جنگ خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کاحل دے گی
ساحر ؔ لدھیانوی
جموں وکشمیر کے عوام اس وقت ہند وپاکستان کے درمیان کئی روز سے زبردست گولہ باری کے باعث زبردست مصائب و مشکلات کا شکار ہوچکے ہیں۔ سیز فائز لائن اور بین الاقوامی سرحد پر دونوں جگہ دونوں طرف جنگی صورت حال پائی جاتی ہے۔ دونوں ممالک کی فوجیں شبانہ روز اندھا دُھند فائرنگ کررہی ہیں۔ ہلکے فوجی ہتھیاروں کے علاوہ مارٹر گولوں تک کا بھی استعمال کیا جارہاہے۔ اس جنگی جنون میں کئی فوجی نوجوانوں کے ہلاک و زخمی ہونے کے علاوہ دونوں طرف شہری بھی لقمۂ اجل ہوچکے ہیں اور بعضے لوگ زخمی ہیں۔ شہری آبادیاں بھی گولہ باری کی زدمیںہیںجس سے کئی رہائشی مقامات بھی خاکستر ہوچکے ہیں اور مال مویشی بھی ہلاک ہوچکے ہیں۔ سرحدی دیہات کی آبادی اپنے آبائی ٹھکانوں کو چھوڑ کرخود کو دوطرفہ آفات وآلام سے بچانے کے لئے دوسرے علاقوںمیں پناہ گزین ہوچکی ہے اور فی ا لحقیقت سرحدی عوام خوف وہراس کے شکارہیں ، جب کہ ان کا کوئی پُرسان حال نہیںہے۔ دونوں طرف کے حکمران انتقام اور بدلے کی نعری بازی سے سرشار اس قتل وغارت پر فخریہ انداز اختیار کئے ہوئے ہیں اور مزید انتقامی کاروائیوں اور بدلے کے آوپریشنز کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اس سے عوام الناس انتہائی پریشانیوں اور تکالیف میں مبتلا ہیں۔ خطرہ اس امر کا ہے کہ سیزفائر لاین کی خلاف ورزیوں کے اس ماحول میں گولہ باری کہیں خدا نخواستہ باقاعدہ جنگ کی صورت اختیار نہ کرجائے۔
ہندو ستان ا ورپاکستان کی حکومتیں 1947کے بعد کئی بار جنگی جنون کا شکار ہوکر جنگ آزمائی کرچکی ہیں اور بحیثیت مجموعی ایک دوسرے سے مسلسل ٹکرائو اورکشیدگی کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ اس عرصہ میںکئی بار بات چیت اور مذاکرات کے لمحات بھی آئے اور دونوں کے درمیان خیر سگالی کا جذبہ بھی پیدا ہوا لیکن اس کی مدت مختصر رہی اور دونوںممالک کے عوام مصائب ومشکلات کاشکاررہے۔گزشتہ سات دہائیوں کاتجربہ گواہ ہے کہ جنگ وجدل، ٹکرائو، کشیدگی، تکرار، صف آرائی اور مقابلہ بازی کے ذریعہ دونوںممالک کے حکمران اپنے مقاصد حاصل کرنے میںناکام رہے ہیں اور اپنے مسائل اور تنازعات طے کرنے میںکوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیںکرسکے ہیںبلکہ اس طویل المدت صف آرائی اور معرکہ بازی کے باعث دونوں ممالک کی ہمہ گیر تباہی وبرباد ی ہوئی ہے۔ دونوںممالک کی معیشت تباہ و برباد ہوئی ہے۔ دونوں ممالک کے عوام کی بہتری اور بہبودی کے اقدامات اٹھانے کی بجائے عوامی خزانہ کو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر بے دریغ صرف کرتے جارہے ہیں، حالانکہ جنگ وجدل اور معرکہ آرائی و صف آرائی کے بعد انہیں پھر مذاکرات اور بات چیت کی میز پرا ٓنا پڑاہے۔ اب کی بار بھی موجودہ صورت کا کوئی بھی نتیجہ نکلے، آخر کار دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر ہی آنا پڑے گا۔ جنگ وجدل سے کوئی اور نتیجہ برآمد ہونے کی ہرگز کوئی دوسری صورت ہے ہی نہیں۔ اس لئے بجا طورپر دونوں ممالک کے حکمرانوں سے دریافت کیا جاسکتاہے کہ وہ جنگ بازی کے عمل کے بعد بھی بات چیت کے میز پر آنے کی بجائے جنگی ماحول سے پیشتر ہی مذاکرات اور بات چیت کاراستہ کیوں اختیار نہیںکرتے؟ 1947 ء کی جنگ کے بعد بھی اُنہیں ا قوام متحدہ کے ذریعہ مذاکرات کی میز پرا ٓناپڑاتھا۔ 1964-65ء کی جنگ کے بعد بھی اُنہیں تاشقند میں مذاکرات کرنے پڑے تھے۔
