زندگی کے سفر میں وہ مسافر اپنی روداد رقم کرتا تھا۔ کبھی کہانی، افسانہ اور کبھی ڈرامہ تخلیق کرتا تھا۔ کبھی وہ اپنے ذاتی کتب خانہ میں اپنے دردِ جگر کا علاج تلاشتا تھا۔ لوگ اُس کو تخلیق کار کہتے تھے، اُس نے اپنے نام عزیز کے ساتھ اُداسؔ تخلص جوڑا تھا۔ اسی قلمی نام سے وہ مشہوربھی ہوا۔
اُداس کی عادات نرالی تھیں۔ تنہایاں اس کو بھاتی تھیں اور خموشیوں کے ساتھ اُسے گہرا لگائو تھا۔ چائے ،کافی اور سگریٹ کا متوالا تھا۔ اپنے بیوی بچوں پر بھی خوب دولت اُڑاتا تھا۔ لیکن وہ بیوی کا کبھی نہ بن سکا! جب بھی کوئی اُن کی بیوی سے اُن کے بارے میں کچھ پوچھتا تو بیوی جی بات کو ٹالتی تھیں!
لوگ اُداس صاحب کی تخلیقیت سے بے حد متاثر تھے اور اُسے بحیثیت تخلیق کار ملک کے اندر اور باہر جانا پہچانا جاتا تھا۔ سمیناروں، ورکشاپوں اور ادبی محفلوں میں شرکت کے لئے انہیں ملک کے کونے کونے سے مدعو کیا جاتا تھا۔ گوکہ اپنے شوہر نامدار کے بڑا ادیب ہونے کا احساس ان کی بیوی کے دل کے تہہ خانہ میں کہیں نہ کہیں ضرور موجود تھا لیکن خدا جانے وہ اس کا اظہار کرنے سے کیوں کتراتی تھی! وہ اپنوں میں اپنے شوہر کی کیوں تذلیل کرتی تھی؟ جب بھی اُداس صاحب کی کوئی نئی کتاب مارکیٹ میں آجاتی تھی، جہاں لوگ اُنہیں بڑھ بڑھ کر مبارکباد دیتے تھے وہیں بیوی اُنہیں برا بھلا کہنے پر اترآتی تھی۔
اُداس صاحب صبر کا مجسمہ تھے۔ اس لئے وہ سب کچھ برداشت کرلیتے ۔ وہ ہر بار اپنی بیوی کی تند مزاجی کو نظر انداز کرجاتے تھے۔
اُس دن جب شام کو اُن کی بیوی ٹی وی دیکھ رہی تھی تو یہ خبر آگئی کہ ’’آج ماربل ہوٹل میں وادی کے مشہور و معروف افسانہ نگار اُداسؔ صاحب کی تازہ تصنیف ’ہجرت‘ کی رسم رونمائی انجام دی گئی۔تقریب میں سرکردہ ادباء نے شرکت کی اور اُداس ؔ صاحب کو ایسی تصنیف کے لئے مبارکباد دی‘‘۔
خبر سنتے ہی بیوی جی کے گال سرخ ہوگئے۔ غصے سے اُس کے دانت بجنے لگے ، وہ کپکپاتے لہجے میں اپنے شوہر سے بولی
’’کب تک تم اُس طرح کتابوں پر پیسہ برباد کروگے؟‘‘
’’عبادت پر جو پیسہ خرچ کیا جاتا ہے، وہ ضائع نہیں ہوتا ہے‘‘ اُداسؔ صاحب نے نرم لہجے میں جواب دیا۔
’’بھلا کیا کوئی قلم سے بھی عبادت کرتا ہے؟‘‘
بیوی نے تعجب سے پوچھا۔
میرا ا فسانہ پڑھ کر اگر کسی کی کھوئی ہوئی خوشیاں واپس لوٹتی ہیں تو کیا وہ عبادت نہیں ہے؟ اگر میرا ڈرامہ پڑھ کر یا میرا ڈرامہ سُن کر کوئی غلط راستہ ترک کرکے صحیح راستے پر آتا ہے تو کیا یہ عبادت نہیں ہے؟ اگر میری کوئی کہانی اصلاح معاشرہ کا کام کرتی ہے تو کیا اسے عبادت نہیں کہہ سکتے؟‘‘
’’بس۔ بس کر اُداسؔ خدارا بس کر۔ تم آج تک اپنی بیوی کو متاثر نہ کرپائے اور معاشرے کی بات کرتے ہو؟ آنکھوں میں نہیں ہے بینائی ، دیدار کی باتیں کرتے ہو؟‘‘ بیوی جی غصے میں بولی۔
’’اس لئے کہ تُم نے آج تک شوہر کا مقام نہیں جانا ہے اور نہ ہی مجھے بحیثیت شوہر پہنچانا ہے!‘‘ جواب سُن کر بیوی خاموش ہوگئی۔
اس کے ادراک کا در ہوا لیکن اُس کی انا کا پہاڑ آڑے آتا رہا۔
اس رات اُداسؔ صاحب گھر پر موجود نہیں تھے۔بیوی جی اپنے شوہر کے نجی کُتب خانے میں چلی گئی۔ اچانک اُس کی نظر اُس کی تازہ تصنیف ’ہجرت‘ پر پڑی۔ بیوی جی نے کتاب شیلف سے نکالی اور صوفہ پر بیٹھ گئی۔ کتاب کے پیش لفظ کی پہلی ہی عبارت نے اُس کے ہوش اُڑادیئے۔
’’ہجرت کا کرب لئے مسافر زندگی کا سفر طے کرنے کیلئے جب گھر سے نکلا تو ہمسفر کی پرچھایاں اُس کے ہمراہ تھیں، گوکہ آج تک ہمسفر مجھے نہیں سمجھ سکی لیکن ہجرت کا درد میرے شریک غم کو ضرور گھائو دے گا۔ کیونکہ سہاگ رات کو ہم نے اکھٹے جینے اور مرنے کی قسم کھالی تھی۔‘‘ ایک دوسرے کے یاس و غم میں عمر بھر شریک رہنے کا عہد کیا تھا۔‘‘
عبارت پڑھ کر بیوی جی کا دل موم کی طرح پگھلنے لگا اور اس کے آنکھوں میں آنسواُمڈ آئے، اُس نے فوراً اپنے شوہر کو کال کی۔ دو تین بار نمبر ڈائیل کرنے کے بعد اُداسؔ صاحب نے اپنی بیوی کا فون رسیو کیا۔ ’’آج شب گیارہ بجے میری فلائٹ ہے، میں طویل ہجرت کے لئے ملک سے باہر جارہا ہوں۔‘‘
کال رسیو کرنے کے بعد دفعتاً بیوی کے ہاتھ سے موبائیل گرگیا۔ اس نے اپنے شوہر کی تصنیف’’ہجرت‘‘ کو بار بار چوما اور زاروقطار رونے لگی۔!!
’’تم نے مجھے بحیثیت شوہر پہچانا ہے‘‘۔ جواب سُن کر بیوی چُپ ہوگئی۔
���
آزاد کالونی پیٹھ کانہامہ ماگام