ہمارا نظام تعلیم اور معلم

آج پوری دنیا کو جن مختلف پیچیدہ مسائل کا سامنا ہے، اُن کا مکمل حل نظام تعلیم کے اندر چھپا ہے۔ تعلیم کے میدان میں معلم کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ تعلیم و تدریس کا پیشہ ایک معزز اور قابل احترام پیشہ مانا جاتا ہے۔ سب سے پہلے خالق کائنات نے ہی انسان کے لئے اپنی شان کریمی کو بحیثیت معلم متعارف کرایا۔ اس سے انسان پر اللہ کے وہ احسانات آشکار ہو گئے جن کا بنی نواع انسان کو سدا احسان مند بن کر رہنا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی اللہ رب العزت نے اپنے محبوب نبی آخرالزمان حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم کو جب کار نبوت سے سرفراز فرمایا توقرآن کریم کی پہلی آیت مبارکہ "پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا" (العلق:1) کے مقدس الفاظ کو نازل فرمایا۔ تاکہ فرش پر انسانوں کی رہبری کے لئے علم کے ساتھ ساتھ ایک عظمت والا معلم بھی میسر ہو اور انہیں ظلمت کی اندھیریوں سے نکال کر نور حق کی طرف دعوت دی جائے تاکہ یہ انسان اپنے مالک، اپنے خالق اور اپنے معبود حقیقی کو پہچاننے میں زرا بھی بھول چوک نہ کرے۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ ’’مجھے (آپ صلعم) معلم بناکر بھیجا گیا ہے‘‘۔
تعلیم جیسے مقدس پیشہ کو حاصل کر کے اپنی خدمات بحسن خوبی انجام دینے کے لئے چند نمایاں خصوصیات کا ہونا اور ان کی مشق کرنا ایسے ہی لازم ہے جیسے کسی فن کے سیکھنے کے لیے اس کی عملی مشق ضروری ہوتی ہے۔ ایک کامیاب استاد وہی بن سکتا ہے جو اس فن کی عملی مشق بحسن خوبی انجام دے۔ تعلیم و تدریس جیسے مقدس پیشہ کے لیے محنت و مشقت، شوق و زوق کا ہونا، فطری صلاحیت کا بھر پور استعمال کرنا اور منصب کا احترام کرنا ایک لازمی امر ہے اور ان اوصاف کا پاس و لحاظ کر نے کے بعد ہی ایک استاد کامل معلم اور کامیاب مدرس کہلانے کا مستحق ہے۔ اس طرح معلم کے تجربات میں مزید اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے کار تدریس میں نکھار آجاتا ہے نیز جب وہ تدریسی خدمات انجام دینے چلے تو طلباء بلا کسی خوف کے اس سے خوب مستفید ہو جائیں اور وہ خود بھی علمی و روحانی لذت محسوس کر سکے۔ 
 تدریس جیسے مقدس مشن کو محنت، ایمانداری، سچائی، محبت، شفقت اور لگن سے انجام دینے پر ہی ایک اعلیٰ پایہ کا مشن بتایا گیا ہے۔ جس سے اعلیٰ طریقہ کار اور اعلیٰ اخلاق جیسے اوصاف سے انجام دیا جائے تو کھلتے ہوئے پھولوں کی طرح بچوں سے مہکتا ہوا ایک گلستان بنایا جاسکتا ہے۔ اور انہیں صحیح تعلیم دے کر بہتر سے بہترین انسان بنایا جاسکتا ہے جو سماج کیلئے باعث افتخار ثابت ہو سکتے ہیں۔ اساتذہ کرام کو ہمیشہ اعلیٰ ظرفی، خوش خلقی، بہترین ذہنی صلاحیت کا حامل ہونا چاہیے۔ صحیح فیصلہ سازی جیسے اعلیٰ قائدانہ صلاحیت سے طلباء کی نشوونما یقینی بنانی چاہیے۔  بہتر سے بہترین نتائج حاصل کرنے کے لیے مفید تدابیر، پیشہ ورانہ مہارت اور دیگر جدید ٹیکنیک کو اپنانا جانتا ہوں۔
آئے روز تعلیمی نظام کو اخباروں کی شہ سرخی بنے رہنے سے کئی اہم سوالات پیدا ہو چکے ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پیشہ وارانہ تدریسی عملہ میسر ہونے کے باوجود پرائیویٹ اداروں کے مقابلے میں نتائج نہ کے برابر ہیں۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ سرکاری اداروں کے بچوں میں تعلیمی فقدان پایا جاتا ہے جو ایک تشویشناک صورتحال پیش کر رہا ہے ؟ کیا ہم طلباء کی مارپیٹ، تذلیل، برے القاب سے پکار کر ان کی نقطہ چینی جیسے واقعات کے رونما ہونے سے سو فیصد خواندگی کی شرح حاصل کر سکتے ہیں؟ کوروناوائرس سے پیدا شدہ صورتحال کے تناظر میں آن لائن تدریسی عمل کی انجام دہی سے کیا طلباء فون فلیو کے شکار نہیں ہوئے ہیں ؟ کیا ہم کتابوں کے بوجھ سے آزادی حاصل کرنے کے ضمن میں عدالت عظمیٰ کے حکم نامہ کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں ؟ کیا ہم اپنے بچوں کا مستقبل ایسے اداروں میں روشن ہونے کا خواب دیکھ سکتے ہیں جہاں تعلیم کے روح سے ناآشنا اساتذہ تدریسی عمل انجام دے رہے ہیں ؟ کیا ہم اس طرح تعلیم کو اعلیٰ پیشہ مان سکتے ہیں؟ جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے رجحان میں کیا استاد باپ کے مقام کے برابر کا حامل کار اپنے آپکو ثابت کر سکتا ہے ؟ کیا ہم تعلیمی اداروں کو تربیت گاہ بنانے میں ناکام ہوئے ہیں ؟ کیا ہم عصر حاضر کے مقابلہ جاتی زمانہ میں تدریسی عمل میں طاقت کا استعمال کر کے ہدف حاصل کرسکتے ہیں؟
