ہمہ موسمی شاہرائوں کا خواب کب شرمندہ تعبیر ہوگا؟

جموںوکشمیر مختلف جغرافیائی زونوں کا علاقائی مجموعہ ہے اور یہ زون زیادہ تر دشوار گزار علاقوں سے ایک دوسرے سے علیحدہ ہوتے ہیں۔جب موسم خراب ہوتا ہے تو یہ مشکل ہمیں شدید ترین مشکل سے دوچار کرتی ہے۔ لوگ بارش یا برف باری کی صورت میں ان علاقوں کا سفر نہیں کر سکتے۔اب چونکہ سرما آیا چاہتا ہے تو جموںوکشمیر کے کئی حصوں کا زمینی رابطہ باقی دنیا سے چھ ماہ کیلئے کٹ کررہ جائے گا۔یہ ایک ایسی چیز ہے جو اب ہماری زندگیوں کا مستقل حصہ بن چکی ہے اور اس کے اثرات بھی مستقل ہی ہیں۔ خاص طوروہ لوگ مسلسل اثرات سے دوچار ہیں جو دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں۔ اب جبکہ موسم خزاں کا اختتام ہونے والا ہے تو سخت ایام بھی اب زیادہ دور نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ اب ہمارے یہاں بارشیں ہوں گی اورپھر اگلے چند مہینوں میں برف باری کا موسم شروع ہو جائے گااور پھر جہاں کشمیر کالداخ سے رابطہ منقطع ہوگا وہیں کشمیر کا چناب اور پیر پنچال خطہ کیلئے براہ راست رابطہ ختم ہوگا جبکہ اندرون کشمیر گریز ،مژھل ،کیرن ،کرناہ جیسے علاقے بھی کٹ کررہ جائیں گے۔ایسے حالات میں پھر ایک بار وہی سوال جواب طلب ہے جو اب تک سینکڑوں بار اجاگر کیاگیا ہے۔ اس تکنیکی لحاظ سے ترقی یافتہ وقت میں  جب سڑکیں، ٹنل اور ریلوے ٹریک انتہائی دشوار گزار علاقوں میں بچھائے گئے ہیں ، ہم اب بھی بہت پیچھے کیوں ہیں؟ سرینگر جموںقومی شاہراہ جیسی مصروف ترین اور انتہائی اہم سڑک پر ٹریفک میں خلل ڈالنے میں ہلکی سی بوندا باندی آج بھی کیوں کافی ہوتی ہے؟۔کرگل، جو پڑوسی جغرافیائی زون ہے ، کے لوگ سری نگر جیسی جگہوں سے کیوں منقطع رہتے ہیں جہاں ان کے منظم تجارتی ، سماجی اور تعلیمی روابط ہیں۔سردیوں کے مہینوں میں مغل روڈ جیسا زمینی رابطہ کیوں کام نہیں کرتا؟۔کیوںپیرپنچال اور وادی چناب جیسے خطوں کے بہت سے علاقے سردیوں کے مہینوں کے دوران انتہائی تنہائی میں پڑ جاتے ہیں؟۔ یہ سب بہت درست اور اہم سوالات ہیں اور ہمیں انہیں بار بار حکام کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ جموں وکشمیر اور اس کے آس پاس مختلف جغرافیائی زونوں کو جوڑنے والے راستوں کو اپ گریڈ کرنے پر توجہ مرکوز رکھیں اور جموں وکشمیر کے اندر مختلف خطوں اور جموںوکشمیر کو پڑوسی خطوں سے جوڑنے کیلئے ہمہ موسمی رابطوں کی تشکیل یقینی بنائیں۔ اگر صرف پہلے سے جاری منصوبوں کو جلد مکمل کیا جائے تو ہم بین علاقائی رابطے میں نمایاں فرق پیدا کر سکتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ہم نے قاضی گنڈ اور بانہال کے درمیان سڑک ٹنل کھولتے دیکھاجس کے نتیجہ میں نہ صرف سرینگر اور جموں کے مابین فاصلہ کم ہوا ہے بلکہ اس نے پرانی سڑک پر ایک ایسے زون کو بائی پاس کیا جو خطرات سے دوچار تھااور اس زون میںاکثر طویل ٹریفک جام رہتا تھا۔ اسی طرح اگر اس شاہراہ پر دیگرٹنلیں اور پل مکمل ہو جائیں تو ہمیں سکون کا سانس مل سکتا ہے۔ہم ان کاموں میں تیزی لانے اور ٹیکنالوجی کو اپ گریڈ کرنے کے لیے حکام سے گزارش ہی کرسکتے ہیں تاہم یہ بات بھی ہے کہ سرکار ایسے پروجیکٹوں کی اہمیت سے غافل نہیںہے اور وہ بھی جانتی ہے کہ اندرون جموںوکشمیر خطوں کے درمیان ہمہ موسمی رابطے ترقی و خوشحالی کیلئے لازمی ہیں اور ساتھ ہی جموںوکشمیر کو باقی پڑوسی جغرافیائی خطوںسے جوڑنا بھی لازمی ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں ترقی کے ثمرات زمینی سطح پر منتقل ہوسکتے ہیں۔ امید ہے کہ یوٹی انتظامیہ اور مرکزی سرکار حسب وعدہ جموںوکشمیر کے خطوں اور ذیلی خطوں کو جوڑنے کا سفر جاری رکھیں گے اور اس ضمن میں نہ صرف پیر پنچال کو کشمیر سے جوڑنے والی مغل شاہراہ کو ہمہ موسمی بنانے کیلئے مجوزہ ٹنل کی تعمیر کا کام دردست لیاجائے گا بلکہ چناب وادی کو کشمیر سے جوڑنے کیلئے کشتواڑ سنتھن اننت ناگ ،سنگھ پورہ وائلو اننت ناگ ،مہور قاضی گنڈ شاہراہوں کو بھی ہمہ موسمی بنانے کیلئے ٹنلوں کی تعمیر ہوگی جبکہ اس کے علاوہ پونچھ کو کشمیر سے جوڑنے والی مزید دو شاہراہوں لورن سوجیاں درنگ روڈ اور لون ٹنگمرگ روڈ بھی قابل آمد و رفت بنایا جائے گا جبکہ اس کے علاوہ چناب اور پیر پنچال کے دورافتادہ علاقوں کو بھی ضلعی ہیڈکوارٹروں سے ہمہ موسمی سڑکوںکے علاوہ گریز ،کرناہ اور کیرن کو بھی ہمہ موسمی اور قابل اعتبار سڑک رابطوں کے ذریعے باقی وادی سے جوڑا جائے گا تاکہ محرومی اور پسماندگی ختم ہو اور لوگ ترقی کے ثمرات حاصل کرسکیں۔