ہونہار کرکٹر کا گاﺅں ماتم کناں

  دودھ بگ (چندوسہ) // بارہمولہ کا دودھ بگ جو اپنی خوبصورتی کی وجہ سے مشہور ہے، اتوار کو پھٹے خیمے سے نکلنے والی آوازوں نے اس جگہ کوسنسان کردیا تھا۔ ایس ڈی اے کالونی بٹہ مالو میں ہفتے کی شام 18سالہ سجاد حسین کی موت نے سارے گاﺅں کو ماتم کدے میں تبدیل کردیا ہے۔ مقتول سجاد حسن کے والد غلام حسن شیخ کو افسوس اس بات کا ہے کہ نہ تو اس کا بیٹا جنگجو تھا اور نہ ہی سنگ باز ۔ غلام حسن نے کہا ” اگر میرا بیٹا جنگجو یا سنگ باز ہوتا تو مجھے اسکی موت کا کوئی افسوس نہیں ہوتا“۔غلام حسن نے کہا کہ وہ میری زندگی کے بوجھ کو کم کرنے والا اور میری جدوجہد کا ایک حصہ تھا۔ علاقے میں تعزیت پرسی کیلئے آنے والے لوگوں کی بھاری بھیڑ تھی اور ہر شخص غلام حسن کے گھر کی طرف جارہا تھا۔ خیمے کے منظر ناقبل برداشت تھے جبکہ تعزیت کیلئے آنے والے لوگوں کو سجاد کی ماں سے تعزیت کرنے کا موقعہ ہی نہیں مل رہا تھا۔ خیمے سے” دھوکے سے چلاگیا ، میں تمہارے دلارے پن پر اپنی جان نچھاور کردوں“ کی آوازیں سن کر لوگوں کیلئے آنسوں کو روکنا مشکل بن رہا تھا۔ ہفتے کی شام پیش آئے واقعہ کے بارے میں جانکاری دیتے ہوئے غلام حسن نے کہا ” وہ سجاد کو لیکر گاﺅں سے 12 روزبعد واپس آیا اور ان 12 دنوں میں انہوں نے گاﺅں میں اپنے کھیتوں میں سخت محنت کی مگر جو نہی ہفتے کو دن کے تین بچے ہم بٹہ مالو اپنے کرایہ کے گھر پہنچے تو سجاد نے اپنا کرکٹ بلا اٹھایا اور کھیل کے میدان میں اپنے دوستوں سے کھیلنے چلا گیا، وہ شام کو واپس آگیا اور گھروالوں کے ساتھ چائے پی لی۔ غلام حسن نے کہا کہ سجاد اپنا موبائل چارج کرنے کیلئے رکھکر چلاگیا اور پانچ منٹ میں واپس لوٹنے کا یقین دلایا مگر علاقے میں کچھ گڑ بڑھ ہوئی اور ساتھ میں گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دیں، جوں ہی ہم حالات کے بارے میں پتہ کرنے گئے تو چند نوجوانوں نے بتایا کہ سجاد کو بی ایس ایف اہلکاروں نے کافی نزدیک سے گولی کا نشانہ بنایا ہے۔ سجاد کے چھوٹے بھائی فدا حسن نے کہا ” جونہی ہم سنسان سڑک پر پہنچے تو ہمیں صرف سجاد کا سپورٹس جوتا دکھائی دیا کیونکہ لوگوں نے سجاد کو اسپتال منتقل کردیا تھا ۔ فدا حسن نے کہا کہ سجاد کے ماتھے پر گولی ماری گئی تھی، بی ایس ایف اہلکاروں نے اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ سجاد نہیں بچنا چاہئے۔ سجاد 8ویں جماعت کا طالب علم تھا اور امسال اگست میں 18سال کا ہونے والا تھا ۔ سجاد کے والد نے کہا کہ سجاد دیکھنے میں لمبا اور مضبوط دکھائی دیتا تھا کیونکہ وہ سکول کے بعد میرے ساتھ کھیتوں میں کام کرتا تھا۔ سجاد احمد نے کہا کہ مٹن کری تیار کرنے کے بعد وہ معمول کے مطابق کمپوٹر انسٹیچوٹ جاتا تھا۔ اہلخانہ کے مطابق سجاد نونہال کرکٹر تھا اور حال ہی میں ختم ہوئے ٹورنامنٹ میں وہ مین آف دی میچ رہا تھا۔ ٹرافی اور کرکٹ کٹ جو سجاد کو بطور انعام ملا تھا اب ہمارے لئے اسکی یادوں میں شامل ہے۔ مقتول سجاد کے اہلخانہ نے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہ انہیں سرکار سے کوئی امداد نہیں چاہئے اور انکے لئے سب سے بڑی امداد سجاد کی ہلاکت میں ملوث فوجیوں کا سزا دلانا ہوگا۔ غلام حسن نے کہا ” علاقے میں کوئی پتھراﺅ نہیں تھا ، تمام دکانیں کھلی تھیںلیکن میرے بیٹے کو کافی نزدیک سے گولی ماری گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے بیٹے کی ہلاکت کی وجہ جاننا چاہتاہوں۔