سرینگر //تصدق حسین نے کہا ہے کہ وادی کشمیر میں ان کی جماعت کو مکمل تباہ کرنے اور اسے جڑ سے اکھاڑنے کے لئے منصوبہ بند ڈھنگ سے کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ موجودہ حالات کے بارے پی ڈی پی کے نظریات کو پوری طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے، کشمیری نوجوانوں میں پائے جانے والے غم و غصہ کوٹھنڈا کرنے کے لئے جامع قدم اٹھائے جانے کی ضرورت ہے ۔ انڈین ایکسپریس کے ساتھ بات چیت کے دوران تصدق مفتی نے کہا کہ ’پی ڈی پی ایجنڈا آف الائنس لاگو کرنے کیلئے وعدہ بند ہے ‘۔انہوں نے کہا کہ اس سارے تنازعہ میں صرف ایک فریق ایسا ہے جس کی بات نہیں سنی جا رہی ہے اور وہ ہیں عوام۔ پورا نظام درہم برہم ہو گیا ہے اور دہلی میں جموں کشمیر سرکار کی قدر و قیمت شاید بہت ہی کم ہے۔انہوں نے کہا کہ مرکز کو کشمیر میں مذاکرات کی بحالی جیسے اعتماد سازی کے اقدامات کو آگے بڑھانے پر اختیار کی گئی خاموشی کو توڑنا ہوگا۔ ’ہم اپنے طور پر یہ سب نہیں کر سکتے ہیں ، جس مشترکہ ایجنڈا پر ہمارا اتفاق ہوا تھا یہ اقدامات اس کا لازم جز ہیں۔ حال ہی میں جب میں نوجوان طبقہ سے ملا تو ان میں سے بیشتر مایوسی کے عالم میں تھے۔ انہیں مستقبل میں کچھ نظر نہیں آرہا،ایسا کچھ نہیں ہے جس پر وہ اطمینان اور مسرت کا اظہار کر سکیں ۔ سیاسی مسئلہ جوں کا توں ہے جو سارے مسائل کی بنیاد ہے ، لیکن اس کے ساتھ ہی ان کے پاس روزگار کے مواقع نہیں ہیں، بے روزگاری کے مسئلہ سے نپٹنے کے لئے پچھلے ان برسوں میں کوئی منظم کوشش نہیں کی گئی۔ معیار زندگی کو بہتر بنانے کیلئے کوئی سوچ نہیں ہے ، لوگوں کے اصل مسائل کیا ہیں، انہیں جاننے کی کوشش نہیں کی جا رہی بلکہ صرف وقتی حل تلاش کر کے وقت گزارا جا رہا ہے ۔ اور اس کے اثرات سب پر ظاہر ہیں‘‘۔انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں کچھ سوالات براہ راست بھی کرنے ہوں گے، ہمیں دریافت کرنا ہوگا کہ فائرنگ میں اتنی بڑی تعداد میں نوجوان ہلاک یا زخمی کیوں ہو رہے ہیں؟ امن و قانون قائم رکھنے کے لئے ذمہ دار حکام اس صورتحال سے بچنے کیلئے کوئی متبادل کیوں تلاش نہیں کر پائے؟ عوامی حلقوں میں وائر ل ہونے والے لرزہ خیز ویڈیودیکھ کر رونما ہونے والی ہر ہلاکت پر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ہر معاملہ کی غیر جانبداری سے تحقیقات ہونی چاہئے اور قصور وار پائے جانے پر ملزمان کو ان کے جرم کی سزا دی جائے۔ حالات کے اس حد تک خراب ہونے کیلئے اہم پوسٹوں پر بیٹھے حکام کو ذمہ دار قرار دیا جائے۔ ایک ہلاکت ہوتی ہے تو اس کے رد عمل میں مظاہرے ہوتے ہیں جس کے نتیجہ میں مزید ہلاکتیں ہو جاتی ہیں اور اس طرح ایک سلسلہ چل نکلتا ہے ، لیکن ہم عمل در ردعمل کے اس سلسلہ کو جاری رکھنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔میں سمجھتا ہوں کہ ہم ایک ہی چشمہ سے کشمیر ی عوام اور بالخصوص نوجوان طبقہ کو لاء اینڈ آرڈر کے مسئلہ کے طور پر نہیں دیکھ سکتے ،اس کے لئے ایک جامع منصوبہ بندی کرنا لازم ہے ۔ ہمارا واسطہ ایک بیدار مغز، حساس، سیاسی اور تکنیکی طور پر ہوشیار نسل کے ساتھ ہے ، انہیں دھونس یا چالاکیوں سے نہیں بہلایا جا سکتا، ہمیں اخلاص نیت سے انتظامی سطح پر کوشش کرنا ہوگی، ہر سطح پر مواقع پید ا کرنے اور گورنینس کو بہتر بنائے جانے کی ضرورت ہے ۔ مسئلہ کو مزید پیچیدہ بنانے کے بجائے اسے سلجھانے کے لئے ٹھوس کوشش کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ میں سیکورٹی فورسز سے ایک سیدھا سوال کرنا چاہتا ہوں۔ پچھلے چند روز کے دوران جو ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں انہیں دیکھ کر میں تذبذب میں پڑ گیا ہوں۔ لگتا ہے کہ ان میں سے چند ایک فورسز نے خود بنا کر سوشل میڈیا پر لوگوں کو دکھانے کے لئے اپ لوڈ کئے ہیں۔ اس کی اجازت کس نے اور کیوں دی؟ اگر کسی اہلکار نے یہ اپنے طور پر کیا ہے تو گھمبیر ڈسپلن شکنی ہے، اور اگر یہ سب طے شدہ طریقہ سے کیا گیا ہے تو یہ اور بھی سنگین مسئلہ ہے ۔ ہم جاننا چاہیں گے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے ، کیوں کہ کشمیری نوجوانوں کی توہین، بد سلوکی اور ان پر حد درجہ تشدد کے ویڈیو فلما کر غیر قانونی طور پر سوشل میڈیا پر لوڈ کرنا ، اگر چہ وہ مظاہرین اور پتھر باز ہی کیوں نہ ہو، انتہائی منفی نتائج کا حامل ہے ۔ اس کے ریاست میں مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اس سے نہ صرف زمینی سطح پر ہماری اعتمادیت اور وقار مجروح ہوتا ہے بلکہ عوام میں غم و غصہ کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قسم کی اشتعال انگیزیاں کشمیر میں آگ کو مزید ہوا دیں گی۔ انکا کہنا تھا کہ تشدد میں ہوئے حالیہ اضافہ کیلئے ہماری حکومت کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا، میں اپنے سر سے بلا نہیں ٹال رہا، لیکن ہم متواتر الیکشن کمیشن کو مطلع کرتے رہے کہ کشمیر میں ضمنی انتخابات کے لئے ماحول سازگار نہیں ۔ہم نے مرکزی سرکار اور الیکشن کمیشن پر واضح کر دیا تھا کہ اگر وہ انتخابات پر مصر رہتے ہیں تو تشدد ہوسکتا ہے اور پولنگ کی شرح شرمناک حد تک کم ہوگی، لیکن انہوں نے اس پر کان نہیں دھرا۔ اور نتیجہ کار سرینگر لوک سبھا حلقہ کے ضمنی انتخاب کے دوران عین وہی سب ہوا، 8قیمتی انسانی جانیں تلف ہو گئیں۔ سرینگر کے بعد جنوبی کشمیر میں بڑے پیمانہ پر تشدد اور مظاہروں کا ہونا قدرتی امر تھا اس لئے الیکشن کمیشن نے الیکشن موخر کرنے کا فیصلہ کیا۔ حالانکہ ہم نے لکھا ہے کہ حالات انتہائی نازک ہیں اس لئے انتخابات غیر معینہ عرصہ کیلئے ملتوی کر دئیے جائیں ، لیکن اسی شام کو الیکشن کمیشن نے ایک نئی تاریخ ؛25مئی کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے زمینی حالات کا مشاہدہ کرنے کے لئے ایک ٹیم بھی روانہ کرنے کی زحمت نہیں کی۔