حال ہی میں عالمی سطح پر دو اہم بیانات سامنے آئے اور دونوںکا تعلق کورونا وائرس سے ہی تھا ۔ایک پالیسی بیان اقوام متحدہ کی جانب جاری کیاگیا جس میں خبردار کیا گیا کہ کورونا وائرس کی وبا کے ساتھ ساتھ دنیا میں ذہنی صحت کا بحران بھی جنم لے چکاہے ۔اقوام متحدہ کے مطابق کورونا وائرس کی وبا فرنٹ لائن طبی عملے سے لے کر اپنی نوکریاں کھونے والوں اور یا اپنے پیاروں کے بچھڑنے کا غم سہنے والوں سے لے کر گھروں میں قیدرہے بچوں اور طالب علموں تک، سب لوگوں کے لیے ذہنی دباؤ اور کوفت کا باعث بنا۔دوسرا بیان اقوام متحدہ کے ہی صحت سے متعلق سؤیزر لینڈ میں قائم ذیلی ادارہ عالمی ادارہ صحت کا تھا۔عالمی ادارہِ صحت یاڈبلیو ایچ او نے بھی خبردار کیا ہے کہ ممکن ہے کہ کووڈ 19 ویکسین آنے کے بعد بھی ختم نہ ہو اور مزید ایک سال تک کم ازکم یہ وبا کہیں جانے والی نہیں ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ہنگامی حالات کے شعبے کے ڈائریکٹر مائیکل رائن نے ایک ورچوئل پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ وائرس ہماری کمیونٹی میں ایک وبا ء بن جائے اور ہو سکتا ہے کہ یہ وائرس کبھی ختم نہ ہو ۔ ایچ آئی او اور خسرہ کی مثالیں دیتے ہوئے مائیکل رائن کا کہنا تھا کہ ان بیماریوںکے ویکسین موجود ہیں لیکن بیماریاں ختم نہ ہوئیں اور اسی طرح اب جبکہ کورونا کیلئے ویکسین بن بھی چکی ہے توبھی وائرس پر قابو پانے کیلئے انتہائی بڑے پیمانے پر کوششوں کی ضرورت ہو گی ۔ یہ دونوں بیانات نہ صرف غور طلب ہیں بلکہ انکے تناظرمیں فوری اور ہنگامی نوعیت کے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔اس بات سے کسی کو انکار نہیںکہ کورونا نفسیاتی مسائل بھی لیکر آیا ہے اور یقینی طور پرذہنی صحت کا نظام بگڑ چکا ہے کیونکہ نفسیاتی تنائو اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اب لگ بھگ ہر کوئی فی الوقت عارضی ڈپریشن میں مبتلا ہوچکا ہے ۔ایک طرف موت کا ڈر اور دوسری جانب غم روزگار ۔یہ وہ دو بڑے مسائل ہیں جنہوںنے پوری عالم انسانیت سمیت کشمیری سماج کو بھی نفسیاتی مسائل کے اتھاہ سمندر میں دھکیل دیاہے اور اگر فوری اقدامات نہ کئے گئے تو نفسیاتی مسائل کی صورت میں کورونا کے بعد ایک اور طوفان ہمیں اپنا تر نوالہ بنانے کیلئے تیار ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں کورونا کے ہوتے ہوئے ذہنی صحت کی جانب بھی اپنی توجہ مبذول کرنی ہے اور ہنگامی بنیادوں پر انسانوںکی ذہنی صحت کو بگڑنے سے بچانا ہے تاکہ ڈپریشن اور دیگر نفسیاتی علائم کی صورت میں ایک اور خاموش طوفان ہمیں ختم نہ کردے۔اب جہاں تک کورونا ویکسین اور ا سکے دائمی رہنے سے متعلق انتباہ کا تعلق ہے تو یہ بھی حقیقت پسندانہ ہی لگ رہا ہے ۔کورونا کے ویکسین آچکے ہیں اور ٹیکہ کاری کا عمل کئی ممالک میں شروع بھی ہوچکا ہے لیکن پھر بھی ہم کورونا وائرس کو شاید مکمل طور شکست نہیں دے سکتے ہیں۔ہم بھی جانتے ہیںکہ کئی بیماریوںکے ویکسین دستیاب ہیں لیکن وہ بیماریاں پھر بھی انسانی سماج میںموجودہیں اور جہاں تک کورونا وائرس کا تعلق ہے تو ہوسکتا ہے کہ یہ بھی کسی دوسری شکل میں ہمارے سماج میں زندہ رہے ۔کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں ہمارا سب سے بڑ ااپنا مدافعتی نظام مضبوط بنانا ہے۔جتنی ہماری قوت مدافعت مضبوط ہوجائے گی ،اتناہی ہم کورونا جیسے وائرس سے لڑنے کی صلاحیت حاصل کرسکیں گے۔اس صورتحال کا دوسرا پہلو بھی ہے جو براہ راست اقوام متحدہ کی تنبیہ یعنی ذہنی صحت سے جڑا ہو اہے۔عالمی ادارہ صحت کی تنبیہ ہے کہ کورونا وائرس کا خاتمہ شایدکبھی ممکن ہی نہ ہو،یعنی جس طرح گزشتہ کچھ عرصہ سے ہم کہتے آرہے ہیں کہ ہمیں کورونا وائرس کے ہوتے ہوئے جینے کا ہنر سیکھ لینا ہے ،ایسا ہی کچھ عالمی ادارہ صحت بھی اشارہ د ے رہا ہے ۔اگر فی الوقت نفسیاتی امراض بڑھ چکے ہیں تو اس کی بڑی وجہ بے کاری اور تنگ دستی کے علاوہ غربت و افلاس ہے ۔ان انتباہی بیانات کی روشنی میں ہمیں پوری احتیاط کے ساتھ اپنے روز مرہ کے معمولات جاری رکھنے چاہئیں۔یہ جنگ بڑی طویل ہے اور ایسا نہیں لگ رہاہے کہ مستقبل قریب میں کورونا وائرس کے مکمل خاتمہ کا کوئی امکان ہے ۔اس صورتحال میں ہمیں اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھنے کی بجائے اپنے آپ کو اس جنگ کیلئے تیار کرنا ہوگا۔ہمیں چاہئے کہ ہم ایک دوسرے کو زندگی جینے کے ایک نئے سلیقہ کیلئے تیار کریں اور ایک دوسرے کو سکھائیں کہ کس طرح کورونا وائرس کی انسانی سماج میں مسلسل موجودگی کے باوجود ہمیں زندگی کے معمولات بھی چلانے ہیں۔ گوکہ بنیادی ذمہ داری حکومتوںکو نبھا نی ہے تاہم ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے عوام پر بھی لازم ہے کہ وہ حکومتی کوششوں میں معاون بنیں اور اس امر کو یقینی بنائیں کہ کورونا ٹیکہ کاری کا مشن بھی چلتا رہے اور اس دوران ہم بے احتیاطی سے گریز کرکے تمام احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا رہیںکیونکہ کورونا ایک مرتبہ پھر بے لگام ہونے لگا ہے۔
ہر حال میں احتیاط ناگزیر!!
