گو جری ۔۔۔اُردوکاماخذ ؟

گوجری زبان کے بارے میں ڈاکٹرصابرآفاقی کہتے ہیں کہ برصغیرہندوپاک میں آریائوں کی آمد1500 ق م سے 900 ق م تک جاری رہی ۔ان ہی آریائوں میں گوجرقبائل شامل ہیں۔ گوجروں سمیت تمام آریائوں کی مذہبی اورعلمی زبان سنسکرت تھی۔جب سنسکرت کوخواص کی زبان بنادیاگیا اورقدیم آریائوں میں طبقات کی تقسیم کی گئی تو مُلک میں عوامی بولیاں وجودمیں آئیں جن کوپراکرت کہاگیاہے ۔پراکرتوں کی تشکیل کازمانہ 500 ق م سے 400 ق م تک عہدماناگیاہے ۔پراکرتیں عام بول چال کی زبانیں تھیںاوراُن علاقوں کی طرف منسوب کیاگیاجن میں ان کارواج زیادہ تھا۔ جب بُدھ مذہب عام لوگوں کامذہب بن کر پھیلنے لگاتواس کی تبلیغ کے کام میںعام بولیوں نے زبردست کردارنبھایا۔برصغیرمیں داخل ہونے کے بعدگوجرقبائل نے کوہ اراوتی اوراس کے اردگردکے علاقوں کوخاص طورسے اپنا مرکزبنایااورگوجری زبان بھی یہیں پیداہوئی ۔اس زمانے میں برج یعنی دہلی،آگرہ اورمتھراکے علاقے کی زبان کہاجاتاہے ۔گوجری زبان کاسراغ ہمیں 600ق م سے ملتاہے۔مثال کے طورپر    ؎
  سپواکان مرن ککرواشاتی دے اس مرنائی 
(سانپ کاکاٹاایک ہی بارمرتاہے لیکن بُرے گوروکاکاٹا باربارمرتاہے) 
پہلی صدی عیسوی میں مشہورپنوارگوجرراجہ بکرماجیت حکومت کرتاتھا۔اُس راجہ کے عہدمیں گوجری زبان کی شکل یہ تھی۔
یہ شان ،نرودیا،نرپت،نہ گن نہ دھرم،تے حرت لوک مرگش چرنئی 
مطلب ۔نہ علم ۔نہ عبادت۔نہ ہُنر ۔نہ مذہب ۔ایسی حالت سے مرناہی بہترہے۔
آٹھویں صدی عیسوی میں گوجرحکومت کی حدودکابل سے کرناٹک تک پھیلی ہوئی تھیں اِ س زمانے میں گوجری زبان اورنکھرگئی تھی ۔اس عہدکی گوجری کے چندنمونے      ؎
تھاروسیس بگڑیہ ناریل 
تھاروآنکھ لموکی پھانک 
تھاری ناک سواں کی چونچ 
دانت ڈاڑھم رابیچ تھاراچمپاگی ڈار
اس کی دسویں اوربارہویں صدی میں گوجری میں نکھارآگیا۔مثلاً
اوگوجرمہاروای مندردیکھن آولو
اودیوی جی تھارامندرکوکائیں دیکھنو
اس کے بعدیہ زبان وہاں پہنچی جِسے گوجروں نے گوجراتر(گوجرات)کا نام دیا۔گوجرات اوراس کے ملحقہ علاقہ جات راجپوتانہ گوجرتہذیب اورگوجری زبان کے مراکزرہے ہیں۔اس حقیقت کااعتراف کرتے ہوئے سلیمان ندوی فرماتے ہیں۔
اُردوکے قدیم مراکز دکن کے ساتھ گجرات کانام بھی آتاہے ۔ یہاں کی زبان نے مقام کی نسبت سے گجری یاگوجری کانام پایا۔البتہ اس مقام پرمقام کے لحاظ سے اگرزبان کانام آتاتو اس زبان کوگجراتی کہتے نہ کہ گوجری ۔لیکن چوں کہ یہ زبان گوجری تھی اس لیے یہ گجراتی نہیں بلکہ گوجری کہلائی۔بات دراصل یہ ہے کہ گوجری کسی علاقے کی نہیں بلکہ ایک قوم کی زبان ہے بلکہ ان آریائی قبائل کی زبان ہے جن کی برصغیرمیں ہزاروں سال حکومتیں رہیں۔جواپنے لئے گوجربہادرمحافظہ وطن کالقب استعمال کرتے تھے اورآج تک کرتے ہیں ۔اسی گوجری نے ایک طرف سندھ کی کاچھی زبان پراثرڈالااوردوسری طرف وہ دکن اوردہلی پہنچ کر اُردوکاخمیرتیارکرنے لگی۔
