ہزاروں نفوش پر مشتمل گاگرہ کلی مستی کی آبادی بنیادی مسائل سے دوچار

 گول//جہاں ایک طرف سے مرکزی سرکار یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ 200والے آبادی گائوں کو سڑک کے ذریعے شہر کے ساتھ جوڑا جا رہاہے لیکن زمینی سطح پر کچھ ایسے بھی ہزاروں نفوس پر مشتمل گائوں ہیں جو ابھی بھی سڑک کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ۔ ضلع رام بن کے سب ڈویژن گول سے تعلق رکھنے والی پنچایت گاگرہ کلی مستا جو چار گائوں ،ہارہ ، کلی مستا ، گاگرہ اور گنڈی پر مشتمل ہے ہزاروں آبادی پر مشتمل یہ گائوں بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ۔ 20سال قبل جمن گاگرہ گیارہ کلو میٹر لمبی سڑک پر پی ایم جی ایس وائی کی جانب سے تعمیری کام شروع ہوا تھا لیکن یہ کام بیس سال گزرنے کے با وجود پائیہ تکمیل تک نہیں پہنچا ۔ سڑک کی ابھی تک صرف زمینی کٹائی ہوئی ہے وہ بھی جہاں تک ٹینڈر ہوئے تھے وہاں ابھی کا بقایا ہے ۔ اس گیارہ کلو میٹر سڑک میں کئی جگہوں پر پل آتے ہیں جن میں ہارہ ، گوڈری کلی مستا ، کلی مستا اور گاگرہ شامل ہیں لیکن ابھی تک اس سڑک کی کٹائی صرف کلی مستا کے آخری سرحد تک پہنچی ہے گاگرہ کے ساتھ ابھی بھی یہ سڑک نہیں ملائی ۔ اگر چہ مقامی لوگوں کے وفود کئی مرتبہ سکریٹریٹ ، ضلع دفتر رام بن ، ایس ڈی ایم گول و دیگر اعلیٰ حکام کے دہلیز تک پہنچے لیکن کسی نے ان کی ایک بات نہیں سنی ۔ مقامی لوگوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہزاروں آبادی کو سرکا رنے یر غمال بنا کر رکھا ہے ۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ سرکار دعویٰ کر رہی ہے کہ ڈیجیٹل انڈیا بنانے جا رہی ہے لیکن آج بھی یہاں کی عوام قدیم زمانے کی زندگی بسر کر رہی ہے ۔ پندرہ بیس کلو میٹر پہاڑی کی چٹانوں کے سخت ترین اوردشوارگزار پکڈنڈیوں پر گزر کر یہاں کے لوگ سفر کرتے ہیں ۔ گھروں سے صبح نکلتے ہیں اور شام کو واپس گھروں کو واپس راشن وغیرہ لے کر پہنچتے ہیں ۔ ایک چھوٹی سی چیز لانے کے لئے پورا دن گزر جاتا ہے ۔ قدیم زمانے کی طرح زندگی گزارنے والے لوگوں نے ابھی تک صرف ایک بجلی کی بنیادی سہولیت دیکھی ہے جبکہ باقی تمام سہولیات سے یہاں کی عوام محروم ہے ۔ اگر باقی تعمیرات کی بات کریں وہ بھی زمینی سطح پر نا کے برابر ہیں ۔ محکمہ صحت ہو یا دوسرے محکمے تمام کے تمام محکموں سے یہ لوگ محروم ہیں اور کسی قسم کی سہولیات یہاں کی عوام کو نہیں پہنچتی ہے ۔ اس گیارہ کلو میٹر پی ایم جی ایس وائی کی سڑک کے علاوہ پیدل جس پکڈنڈی سے یہ لوگ اپنی منزلوں تک پہنچتے ہیں بارشوں کے دوران انہیں وہاں بھی کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ گول سے آستان مرگ تک مہا راجہ کے دور کی پکڈنڈی پر کئی جگہوں جن میں گوبلا ، چنا ، چنا نمبر دو گنڈی میں تین بڑی ندیاں آتی ہیں جو بارشوں کے دوران اوفان پر ہوتی ہیں جبکہ چنا سب سے بڑی ندی ہر وقت اس میں پانی کا کافی بھائو رہتا ہے انسان کو اس کے بیچ میں چلنا کافی مشکل ہے ۔ قریباً دو سال قبل اس چنا ندی پر پل گر گیا اور ابھی بھی یہ پل لٹکتا نظر آ رہا ہے کسی بھی انتظامیہ نے یہاں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت نہیں سمجھی ۔ اگر چہ ضلع ترقیاتی کمشنر رام بن ، ایس ڈی ایم گول و دوسرے ذمہ داروں کو اس بارے میں کئی مرتبہ مطلع بھی کیا تھا لیکن علاقے کے لوگوں کی اس داد رسی کی طرف کسی نے کوئی توجہ نہیں دی ۔ ’’بیک ٹو ولیج ‘‘میں پروگراموں کے دوران بھی اس پنچایت کا یہی مطالبہ رہا ہے کہ علاقے کوسڑک کے ساتھ جوڑا جائے اور ان ندیوں پر پلوں کی تعمیر پر کام شروع کیا جائے لیکن ابھی تک کوئی پیش رفت دکھنے کو نہیں مل رہی ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکار کو چاہئے کہ وہ دوسو سے زیادہ آبادی والے علاقے کو سڑک کے ذریعے شہر کے ساتھ ملانے والے اپنے دعوے کو زمینی سطح پر ٹھوس بنانے کی کوشش کرے تا کہ سرکار پر لوگوں کا بھروسہ بھر پور قائم رہے اور لوگوں کے ساتھ دھوکہ نہ ہو ۔