سرینگر // ’’ہم پاکستانی ہیں ہمیں واپس بھیج دو ‘‘آہوں اور سسکیوں کے بیچ یہ الفاظ اُن بدنصیب پاکستانی خواتین کے ہیں، جنہیں سال2010میں باز آباد کاری پالیسی کے تحت یہا ں لاکر در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کیا گیا ہے۔ سنیچر کو پاکستان اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی ان خواتین نے پریس کالونی میں زور دار احتجاج کیا اور سابق حکومتوں پر الزام عائد کیا کہ اُن کے ساتھ کئے گے وعدوں کو 9سال بعد بھی عملی جامہ نہیں پہنایاگیا ۔ یہ خواتین اپنی روداد بیان کرتے وقت آنسو بہارہی تھیں اور یہ منظر دیکھ کر وہاں ماحول سوگوار ہو گیا ۔مظاہرہ کر رہی خواتین نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر’’ہم پاکستانی ہیں ہمیں واپس بھیج دو ‘‘کے نعرے درج تھے اس دوران انہوں نے ’’ہمیں انصاف دو ہم پریشان ہیں‘‘ کے نعرے بھی بلند کئے اُن خواتین نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سال2010میں عمر عبداللہ سرکار نے سرحد پار سے گھر واپس لوٹنے والے سابق جنگجوئوں کیلئے ایک باز آباد کاری پالیسی بنائی اور اُن کے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا کہ واپس آنے والے جنگجوئوں اور اُن کے اہل وعیال کی باز آباد کاری کی جائے گی اور انہیں عزت وسکون کی زندگی ملے گی ۔
اس وعدے پر سینکڑوں کی تعداد میں سابق جنگجوئپاکستان کے کونے کونے سے اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ نیپال اور دیگر راستوں سے وادی آئے اور ان افراد کے ساتھ 5سو خواتین بھی یہاں پہنچیں۔لیکن یہاں انہیں مصیبتوں اور پریشانوں کے سواء کچھ نہیں ملا اور نہ ہی 9برسوں میں اُن کی باز آباد کاری ہو سکی ۔پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی ایک خاتون آسیہ حسن نے بتایا کہ یہاں آکر ہماری کوئی شناخت ہی نہیں رہی ہماری ترقی کیلئے جو وعدے ہم سے کئے گئے تھے اُس کے بدلے ہمیں ایف آئی آر ملے، اب کہا جا رہا ہے کہ آپ مجرم ہیں اور غیر قانونی طور یہاں رہ رہی ہیں ۔آسیہ حسن نے کہا کہ یہاں کی سرکار کے وعدوں کے بعد ہمارے خاوند اس اُمید کے ساتھ یہاں آئے تھے کہ اُن کو یہاں عزت کا مقام ملے گا لیکن اب گذشتہ 9برسوں سے وہ ذہنی پریشانی میں مبتلا ہیں۔انہوں نے کہا کہ اب تک ایک خاتون کا طلاق اور کئی ایک نے سرحد پار جانے کی حسرت میں اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیا ہے ۔آسیہ نے مزید کہا کہ ہمیں نہ ہی سفری دستاویزات فراہم کئے جارہے ہیں ،نہ ہی پاسپورٹ ،جبکہ ہمارے لئے اس ملک میں کوئی شناختی کارڈ بھی نہیں ہے۔
آسیہ نے کہا کہ ہم سب بے حد پریشان ہیں اور ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہو کر ادویات کا استعمال کر رہیں کیونکہ انہیں 9برسوں میں ایک بار بھی سرحد پار جا نے کی اجازت نہیں ملی۔ احتجاج کر رہی مسرہ نامی ایک خاتون نے بتایا کہ کئی ایک خواتین ایسی ہیں جن کے والدین سرحد پار فوت ہو چکے ہیں اور اُن کی بیٹیاں یہاں اُن کی قبروں کو دیکھنے کیلئے ترس رہی ہیں، ہم یہاں زند ہ لاشیں بن کر رہ گئی ہیں ۔ہانجی ویرہ پٹن بالامیں بیاہ کر لائی گئی نبیرہ بیگم نے کشمیر عظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ سال2012میں وہ سرحد پار سے اپنے خاوند اور 2 بچوں کے ہمراہ آئی اور 7برسوں میں اُس نے بھی مصیبتوں کے سوا یہاں کچھ نہیں دیکھا ۔خاتون کے مطابق وہ پاکستان کے ایبٹ آباد علاقے کی رہنے والی ہے جہاں پچھلے کچھ برسوں کے دوران اُن کے نانا، نانی اور چچرابھائی فوت ہو گئے ہیںاور وہ حکومت سے مطالبہ کرتی آئی ہے کہ اُس کو بھی سرحد پار اُن کی قبروں پر جانے کی اجازت دی جائے انہوں نے ہند پاک وزرائے اعظم نریندر مودی اور عمران خان کے علاوہ ششما سوراج اور شاہ محمود قریشی سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں انسانی جذبہ کے تحت سرحد پار جانے کی اجازت دی جائے ۔