گجرات کے قدیم نثرنویس ،صوفیااکرام ،شعراء حضرات ہمیشہ گوجری بھی لکھتے رہے ہیں اوراُن کویہ احساس بھی تھا کہ وہ گوجری میں بات کرتے ہیں۔مثلاً میراں جی شمس العشاق (902 ھ ) فرماتے ہیں   ؎
جے ہوویں گیان پجاری 
نہ دیکھیں بھاکاگوجری
گجرات کے برہان الدین جانم نے بھی اپنی زبان کوگوجری ہی بتایاہے   ؎
یہ سب گجری کیا زبان 
کہ آئینہ دیا نمان
اُردوکے نقادکہتے ہیں کہ گوجری اُردوکاہی نام تھا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ گوجری ابتداسے آج تک گوجری ہی رہی ہے جب کہ اُردوگوجری کی بیٹی ہے ۔گوجری الگ ڈگرپرچلتی رہی اوراُردوالگ راہ پربڑھتی رہی۔ماں کوہساروں میں گھومتی رہی ،بیٹی درباروںمیں پہنچ کرنازواندازدکھانے لگی۔گوجرقبائل دہلی اورآگرہ کے درمیان آبادہوئے ۔960 ء کے راجہ متھن دیوکے کتبہ قلعہ راج گڑھ سے اس کی تاریخ شہادت ملتی ہے۔دہلی اورآگرہ کے درمیان کاعلاقہ برج دیش کہلایا۔گوجری زبان کوہ اراولی اورکوہ آبو کے بعداسی علاقے میں پروان چڑھی۔ بعدکے ادوار میں گوجرقبائل جہاں جہاں گئے اپنی گوتوں کے نام پرآباد یاں بساتے آگے بڑھتے چلے گئے ۔گوجری دورعروج میں گوجروں کی ترجمان رہی ہے اورعہدزوال میں ان کی تہذیب وثقافت کی نگہبان بنی۔دہلی اورآگرہ کے گوجرقبائل کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔دراصل گوجرقدیم آریاکھشتری قوم ہیں اوران کوگوجرلقب مہابھارت کی جنگ کے موقع پرملاتھا ۔جن بہادروں نے کرشن جی کاساتھ دیاتھا وہ گوجرکہلائے اورکرشن جی نے ان بہادروں کوساتھ لے کرآگرہ سے منتقلی کرکے دوارکامیں گوجراترکے نام سے حکومت قائم کی۔بعدازاں گوجرقبائل جہاں گئے اپنی زبان ساتھ لیتے گئے اوراپنی گوتوں پرعلاقوں اوربستیوں کے نام رکھتے گئے ۔گجرات کے بہت سے شاعراسی زبان میں لکھتے آئے جن میں علی محمدجیو،میاں خوب محمدچشتی اورمحمدامین وغیرہ۔محمدامین نے یوسف زلیخاکی داستان 1109ھ میں گوجری میں نظم کی اوروہ اس کوفخریہ طورپرگوجری کہتے ہیں   ؎
سنومطلب ہے یوہ اب امیں کا
لکھی گوجری منے یوسف زلیخا
پھرکہتے ہیں    ؎
پوجھے ہرکوئی اس کی حقیقت 
بڑی ہے گوجری جگ بچ نعمت 
ایک اورشعرمیں یوں فرماتے ہیں    ؎ 
