ہم کدھر جارہے ہیں؟

آج کل روزانہ اخبارات کے بہت سارے کالموں میں اس بات کا تذکرہ عموماً ہوتارہتا ہے کہ وادیٔ کشمیر کے نوجوان نسل کی بگڑتی صورت حال تشویش ناک حد تک پہنچ چکی ہے ،نیز وہ دن بہ دن مختلف بُرائیوں و خرابیوں کی نذر ہوکر آوارگی ،اخلاقی بے راہ روی ، منشیات کی عادی اور جرائم کی طرف راغب ہورہی ہے،جس کے نتیجہ میں معاشرے کا ایک بڑا حصہ تباہ و بُرباد ہورہا ہے۔
ظاہر ہے کہ نوجوان نسل کسی بھی معاشرے اور قوم کے لئے رگِ جان کی حیثیت رکھتی ہے ،اُن کی ہمت اور محنت جہاں قوم و معاشرہ کو ترقی اور کامیابی سے سرفراز کراتی ہے وہیں اُن کی کوتاہی اور غلطی قوم و معاشرہ کی عزت و وقار کو پستی کی جانب دھکیل دیتی ہے۔نوجوان نسل ہی کل کی تاریخ مرتب کرتی ہے اور نوجوان نسل کے فکرو عمل سے قوم و معاشرہ کا مستقبل وابستہ ہوتا ہے البتہ جس قدر اُن کی اہمیت اور ذمہ داریاں ہیں اُسی قدر اُن کے مسائل بھی ہیں،جن کو حل کرنا معاشرے اور حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔نوجوان نسل کے مسائل اور مشکلات کو حل کرنے کے لئے جہاں نوجوان اور معاشرہ کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہونا لازمی ہوتا ہے وہیں اُن کے لئے حالات و واقعات کے تقاضوں کو سمجھنا اور تمام پہلوئوں پر نظر رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔چنانچہ جہاں کہیں بھی نوجوان نسل اور معاشرے کے درمیان ہم آہنگی کا لازمی جُز ناپید ہوجاتا ہے اور وہاں وہ حالات و واقعات کے تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر ہوجاتی ہے اور اُن کے لئے مسائل و مشکلات کا حل نہ صرف نہایت مشکل ہوجاتا ہے بلکہ ناممکن بھی بن جاتا ہےاور نتیجتاً پورا معاشرہ بکھر کر رہ جاتا ہے۔حق تو یہی ہے کہ جب تک ایک نوجوان وقت کی اہمیت اور حالات و واقعات کی نزاکت و تقاضوں کو جاننے،سمجھنے اور جانچنے کی کوشش نہیں کرتا ہے،وہ کسی بھی بڑی تباہی سے بچ نہیں پاتا اور یہاں بھی افسوس ناک پہلو یہی ہے کہ وادیٔ کشمیر کے مسلم معاشرے کی نوجوان نسل ،اپنی اس وادی کے حالات و واقعات سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود انجانے اور فریبی راستوں پر بھٹک رہی ہے ،وہ اپنے لئے کسی فعال یا مثبت مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے کے بجائے ناحق اپنے آپ کو تجربات کی بھینٹ چڑھاتی ہے۔وہ،بغیر کسی سختی اٹھانے کے حلیم اور بغیر کسی تجربے کے حکیم بننا چاہتی ہے۔جس کے نتیجہ میںاُن کے ہاتھ میں کچھ نہیں آتا ہے او ذلیل و خوار ہوکر ر اُن کی سمجھ داری اور دور اندیشی بھسم ہوکر رہ جاتی ہے ۔
