وہ بھی ایک زمانہ تھا جب اپنی یہ وادیٔ کشمیرخوراک کے پیداواری معاملے میں کم و بیش خود کفیل ہوا کرتی تھی اور اس خطہ میں آباد لوگوں کے لئےکھانے پینے کی تقریباً ساری چیزیں اپنی ہی سرزمین سے حاصل ہوجاتی تھیں۔ لیکن آج صورت حال نہ صرف اس کے بالکل برعکس ہوچکی ہےبلکہ اب تو وادیٔ کشمیرمیں رہنے والے لوگوںکے لئے ان سبھی چیزوں کا زیادہ انحصار ملک کی دوسری ریاستوں سے درآمدگی پر ہی ہے۔ حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اگرکسی بھی وجہ سے سرینگر جموں قومی شاہر اہ آمدرفت کے لئےدس پندرہ دن بند ہوجاتی ہے تووادیٔ کشمیر میں تقریباً سبھی کھانے پینے کی چیزوں کا قحط پڑجاتا ہےاورکہرام مچ جاتا ہے ۔ظاہر ہے کہ جہاں کی زرعی زمین دن بہ دن سُکڑتی چلی جارہی ہو،وہاں کی پیداواری صورت حال میں کمی آناایک فطری عمل ہے۔ جبکہ یہ بات بھی بالکل بجا ہے کہ انسانی آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ آبادی کا بھی پھیلائو ہوجاتا ہے،جس کے نتیجے میں رہائش گاہوں کی تعمیرات میں اضافہ ہونا بھی لازمی امر ہے۔اگرچہ ہر ادوار میں سرکاری طور پر علامتی طور زرعی اراضیات ، تعمیرات کے لئے استعمال پر پابندی عائد تو رہی ہے لیکن ہر ادوار میںسرکار کی ناک کے نیچے زرعی اراضیات پر تعمیرات کھڑے کرنا کا سلسلہ شدو مد جاری رہا ہے۔کئی بار ماہرین نے بھی انتباہ دیا تھا کہ کشمیر میں دیہی اور شہری علاقوںمیں زرعی اراضی پر رہائشی یا تجارتی تعمیرات کا سلسلہ کسی بھی وقت خطرناک صورت حال پیدا کرسکتی ہے لیکن کون تھا یا کون ہے جو ان باتوں پر دھیان دینے کی ضرورت محسوس کرتا۔یہی وجہ ہے کہ آج وادیٔ کشمیرکو جہاں پنجاب اور دیگر ریاستوں سے درآمد ہونے والے چاولوں اور گندم کے ایک ایک دانے کا محتاج رہنا پڑتا ہے۔وہاںزیادہ تر سبزیاں اور دیگر روز مرہ استعمال ہونے والی چیزیں بھی باہر سےہی لانا پڑتی ہیں۔بلاشبہ آبا دی کا پھیلائو بھی ایک بہت بڑا مسئلہ بن ہے،جو دن بہ دن بڑھتا چلا جارہا ہے۔اس صورتحال میں رہائشی مکانوں کی تعداد میں اضافہ ہونا بھی فطری امر ہے۔کیونکہ ہر کسی کو سَر چھپانے کیلئے اپنے گھر اور اپنےآشیانے کی ضرورت ہے ،اس لئےانہیں جہاں زمین ملی ،وہاں انہوں نےآشیانہ بنایا اور اپنے ان آشیانوں کے لئے زیادہ تر اپنے زرعی اراضی کا استعمال کیا گیا۔ حالانکہ جموں و کشمیر زرعی اصلاحات قانون اور جموں و کشمیر ریونیو ایکٹ کی صورت میں واضح قوانین موجود ہیں،جن کے تحت آبی اول زمین پر مکانوں کی تعمیر پر ممانعت ہے۔اس کے باوجود یہ مکان کیسے تعمیر ہوتے رہے اور ہورہے ہیں ،ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب دینے کی شاید کسی کو ضرورت ہی نہیں۔اپنے شہر سرینگر میں بھی جہاں جہاں کاشت کاری کی زمین تھی وہاں آج بڑی بڑی عمارتیں اور محل نما حویلیاں کھڑی ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوگی کہ جتنی جتنی زمین کم ہوتی جائے گی ،ہم اناج کے ایک ایک دانے کیلئے بیرون ریاست سپلائی کے محتاج بنتے جائیں گے اور اگر اس عمل کی رفتار یہی رہی تو وہ دن دور نہیں ہوگا،جب ہمارے پاس اپنی کوئی پیداوار نہ ہوگی بلکہ ہمیں بیرونی پیدوار پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔یہ انتہائی پریشان کن صورتحال ہے۔اس پالیسی سے جہاں ہماری معیشت تباہ ہوکر رہے گی وہیں ہماری خود انحصاری کا جنازہ نکلے گا کیونکہ زرعی معیشت کے سکڑتے اپنی اس وادیٔ کشمیر میں کوئی متبادل معیشت فروغ پذیر نہیں ہو پارہی ہے۔لوگوں کو اس بڑھتے ہوئے رجحان کے منفی پہلوئوںپر غور کرنے کی ضرورت ہے۔لوگ ضرور اپنے لئے آشیانے بنائیں، عالیشان مکانا ت تعمیر کروائیں،انہیں آرام سے زندگی بسرکرنے سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ایسا وہ اپنی آنے والی نسلوں کی تقدیرکو دائو پر لگا کر کریں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ رہائشی تعمیرات کے وقت اس بات کا خیال رکھا جائےکہ زرعی زمین محفوظ رہے اور زیادہ سے زیادہ بنجر زمین اور کاہچرائی ہی رہائشی مقاصد کیلئے استعمال ہو۔اس منصوبہ پر جتنی جلدی عمل کیا جاتا ہے ،اتنا ہی بہتر رہے گا ،ورنہ کسی بھی وقت اس کے بھیانک نتائج ہمیں بھگتنے پڑیں گے۔اگرچہ موجودہ دور میں بھی سرکاری طور پر زرعی اراضیات کو تعمیرات کے لئے استعمال کرنے پر پابندی عائد ہے لیکن ہر مسئلے اور ہرمعاملے کی طرح اس مسئلہ اوراس معاملہ بھی حکومتی اقدامات ہاتھی کے دانت کھانے کے اور اور دکھانے کے اور کے مصداق ہیں۔