یہی وہ چند سوالات ہیں جنہوں نے ہنستے و کھلتے معصوم طلباء کے ذہن کو بجائے تعلیم کے تجارت میں بدل دیا ہے۔ محکمہ تعلیم کے تمام ذمہ داروں ، ماہرین تعلیم، دانشوروں، فلاسفروں، وکلاء و دیگر سرکردہ انجمنوں کو آگے آکر اس ضمن میں ٹھوس اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مستقبل میں تدریسی عمل کے دوران آنے والے مشکل ترین مسائل کا حل نکالنے کے لئے تربیت دے دینی چاہئے۔ 
تعلیم سے وابستہ ہر ایک استاد کو اپنے اندر ان تمام اوصاف کو جمع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو ایک کامیاب اور بہترین استاد بننے کے لیے ضرورت ہوتی ہیں۔ استاد قوم کا معمار ہوتا ہے۔ وہ قوم کو بنانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کر کے مستقبل کو تابناک بنا سکتا ہے۔ اس سے اس بھروسے کو کبھی کھونے نہیں دینا چاہیے اور قوم کو جو اس سے توقعات وابستہ ہیں انہیں برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے   ؎
مدرس قوم کی بنیاد کا معمار ہوتا ہے
 مدرس علم کا اخلاق کا مینار ہوتا ہے
ماہرین تعلیم کو اس بات پر مستحکم یقین ہے کہ اگر معلم ان تمام اوصاف کو اپنا کر تعلیم و تدریس انجام دے سکیں، تو معلم اور تعلیم کے معیار کو کافی حد تک بڑھایا جا سکتا ہے اور ساتھ میں طلباء کا مستقبل بھی روشن بنایا جا سکتا ہے۔ 
ہمیں یہ بات ذہن میں ضرور رکھنی چاہیے کہ اگر خدانخواستہ ہماری لاپرواہیوں اور کوتاہوں سے ہمارے تعلیمی اداروں کا معیار تعلیم پست ہوا اور ہمارے بچے تعلیم سے منحرف ہوئے تو ہمیں ان کے بہترین مستقبل کا خواب دیکھنا چھوڑ دینا ہو گا۔ ہمیں ایسے اساتذہ کرام کو قابل احترام سمجھنا چاہیے جو قابل تعریف اور قابل ستائش خدمات انجام دے رہے ہیں اور انہیں وقتاً فوقتاً حکومتی سطح پر ایمانداری و منصفانہ انداز میں نشاندہی کر کے انعامات سے نوازا جانا چاہئے تاکہ ان کے حوصلے ہمیشہ بلند رہیں۔
ہمیں اپنے تعلیمی اداروں کے نظام کو ان کے رتبہ، ان کے قوانین اور طلباء و اساتذہ کے مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے اعلیٰ سے اعلیٰ بنانا چاہیے، تاکہ ہمارا تعلیمی نظام جدید عصری تقاضوں اور حالات و واقعات سے نپٹنے میں کارآمد ثابت ہو۔ اور طلباء کو مستقبل میں درپیش آنے والے مسائل کا بآسانی حل ڈھونڈنے میں مدد فراہم کرتی ہو۔ بد اخلاقی کو قابو کرنے کے ساتھ ساتھ ماحول کے توازن کو برقرار رکھنے میں کارگر ثابت ہو۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح نت نئے ایجادات، تجربات اور تحقیقات کے کاموں میں مشغول عمل رہ کر ملک کی سالمیت، بھائی چارگی، ترقی، خوشحالی، بہبودی اور امن کی راہ کو ہموار بنانے پر گامزن ہو۔
اس طرح سے ہم تعلیمی پسماندگی سے نکل کر نئے اہداف و مقاصد، نئی راہ، نئے خوابوں کو سجا کر روشن مستقبل کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ ہمیں تعلیمی اداروں کو قتل گاہ بننے کے بجائے تربیت گاہوں میں تبدیل کرنے کی پہل کرنی ہوگی۔ دنیا کے دیگر ممالک سے سبقت لیتے ہوئے اپنے ملک کو تمام شعبوں میں آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرنا چاہئے۔ اقوام عالم کے تمام انسانوں کو انسانیت کے مقدس پیغام سے آراستہ کرانا چاہئے۔ دنیا میں جنگی ہتھیاروں کی عام فراہمی و کھلی نمائش کرنے کے بجائے پوری دنیا کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا چاہئے۔  جو ایک باضمیر ذی حس انسان کی طرف سے سب سے بڑا عطیہ ہو سکتا ہے۔ سورج کی طرح دوست و دشمن، شہر و دیہات، صحرا و بیابان، جنگلوں و کوہستانوں، ویرانوں و آبشاروں کو علم کے نور سے منور کر کے بنجر زمین کو زرخیز بنانا ہوگا۔ زندگی کو شمع کی طرح دوسروں کی فلاح و بہبودی کے لیے صرف کرنا اپنا ہدف و مقصد ہونا چاہئے۔ اپنے ساتھ ساتھ دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کامیاب و کامران دیکھنا اپنا مشن ہونا چاہئے یہی تو معلم اور نظام تعلیم کی روح ہے۔
رابطہ۔ہاری پاری گام ترال 
فون نمبر۔ 9858109109