قومیں اپنے اجتماعی رویے سے پہچانی جاتی ہیں۔ کسی قوم کے اجتماعی رویے میں تہذیب اور بلند اخلاقیات اْس وقت منعکس ہوتی ہیں جب شرحِ خواندگی بلندیوں کو چھو رہی ہو اور اساتذہ کی اخلاقیات بھی اعلی درجے کی ہوں۔ بدقسمتی سے تاحال ہمارے یہاں یہ دونوں ہی روبہ زوال ہیں جس کی وجہ سے ہمارے اجتماعی رویے شرمناک حد تک خراب ہیں۔آج کے اسِ کرونائی عہد میں بھی جب جب لاک ڈاون اٹھایا جاتا ہے تو کیا ہم مصروف بازاروں میں بھیڑ بھار کرنے سے پرہیز کرتے ہیں؟ لائن بنا کر مسافر بس میں سوار ہوتے ہیں؟جہاں کہیں بھی پبلک بیت الخلا (ٹوائلٹس )ہیں،کیا ان کی صفائی اطمینان بخش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں؟کرونا کی وبائی بیماری سے بچنے کے لئے احتیاتی تدابیر پر عمل کرتے ہیں؟ اس وقت بھی گھروں میں کھانا ضائع نہیں کرتیہیں؟ استاد اورامام کو حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ہیں؟ چلتی گاڑی سے سڑک پر کوڑا نہیں پھینکتے ہیں؟ بجلی کی چوری نہیں کرتے ہیں؟ پینے کے پانی کی قلت کے باوجود پانی کا زیادہ تر حصہ ضائع نہیں کرتے ہیں؟کیا پورا ناپ تول ہمارا شعار ہا ہے؟اورکیا ہمیں ملاوٹ سے نفرت ہے؟یہ کچھ ایسے سوالات ہیں جن کا کوئی بھی مثبت جواب ہم دے نہیں پارہے ہیں۔
ظاہر ہے کہ جب کسی معاشرے میں اجتماعی رویے خطرناک حد تک بگڑ جا تے ہیں تو وہاں اخلاقی زوال شروع ہوجاتا ہے جو جلد یا بدیر مکمل تباہی پر منتج ہوتا ہے۔عید الاضحی کے موقع پر بطورِ مسلمان ہمارے لئے ایک اہم اجتماعی رویے کا امتحان ہوتا ہے،اس مبارک موقع پر نمازِ عید کے بعد طول و عرض میں قربانیوں کا عمل شروع ہوتا ہے جو 3 دن تک جاری رہتا ہے لیکن قربانی کے جانوروں کی گندگی اور آلائشوں سے تعفن اٹھنے کا سلسلہ کئی ہفتوں تک چلتا رہتا ہے۔ لوگ اپنے جانوروں کی غلاظتوں کو ذمہ داری سے ٹھکانے لگانے کے بجائے گلی محلے کی نکڑ پر گلنے سڑنے کے لیے ڈال دیتے ہیں جس سے نہ صرف گندگی و تعفن پھیلتا ہے بلکہ ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے، بیماریاں پھیلتی ہیں اور گلی، محلے، شہر کی خوبصورتی بھی خراب ہوتی ہے اور یہی کچھ اس با ر بھی کورونا کی عالم گیر لہرکے بیچ بھی ہوا۔
یہ ہمارا وہ بدترین اجتماعی رویہ ہے جسے سدھارنے میں ہمارے پیارے نبی ؐ کا یہ فرمان بھی ہم پر اثر نہیں کرتا کہ ’صفائی نصف ایمان ہے‘ جس کا اطلاق انفرادی و اجتماعی صفائی کے ہر شعبے پر ہوتا ہے لیکن ہم ہیں کہ ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ صفائی ستھرائی پر مامور ادارے و سرکاری ہرکارے جہاں اپنے کام میں سستی کرتے دکھائی دیتے ہیں وہیں عوام الناس کی طرف سے بھی صفائی کی انفرادی کوششوں کا شدید فقدان نظر آتا ہے۔ لہٰذا ہم یہاں انتظامیہ سے صفائی کے اچھے انتظامات کا تقاضا کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور عوام کے کردار پر بحث کرتے ہیں کیونکہ اصل میں عوام ہی تبدیلی کا سرچشمہ ہیں۔اگرچہ بنیادی طور پر یہ سرکاری اداروں اور اہلکاروں کی ہی ذمہ داری ہے کہ عید الاضحٰی کے موقع پر صفائی کے انتظامات کو یقینی بنائیں لیکن اس حوالے سے عوام الناس بھی بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔
عوام کے لئے یہ لازمی ہے کہ جس اہتمام سے انہوں نے قربانی کے جانور خریدے تھے،، اس کی خدمت سیوا کرتے رہے، قربانی کے لیے قصائی کا بندوبست کیا تھا، گوشت بانٹنے ، پکا نے ،کھلانے اور کھانے کا انتظام کیا تھا ، اسی اہتمام سے قربان کیے گئے جانوروں کی آلائشوں اور گندگی کو ٹھکانے لگانے کے لیے بھی انتظام کرتے۔ سب جانتے ہیں کہ قربانی کے جانوروں کی کوئی چیز ضائع نہیں کی جاتی اور آلائشوں کو مفت میں اٹھا کر لے جانے والے باآسانی مل جاتے ہیں۔بدقسمتی کی بات ہے کہ عید الاضحیٰ کے موقع پر بیشتر لوگ ان باتوں سے بے خبر رہے اور اپنی ذمہ داری دکھانے کی کوشش نہیں کی ہے۔ زندگی کے اور کتنے ہی معاملات ایسے ہیں جن میں ہم صرف سرکاری اداروں پر تکیہ کرنے کے بجائے ذاتی حیثیت میں کوشش کرکے اپنا اور دوسروں کا بھلا کرسکتے ہیں۔ بیشتر لوگ ان چیزوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس حوالے سے بھی انفرادی کوشش کو اپنا فرض نہ سمجھے۔حالانکہ یہ اْن کی گلی، اْن کا محلہ، اْن کا علاقہ اور اْن کاا ہی شہر ہے۔