بلا شبہ وادیٔ کشمیر کے مسلم معاشرے کا بیشتر حصہ اخلاقی تنزل اور انحطاط کے گردِ آب میں اس طرح پھنس چکا ہے کہ اب یہاں اچھا بُرا کون ہے پہچاننا مشکل بن گیا ہے اور اگر اس کا فی الفور موثر و مثبت علاج و تدارک نہ کیا جائے تو جوافسوسناک و شرمناک نتائج آج تک برآمد ہوچکے ہیں ،اُن سے بھی زیادہ  بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔سچ تو یہ بھی ہے کہ پچھلے تین چار عشروں سے ہماری نوجوان نسل نے جن بُرائیوں اور خرابیوں کو اپنانا شروع کردیا، اُن سے معاشرے میں آوراگی اور بے راہ روی عام ہوچکی ہے ،اخلاق سوز رُجحانات پروان چڑھ گئے اور شرافت و حیاداری کافور ہوکر تمام اخلاقی اقدار پامال ہورہے ہیں۔ہر طرف تہذیبی جارحیت اور مغربی ثقافت کا بول بالا ہوا ہے اور نوجوان نسل اخلاقی تنزل کے پُر فریب راستوں پر گامزن ہیں۔گھروں ،محلوں ،بازاروں ،دفتروں ،کارخانوں ،تعلیمی و طبی اداروں ،تفریح گاہوں یہاں تک کہ عبادت گاہوں کے آس پاس بے راہ روی ،آوارگی ،حیا سوزی و اخلاق باختگی کا چلن بغیر کسی خوف و کھٹکےجاری و ساری ہے۔ہاں! یہ بات اب انتہائی تشویس ناک صورت حال پیدا کرچکی ہے کہ وادی میں منشیات کے دھندے اور اُن کا استعمال بڑے پیمانے پر فروغ پارہا ہے۔اگرچہ منشیات کے استعمال کے باعث عبرت ناک ہلاکتیں بھی منظر ِ عام پر آچکی ہیں،کئی گھرانوں کے چشم و چراغ گُل ہوجانے کے خطرناک نتائج بھی سامنے آچکے ہیںاور ہزاروں نوجوان مختلف جسمانی و ذہنی بیماریوں میں مبتلا بھی ہوچکے ہیں، پھر بھی یہ دھندہ شدو مد سے جاری ہے۔نوجوان نسل کے رَگوں میں زہر پیوست کرنے کے کارخانے بخیر و خوبی چل رہے ہیں اور نئی پود کو اس کا عادی بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جارہی ہے،جس کے نتیجہ میں جرائم کا تناسب بھی بڑھ رہا ہے۔مختلف ضلعوں کےکئی علاقوں میں جہاں خوفناک وا ردتیں رونما نہیں ہوتیں، وہاں ایسے چھوٹ موٹے جرائم جنم لے رہے ہیں جن کا چرچا عام نہیں ہوتا ہے مگر وہ انسانوں کے لئے خاموش قاتل بن کر ابھرتے جارہے ہیں۔ایسے جرائم وقت کے ساتھ دیگر سماجی برائیوں اور بدامنی کو دعوت دے رہے ہیں۔الغرض شہر ودیہات میں منشیات کے استعمال میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ان میں انتہائی خطرناک حد تک استعمال میں لائی جانے والی نشہ آور ادویات بھی شامل ہوتی ہیں ، جو گلی گلی  فروخت کی جا رہی ہیں۔ اس کاروبار نے ایک منظم صورت اختیار کر لی ہے اورمخصوص مافیااس دھندے سے راتوں رات کروڑ پتی بنتی جارہی ہے جب کہ دوسری جانب ہزاروں نوجوان اس کے عادی بن چکے ہیں۔روزانہ بھاری مقدار میں فروخت ہونے والی نشیلی ادویات کی فروخت میں کئی سفید پوش افراد نے بھی اپنے ہاتھ کالے کئے ہوئے ہیں ۔سیاسی آشیرواد کی چھتری تلے اس کاروبار میں ملوث لوگ اوپرسے نیچے تک حصہ پتی پہنچا کر اس کالے دھندے کو سفید کر کے دیدہ دلیری سے کام چلائے جا رہے ہیں۔ اس گھنائونے کاروبار کو روکنا ضلعی انتظامیہ کے لیے ایک چیلنج تو ہے ،مگر یہ بھی انکشاف ہورہا ہے کہ متعلقہ محکمہ اور انسدادِ منشیات کے بعض افراد یعنی کالی بھیڑوں نے بھی اس کاروبار میں اپنے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔جس کہ وجہ سے یہ کاروبار دن بہ دن ترقی کررہا ہے ۔