ہندو مسلم بھائی چارہ کی ایک اور مثال

  شوپیان// جموں و کشمیر کے ضلع شوپیان میں ہندو مسلمان کے مابین بھائی چارہ کی مشعل فروزاں رکھ کر فرقہ دارانہ ذہنیت رکھنے والوں کے منہ پر طمانچہ مارا ہے۔اس طرح کے واقعات وادی کے شمال و جنوب میں پیش آتے رہے ہیں لیکن جموں کشمیر کی سرحد سے باہر کشمیریوں کو بدام کرنے کی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جاتی۔سنیچر کو لگاتار برفباری اور ٹھٹھرتی سردی کے باوجود شوپیان کے ایک مضافاتی گائوں میں ایک کشمیری پنڈت کے فوت ہونے پر اسکی آخری رسومات کو یقینی بنانے کیلئے مقامی مسلمانوں نے اپنی ایک کوشش بروئے کارلائی۔ پنجورہ شوپیان کے متصل پڈگوژھ گائوں میں کشمیر کی صدیوں پرانی مذہبی بھائی چارے کی روایت اس وقت پھر زندہ ہوئی جب علاقے میں ایک  کشمیری پنڈت باسکر ناتھ کا انتقال ہوگیا۔60سالہ باسکر ناتھ کے گردے خراب ہوئے تھے اور اسکاسکمز میں علاج و معالجہ چل رہا تھا۔سنیچر کی صبح جب اسکی میت اپنے آبائی گائوں لائی جارہی تھی تو 10کلو میٹر دور ایمبولنس برف میں پھنس گئی جس کے بعد ڈرائیور نے بھاسکر ناتھ کے رشتہ داروں کو اطلاع دی، جنہوں نے مقامی مسلم آبادی کو اس کے بارے میں بتایا، جنہوں نے فوری طور پر پیدل سفر شروع کیا اور 10کلو میٹر سے میت کو کندھوں پر اٹھا کر آبائی گھر لایا۔گھر پہنچ کر بھاسکر ناتھ کی مکمل طور پر ہندو روایت کے مطابق آخری رسومات ادا کرنے کی کارروائی گئی۔ مقامی مسلمان آبادی نے دیگر کشمیری پنڈتوں کے ساتھ مل کر ان کی آخری رسومات ادا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔برف باری کی وجہ سے باسکر ناتھ کے اہل خانہ کو اگرچہ آخری رسومات ادا کرنے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا تاہم ہمسایہ مسلمانوں نے ہاتھ بٹاتے ہوئے انکی مدد کی اور ہندو مسلمانوں نے مل کر انکی آخری رسومات ادا کیں۔مسلم آبادی نے لکڑیوں کا خود انتظام کیا،غم زدہ اہل خانہ کی ڈھارس بندھائی اور اسکے اہل خانہ کیساتھ اس غم میں برابر کے شریک رہے۔