ارے ساقی وے شیشا توں لے آرے 
کہ جس آگے خجل ہوویں ستارے 
یہی گوجری گوجرات سے دکن پہنچی تودکنی کہلائی۔سب رس سال 1045؁ء کی تصنیف ہے ۔اس کامصنف مُلاوجہی گوجری ہی بولتاتھااُس نے گوجری کی لغت،اسما،ضمائیراوراسماء اشارہ وغیرہ استعمال کئے ہیں ۔مثال کے طورپرہمھنا۔ یو ۔ تھارو۔مہاری ۔ملاوجہی کی دوسری تصنف قطب مشتری ہے جو1018ھ میں لکھی گئی یہ بھی اُس وقت کی گوجری میں ہے۔مثال کے طورپریہ الفاظ ملاحظہ فرمایں۔
دستے ۔اجوں لگ ۔مینج ،ہمنا،یو۔توں 
دکنی پرگوجری کے اثرات کاذکرکرتے ہوئے ڈاکٹرسیدعبداللہ لکھتے ہیں:
گوجری نے بحیثیت زبان دکنی پربڑااثر ڈالا۔اس کے علاوہ ہرمیواڑی،راجستھانی ،پنجابی اور سندھی پرگوجری نے اچھاخاصااثرڈالا۔دراصل ان بولیوں کو گوجری کاروپ بھی کہاجاتاہے کیوں کہ گوجری پورے برصغیرکی عمومی زبان تھی۔’’دکن میں اُردو‘‘ کے مصنف نصیرالدین ہاشمی برج کے علاقے کی بھاشا(گوجری) کی وسعت کااعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’برج بھاشا کی سندھ سے بہاراورلاہورسے مالوہ تک وسعت تھی‘‘دسویں اوربارہویں صدی میں دلّی اورقنوج گوجروں کے سیاسی اورتمدنی مراکزرہے ہیں۔اس زمانے میں گوجری کوکافی ترقی ملی۔اس زمانے میں گوجری کی شکل اس طرح تھی    ؎
تم کت گیئوسو
تم کائیں کروہو
سولہویں اورسترہویں صدی عیسوی میں گوجری ہندوبھکشوئوں کے ذریعے بھی ترقی کرتی رہی۔کبیرداس (متوفی 1518ء ) اورتلسی داس (متوفی 1674ء ) گوجری کے مشہورشاعرگزرے ہیں ۔ان کی گوجری کے دوہے آج بھی بے حدمقبول ہیں    ؎
دین گنوایودونی پچھے دونی نہ آئی ہتھ 
پیرکوہاڑوماریوگاپھل اپنے ہتھ 
اس شعرناں اج گی گوجری ماں اس طرح لکھیں۔
دین گمایودُنی توں دُنی نہ آئی ہتھ 
پیرکوہاڑوماریوغافل اپنے ہتھ 
تلسی داس کی گوجری کانمونہ   ؎
چن چن ماٹی گھربنایومورکھ کہے گھرمیرو
نہ گھرمیرونہ گھرتیروچڑیاں رہن بسیروالے 
ولی گجراتی جب دکن پہنچا توگوجری اپنے ساتھ ہی لایا۔اُس کے شعرکانمونہ 
بے وفائی نہ کر خداسوںڈر
جگ ہسائی نہ کرخداسوں ڈر
چونکہ برصغیرہندوپاک مختلف قوموں کے عروج وزوال حائل رہے ہیں، لہٰذا گوجری زبان بھی اس سے بچ نہ سکی لیکن پھربھی اس زبان نے اپنے آپ کو زندہ رکھااور یہ زبان آج بھی راجستھان ،گجرات ،دکن،ہماچل پردیش ،شملہ،منڈی ،جموں وکشمیر،تبت، گلگت،کاغان،چترال،سکم،بھوٹان ،نیپال اورافغانستان کے کچھ علاقوں میں زندہ ہے اوربولی اورلکھی جاتی ہے۔جس زمانے میں مغل حکمران،فارسی گوشعراء کامنہ موتیوں سے بھررہے تھے اُس زمانے میں اُردوبرزنا سوتیاں رواں رہی لیکن جوں ہی حکمران طبقہ نے اُردوکی سرپرستی شروع کی ۔