سرینگر // مرکزی اور ریاستی سرکار کے درمیان سنتور ہوٹل سرینگر کی منتقلی کیلئے تحریری معاہدے کو حتمی شکل دی گئی ہے اور ریاستی سرکار اگلے 2ماہ تک ہوٹل کو اپنی طویل میں لے گی ۔وزیر خزانہ ڈاکٹر حسیب درابو نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ وزارت شہری ہوابازی سنتور ہوٹل کو ریاستی سرکار کو دینے کیلئے رضا مند ہو گئی ہے او ر ریاستی سرکار اگلے 2ماہ میں ہوٹل کو اپنی طویل میں لینے کیلئے اقدامات کرے گی ۔انہوں نے کہا کہ مرکزی محکمہ شہری ہوا بازی نے ہوٹل کو ریاستی سرکار کو دینے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس سلسلے میں مرکز اور ریاستی سرکار کے درمیان تمام تحریری معاہدے کو بھی حتمی شکل دی گئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اس سلسلے میں مرکزی وزیر برائے ہوا بازی کے ساتھ ملاقات کی اور اب ہم اس معاہدہ پر پہنچ گئے ہیں کہ مرکزی سرکار ہوٹل کو واپس منتقل کریگی ۔انہوں نے سنتور ہوٹل میں کام کرنے والے ملازمین کو یقین دلایا ہے کہ اُن کی سروس کے حقوق اور فوائد کو ریاستی حکومت کی طرف سے محفوظ رکھا جائے گا اور اس سے اُن کے روزگار پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ معلوم رہے کہ سنتور ہوٹل سرینگر کی منتقلی کیلئے ریاستی اور مرکزی سرکار کے درمیان کئی میٹنگوں کا اہتمام بھی کیا گیا تھا ۔ وادی کے معروف سنتور ہوٹل کی تعمیر کا کام 1982میں ہوٹل کارپوریشن آف انڈیا نے انجام دیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہوٹل سنتور ائر انڈیا کے ہوٹل کارپوریشن آف انڈیا کو پٹے پر دیا گیا جس کا بنیادی کنٹرول وزارت شہری ہوابازی کے پاس ہے لیکن شہری ہوا بازی محکمہ کی لاپرواہی کی وجہ سے یہ ہوٹل پچھلے کئی برسوں سے خسارے پر چل رہا ہے۔2010میں ممبئی کے ایک ہوٹلر بی ڈی اینڈ پی ہوٹلز پرائیوٹ لمیٹیڈنے ہوٹل کے حقوق30سال کیلئے حاصل کئے تھے لیکن فروری 2011میں ریاستی ہائی کورٹ نے مفاد عامہ عرضی پر ہوٹل کو کسی دوسری پارٹی کو پٹے پر دینے کی مخالفت کی اور اس فیصلے پر امتناع جاری کر کے یہ استدال پیش کیا تھا کہ محکمہ سیاحت ہوٹل کو چلانے کیلئے تیار ہے۔ہائیکوٹ نے اس دوران ریاستی سرکار کو بھی پھٹکار دی جس کے بعد ریاستی سرکار بھی حرکت میں آئی اور 22اکتوبر 2010کو ریاستی سرکار نے چیئرمین اینڈ منیجنگ ڈائریکٹرہوٹل کارپوریشن آف انڈیا اور ڈپٹی جنرل منیجر اپریشن (سی ایل وی ایچ ) سرینگر کو ایک خط بھی لکھا جس میں انہوں نے کہا کہ بغیر ریاستی سرکار کے کسی مشورے اور اُن سے رابطے کے اس ہوٹل کے حقوق کوئی نہیں خرید سکتا ہے ،کیونکہ ریاستی سرکار کے مشورے کے بغیر ریاست کے کسی بھی اثاثے کو بغیر انہیں جانکاری دئے فروخت نہیں کیا جا سکتا ہے اس کے بعد یہ معادہ ختم ہو گیاجس کے بعد اگست 2003میں مرکزی سرکار نے ریاستی سرکار کو اس ہوٹل کو واپس لینے کا ایک پیشکش کی تھی تاہم ریاستی سرکار نے سال2005میں اسے لینے سے انکار کر دیا ۔ذرایع نے بتایا کہ سال2015میں ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ مرحوم مفتی محمد سعید نے وزارت شہری ہوا بازی سے سنتور ہوٹل کو واپس لینے کیلئے خواہش مندی کا اظہار کیا اور اس سلسلے میں چار رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جس میں محکمہ مال ، قانون ، خزانہ اور محکمہ سیاحت کے اعلیٰ افسران کو کمیٹی رکن منتخب کیا گیا ،تاہم مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعد اس عمل کو مکمل نہیں کیا جا سکا تاہم اس کے بعد موجود سرکارنے 19ستمبر 2017کواس سلسلے میں وزارت شہری ہوا بازی اور ریاستی جموں وکشمیر کے چیف سیکرٹری بی بی ویاس کی ایک میٹنگ گاندھی بون دلی میں منعقد ہوئی جبکہ ریاستی وزیر خزانہ نے بھی اس سلسلے میں مرکزی سرکار کے ساتھ ہوٹل کو واپس لینے کا معاملہ اٹھایا ۔ ہوٹل میں کام کرنے والے ملازمین کا کہنا ہے کہ یہ ہوٹل پچھلے کئی برسوں سے خسارے پر چل رہا ہے کیونکہ ہوٹل میں کام نہ ہونے کے برابر ہے ۔ملازمین کا کہنا ہے کہ اگر ریاستی سرکار اس ہوٹل کو اپنی طویل میں لے گئی تو نہ صرف ملازمین کی مشکلات کا ازلہ ہو گا بلکہ ہوٹل بھی اچھی طرح چل سکتا ہے ۔ملازمین کا کہنا ہے کہ 10مارچ 1990میں ریاستی سرکار اور شہری ہوا بازی محکمہ کے درمیان ایک معادہ تہہ پایا گیا کہ ایس کے آئی سی سی میں جو بھی تقریبات ہوں گئی اُس کا کھانا پینا اور رہائش سنتور ہوٹل میں ہو گئی،تاہم کچھ سال گزرنے کے بعد نامعلوم وجہات کی بنا پر یہ معادہ اچانک ٹوٹ گیا اور ایس کے آئی سی سی نے باہر سے کیٹرنگ کرانی شروع کرادی۔سنتور ہوٹل میں کام کرنے والے ملازمین کی انجمن سنتور ہوٹل ایمپلائز یونین کے جنرل سکریٹری پیر محمد اسماعیل نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ انہیں خوشی ہو گئی اگر ریاستی سرکار اس ہوٹل کو اپنی طویل میں لے گئی انہوں نے کہا کہ ہوٹل کو واپس لینے کے ساتھ ساتھ ریاستی سرکار کو ملازم کی جانب بھی خیال رکھنا چاہئے تاہم ریاستی وزیر نے یقین دلایا کہ ہوٹل میں کام کرنے والے ملازمین کو اس سے کوئی نقصان نہیں ہو گا ۔
ہوٹل سنتور کی منتقلی کیلئے تحریری معاہدہ