1971ء میںبھی آخرکار شملہ معاہدہ پر مجبور ہونا پڑاتھا۔ تو پھر اسی جنگ بازانہ راستہ پر چلنے کی کیا ضرورت ہے۔ تباہی اور بربادی سے پیش ترہی مذاکرات کی میز پر آکر تنازعات اور مسائل کاحل کیوںنہ ڈھونڈا جائے۔ توقع یہ کی جاتی تھی کہ گزشتہ تجربات کی بنیا د پر وہ جنگ وجدل سے گریز کرکے مذاکرات کے ذریعہ مسائل حل کریںگے لیکن اب کے بھی وہ پرانے راستہ پر ہی چلتے بلکہ دوڑتے ہی نظرآتے ہیں جو کہ ایک المیہ سے کم نہیں ہے۔ دونوںممالک کے عوامی مفادات کا تقاضا ہے کہ دونوںممالک کے حکمران صف آرائی ، محاذا ٓرائی اور جنگی جنون کا راستہ ترک کرکے فوری طورپر مذاکرات اور بات چیت کا راستہ اختیار کریں اور دونوںممالک کے عوام کو جنگی تباہ کاریوں سے محفوظ کریں۔ موجودہ جنگی جنون سے پیش تر حکمران لیڈر خود کہتے رہے ہیں کہ دونوںممالک کے سامنے جنگ وجدل کے ذریعہ مسائل حل کرنے کا راستہ کوئی نہیںہے، اس لئے مذاکرات کے ذریعہ ہی مسائل اور تنازعات حل کئے جائیںگے لیکن اب پھر کیوںوہ جنگی جنون پیدا کرکے عوام کو تباہی اور بربادی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
بعض سیاسی مبصرین کا کہناہے کہ دونوںممالک کے حکمران اس وقت اپنی پالیسیوں کے باعث گھریلو مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس لئے وہ اپنی ناکامیوں اور مشکلات سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے جنگی جنون پیدا کررہے ہیں۔ اُن مبصرین کا کہناہے کہ پاکستان کے نواز شریف جو کہ وزارت اعظمیٰ سے معزولی کے باوجود پاکستان کے حقیقی حکمران ہیں اور گزشتہ دنوںاس کا ثبوت یہ ملا کہ موصوف کو ن لیگ کا بلا مقابلہ صدر منتخب کیا گیا ۔ نواز شریف اس وقت پانامہ لیکس میںملوث ہیںجس کے خلاف اپوزیشن پارٹیاں خصوصاً عمران خان کی تحریک انصاف پارٹی پوری طرح صف آراء ہے۔ پیپلز پارٹی بھی میدان میں آنکلی ہے اور کئی مذہبی پارٹیاں بھی سامنے آگئی ہیں۔ اس لئے اس زمینی صورت حال سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے جنگی جنون پیدا کرنے میںدلچسپی دکھانے پر اچنبھانہیں ہونا چاہیے ۔ پاکستان کی فوج نواز شریف کی سیاسی مشکلات کافائدہ اٹھا کر دوبارہ اقتدارمیںآنے کی خواہاں ہے، اس لئے بھی جنگی جنون کا موسم پیدا کیا جارہاہے۔ اسی طرح ان مبصرین کے مطابق ہندوستان کی مودی سرکار برسر اقتدار آنے سے پیشتر عوام سے کئے گئے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی ہے اور اب 2019ء کے لوک سبھا انتخابات پر اس کی نظر ہے ، اس کے پیش نظر وہ بھی جنگی جنون پیدا کرکے عوام کی توجہ اپنی ناکامیوں سے ہٹاکر اپنی سیاسی کامیابی کی خواہاں ہے۔ ہم اس سلسلہ میں وثوق سے کچھ نہیںکہہ سکتے ،یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ ان مبصرین کی رائے کہاں تک درست ہے لیکن اگرا یسا ہے تو یہ برصغیر ہند وپاک کے لئے انتہائی بدبختی کی علامت ہے۔
تقاضائے وقت یہ ہے کہ ہندو ستان و پاکستان کے حکمران متنازعہ اور اختلافی مسائل جنگ وجدل اور ٹکرائو و کشیدگی کی بجائے باہمی طورپر مذاکرات اور بات چیت کے ذریعہ حل کریں اور ملکی و قومی ترقی و مسائل پر اپنی توجہ دیں۔ دونوںممالک کے عوام بھوک، افلاس، بے کاری، مہنگائی، جبر وتشدد، دہشت گردی، غنڈہ گردی، رشوت ، بھرشٹاچار کے شکار ہیں ۔ حکمران اس طرف توجہ دیں اور عوامی مسائل حل کریں۔ ان مسائل کا حل جنگی جنون میں ہر گز مضمرنہیں بلکہ جنگی جنون مزید مسائل پیدا کردے گا۔ ملک کومزید کنگال کردے گا اور عوام کی حالت مزیدابتر ہوجائے گی۔ یہ دونوں ممالک تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے ترقی پذیر ممالک ہیںجو عرصہ تک برطانوی سامراج کے زیر تسلط رہے ہیں اور اس وجہ سے سامراجی لوٹ کھسوٹ کا شکار رہے ہیں۔