حالانکہ اس ساری صورت حال کی ذمہ داری انسداد منشیات پرہی عائد نہیں ہوتی ہے ،مگر اس شعبہ کے پاس اس سماجی برائی کو روکنے کی ابھی تک کوئی ٹھوس منصوبہ بندی بھی نظر نہیں آئی ہے۔پولیس اور ذمہ دار محکمہ کی چشم پوشی کی وجہ سے یہ ہلاکت خیز زہر ہر جگہ پھیل گیاہے ۔اسے روکنے کی اول ذمہ داری پولیس پر عائد ہوتی ہے۔اس برائی کو ختم کرنے میں سماجی اداروںو معاشرہ کے متحرک افراد کو بھی اس کی سنگینی پر غور کرتے ہوئے نوجوان نسل کو تباہی سے بچانے کے لیے عملی کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔
سول سوسائٹی کی متفقہ رائے ہے کہ نشہ آور چیزوں کی ترسیل کو روکنے کے لیےبڑے ڈیلرز کے خلاف بلا تفریق کاروائی کی جائے اور داخلی راستوں پرقائم چیک پوسٹس پر بہتر ساکھ رکھنے والے پولیس افسران و اہلکاروں کو میرٹ پر مقرر کیا جائے۔ تاکہ اس کی ترسیل کو ناکام بنا کر شہروں اور دیہاتوں کو اس لعنت سے پاک کرنے کے ساتھ نوجوان نسل کو تباہی سے بچا یا جا سکے۔بعض حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اپنی اس وادیٔ کشمیر یہ سب کچھ ایک مخصوص منصوبے کے تحت کیا جارہا ہے کیونکہ لوگ لالچ میں گرفتار ہیں اور نام نہاد ترقی کے لئے سب کچھ گوارا کرنے کے عادی ہوچکے ہیں،اس لئے بدستور کوتاہ اندیشی سے کام لے رہی ہیں۔حالانکہ کوتاہ اندیشی اور لالچ نے ہمارا سب کچھ بگاڑ کر رکھ دیا ہے اور بیشتر تلخ تجربات کا مزا بھی چکھایا ہے مگر اس کے بعد  بھی ہمارے اندر کی دور اندیشی پیدا نہیں ہورہی ہے ۔آج اگر چہ ہر کوئی شخص یہ بات ضرور محسوس کرتا ہوگا کہ معاشرے میں خرابیاں اور بُرائیاں پھیل جانے سے ہمارا ہی کافی نقصان ہوچکا ہے اور بدستور ہورہا ہےلیکن پھر بھی ہم خرابیوں و بُرائیوں کو روکنے کے لئے کمر بستہ نہیں ہورہے ہیںبلکہ ہر بات کو وقتی طور پر تماشا بنا کر چُپ سادھ لیتے رہتے ہیںجبکہ بعض معاملات میں اپنی کوتاہ اندیشی ،بے حسی اور غفلت شعاری سے بُرائیوں اور خرابیوں کو فروغ دینے میں مدد گابن رہے ہیںاور غیر شعوری طور پر معاشرے کا ہر فرد بُرائیوں کو پنپنے اور پھیلانے میں تعاون پیش کرتے ہوئے اس بات کو بالکل محسوس نہیں کرتا کہ سارے معاشرے کو تباہ و بُرباد کرنے کے سامان وہ خود پیدا کررہے ہیں۔معاشرے کے ہر فرد خصوصاً سنجیدہ فکر حلقوں کو اس صورت ِ حال پر غور کرنا چاہئے اور نہایت جراًت مندی سے ایک دوسرے کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی جانی چاہئے کہ ہم جس راستے پر چل پڑے ہیں وہ بُربادی کا راستہ ہے ۔اگر ہم واقعی صدق دِلی سے اپنے طرزِ عمل میں تبدیلی لائیں گے تو موجودہ صورتِ حال برقرار نہیں رہ سکتی۔ہماری کوششوں سے ایک اچھا معاشرہ وجود میں آسکتا ہے جس میں دیانت داری ،سچائی اور سب کی بھلائی ممکن ہو۔