ہستیٔ محروم

ہیں نہیں آزادؔ و عابدؔ اور ہیں محروُمؔ اب
ہیں کِتابِ عصرِ نَو میں نقش یہ مرحوُم اب
ہو مُبارک آپ کو ہی رونقِ بزمِ حیات
واسطے اپنے یہ مطلق ہو گئی معدوم اب
بعدِ مردن کون رکھتا ہے بھلا رشتوں کو یاد
کون ہوتا کِس کی خاطر دوستو مغموم اب
جیتے جی رُقعۂ مُشفق سے رہے محروم ہَم
بعد مردن آ رہے ہیں سینکڑوں مرقوم اب
زلف و عارض کے اسیروں کی یہ حالت الاماں
کوستے رہتے ہیں اکثر اپنا ہی مقصوم اب
کم نگاہی کے سبب ہم نے کبھی سوچا نہیں
ہیں شکارِ گردشِ دوران ہم معصوم اب
زندگی کی ابتداء اور انتہا ہوتی ہے کیا
کر رہے ہیں دوستوں سے دوست یہ معلوم اب
یہ تِرے ذوقِ تجسّس کا مِلا آخر صلہ
ہو گئے ہستی سے اپنی آپ ہی محروم اب
ہے دلِ عُشّاقؔ میں اتنی مگر حسرت ہنوز
دیکھنا چاہتا ہوں پھر سے ریختہ کی دھوُم اب
 
عُشّاق ؔکِشتواڑی
صدر انجُمن ترقٔی اُردو (ہند) شاخ کِشتواڑ
رابطہ؛ 9697524469