برطانوی انخلاء کے بعد بھی دونوں ممالک کی معیشت پر سامراجی غلبہ ہے اور سامراجی طاقتیں مقامی گماشتہ سرمایہ داروں سے شراکت کرکے عوام کی دولت کا استحصال کررہی ہیں۔ اس وقت بھی دونوں ممالک کی معیشت پر نہ صرف امریکی سامراج کا غلبہ ہے اور ورلڈ بنک، انٹرنیشنل کنشوریم ، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور دیگر اداروں کے ذریعہ وہ ان ممالک کی لوٹ کھسوٹ کررہاہے۔ بظاہر امریکی سامراج بے شک دونوںممالک سے دوستی اور دونوں کے درمیان صلح جوئی کا دم بھرتاہے لیکن وہ دونوںممالک کے درمیان کشیدگی ، ٹکرائو اور جنگ وجدل کا خواہاں ہے تاکہ اس کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں رہے ۔ اس سودخوارانہ امریکی سوچ کے پیچھے یہی بد نیتی کارفر ما ہے کہ دونوںممالک میں اس کے معاشی استحصال کے علاوہ اسی کے سیاسی غلبہ کا سکہ بھی چلتا رہے اور خاص کر یہ اپنا مال خصوصاً اسلحہ اور بارود دونوںممالک میں فروخت کرکے منافع در منافع کماسکے۔ تیسری دُنیا کے دیگر ممالک کا تجربہ بھی اس سلسلہ میں گواہ ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ ہماری ہمسائیگی میں مشرق وسطیٰ کے ممالک کو آپس میں لڑا کر امریکہ کس طرح اس خطہ پر عملی طورپر قابض ہے۔
عراق، شام، یمن، لیبیا، اُردن، خلیجی ریاستوںمیں ایک دوسرے کو محاذ آراء اور صف آرائی کر وا کر واشنگٹن کس طرح اپنے مفادات حاصل کررہاہے؟ اس حقیقت سے سبھی آگاہ ہیں ۔ا فغانستان میںاُس نے کیا گل کھلائے ہیں۔ اسے بھی سبھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ ایران کے خلاف اس کی سازشوں کو کوئی بھلا نہیں سکتا۔ مشرق وسطیٰ میں شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دے کر اس نے کیا محشر بپا کررکھاہے، وہ سب کی دانست میں ہے۔ اس لئے وہ ہندوستان اور پاکستان دونوں میںسے کسی کا بہی خواہ نہیںہوسکتا۔ درحقیقت برصغیر کے ان دونوں ممالک میں جنگی جنون پیدا کرکے وہ اپنی چودہراہٹ اور معاشی لوٹ کھسوٹ قائم رکھنا چاہتاہے ۔ اس لئے دونوںممالک کو امریکی سازشوں سے باخبر رہ کر اس کی درپردہ اور علانیہ سازشوں کو عقل وفہم اور اپنے بقائے باہم کے جذبے سے ناکام کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کی بااثر قوتوںبالخصوص حکمران ٹولوں کے اس سلسلہ میں کیا عزائم اور ارادے ہیں؟ اس بارے میں کچھ کہنا ضرور مشکل ہے لیکن اگر وہ سلیم الفطرت ہوں تو انہیں یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ دونوں ممالک کے عوام کا مشترکہ مفاداسی امرمیں مضمر ہے کہ وہ اپنے اثر ورسوخ کو استعمال کرکے حکمرانوں پر دبائو ڈالیں کہ وہ تمام متنازعہ معاملات اور مسائل باہمی بات چیت اور مذاکرات کے ذریعہ بطریق احسن حل کریں۔ امن پسند طاقتوں کو آر پار جنگ وجدل، ٹکرائو، کشیدگی، محاذ آرائی، صف آرائی کے خلاف زوردار آواز بلند کرنی چاہیے اور اپنے اپنے حکمرانوں پر واضح کرنا چاہیے کہ بہت ہوگیا اب مذاکرات کی میز پرآجاؤ اور پیس پروسس شروع کرو۔ ا س ضمن میںجموں وکشمیر کے دونوں حصوں کے عوام کا خصوصی فرض ہے کہ وہ دونوں ممالک کو بات چیت اور مذاکرات کے میز پر لانے کے لئے اپنا پورا زور لگائیں کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان ٹکرائو ، کشیدگی اور جنگ وجدل کا خمیازہ اس ریاست کے لوگوں کو ہی زیادہ تر بھگتنا پڑتاہے۔ اس وقت بھی سرحدوں پرگولہ باری سے اسی خطہ کے لوگوں پر آفت نازل ہوئی ہے اور اگر خدانخواستہ اگر کوئی نئی جنگ نازل ہوتی ہے تواُس کی تباہ کاریوں کا نتیجہ اسی ریاست کے ستم رسیدہ عوام کو ہی بھگتنا پڑے گا بلکہ ہم لوگ ہی شامت اعمال سے نفرتوں اور کدورتوں کے جہنم میں بھسم ہوں گے۔