخر محسوس کرتا ہے جو طلباء کو نہ صرف تعلیمی بلکہ مختلف غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں مدد اور حوصلہ افزائی کرتا ہے‘‘۔
اوڑی میں زیر تعمیر انڈور اسٹیڈیم منتقل کرنے کا مطالبہ | قصبہ سے کافی دور، ایک کروڑ روپے ضائع ہونے کا خدشہ
فیاض بخاری
بارہمولہ //سرحدی قصبہ اوڑی میں زیر تعمیر انڈور اسٹیڈیم کو مکینوں نے فوری طور پر منتقل کرنے کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ اُسے قصبہ سے کافی دور تعمیر کیا جارہا ہے۔ یہ اسٹیڈیم اوڑی کے رامگائی گاؤں میں بنایا جا رہا ہے، جو سرحدی قصبہ اوڑی سے تقریباً 10 کلومیٹر دوری پر واقع ہے۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے اس اسٹیڈیم کو محکمہ تعمیرات عامہ کی طرف سے ایک کروڑ روپے کی تخمینہ لاگت سے بنایا جا رہا ہے اور چالیس فیصد سے زیادہ کام پہلے ہی مکمل ہو چکا ہے۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں حیرت ہوئی کہ سٹیڈیم قصبہ اوڑی سے بہت دور بنایا جا رہا ہے جبکہ انڈور اسٹیڈیم کیلئے منتخب کردہ جگہ کو دیکھ کر مایوس ہوا جو ایک دور دراز گاؤں میں اور قومی شاہراہ سے دور واقع ہے۔ اوڑی کہ پوری کمیونٹی کو اس عوامی اثاثے تک رسائی حاصل کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ چلواس بات کو یقینی بنائیں کہ عوامی سہولیات کی سمارٹ پلیسمنٹ سے ہر رہائشی مستفید ہو۔ ایک مقامی کھیل کود سے وابستہ نوجوان نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ حکومت سٹیڈیم کی تعمیر کے لیے قصبے اوڑی یا قریبی گاؤں میں زمین حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔موجودہ مقام بہت دور ہے۔ یہ ایک پہاڑی چوٹی پر بھی واقع ہے،درحقیقت، اسٹیڈیم تک پہنچنے کیلئے پہلے اوڑی فوجی بریگیڈ کو عبور کرنا پڑتا ہے، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ انڈور اسٹیڈیم قصبہ اوڑی کے قریب بنانا چاہئے،کوئی بھی اس اسٹیڈیم کو دیکھنے نہیں جا رہا ہے کیونکہ یہ ایک دور دراز گاؤں میں واقع ہے، لائن آف کنٹرول کے قریب ایک جگہ پر بنایا جا رہا ہے۔