اہل اُردوکواپنی زبان کی دھوم سارے جہاں میں نظرآنے لگی۔اس طرح جس گوجرقبائل اقتدارسے محروم ہوئے توگوجری کالسانی اورادبی ارتقاء رُک گیا۔مسلمان فاتحین کامقابلہ کرنے کے لئے سب سے پہلے گوجرہی میدان میں نکلے۔ بعدازاں انگریزوں کے خلاف بغاوت کاعلم بلندکیا۔1857ء کاانقلاب جس کاذکرمیرٹھ ،سہارن پوراوردلی تھا۔گوجراکثریت کے علاقے تھے۔چنانچہ بعدمیں انگریزوں نے بھی ان کاانتقام لیناشروع کردیا۔گزشتہ ہزاروں سالوں کاگوجری ادب بھارت،افغانستان ،بنگلہ دیش ،پاکستان اورریاست جموں وکشمیرکے دونوں اطراف بکھراپڑاہے ۔ان تمام ملکوں کے پورے گوجری ادب کااحاطہ تودرکناراس کاسرسری جائزہ بھی پیش کرنامشکل ہے ۔گوجری زبان کسی ایک مخصوص علاقے کی نہیں ہے بلکہ بنیادی طورپرگوجرقوم کی زبان ہے ۔ڈاکٹرظہیرالدین مدنی کہتے ہیں کہ’’ اُردوگوجری سے نکلی ہے ‘‘
ڈاکٹرجمیل جالبی کہتے ہیں برصغیرمیں گوجرقوم اورگوجری زبان وادب پرماضی میں بے شمارحملے ہوئے ہیں۔گوجرقوم نے تمام بیرونی حملہ آوروں جن میں یونانی ،درانی ،غزنوی ،غوری، عرب،مغل اورانگریزی بھی شامل تھے کی ہمیشہ مزاحمت کی ۔حملے کامقابلہ کیااورکافی نقصان اٹھایا اوربالآخر علائوالدین خلجی اورجلال الدین اکبرکے دورمیں اس قوم کواقتدارسے مکمل طورپرباہرکردیااوردین ِ الٰہی کے سلسلے میں اکبرایک ایسی زبان کی تشکیل کاخواہاں تھاجوفارسی بولنے والوں اورگوجری بولنے والوں کے درمیان ایک پُل کاکام دے۔
جمیل جالبی مزیدلکھتے ہیں کہ فتح گجرات کے بعددس بارہ سال کے اندراندرگجرات کے اہل علم وادب پرفارسی کاگہرا اثرکرنے لگااوراسی کے ساتھ گجری کانہ صرف زورگھٹنے لگابلکہ ادبی وتخلیقی سطح پراس زبان کی کوئی خاص اہمیت باقی نہ رہی۔رفتہ رفتہ گوجری جاننے والوں کی وہی حیثیت رہ گئی جوبرطانوی دورمیں اُردوجاننے والوں کی تھی ۔ اس دورمیں گوجری جاننے والوں پرملازمت کے دروازے بندہوگئے۔معروف ادیب سیدفارغ بخاری اپنی کتاب ’’سرحدکے لو ک گیت‘‘ گوجری سے اُردوکے جنم کے بارے میں رقمطرازہیں:
’’گوجری زبان نہ صرف شمال مغربی سرحدی صوبہ کے ہزاروں باشندے بولتے ہیں بلکہ برصغیرکے دوسرے حصوں میں جموںوکشمیر،ہماچل پردیش ،اترپردیش ،مہاراشٹر اورراجستھان تک پھیلی ہوئی ہے ۔یہ سارے برصغیرمیں اس گوجرقبیلے کی زبان ہے جوسفیدہونوں کے ساتھ یہاں آئے ۔سفیدہونوں کی نسل تو آج شایددُنیامیں نہیں البتہ گوجرآج بھی زندہ پائندہ ہیں ۔پاک ہندمیں کئی ایک شہر گوجرات ،گجرخان ،گوجرانوالہ وغیرہ ان ہی کے نام پرموسوم ہیں۔خصوصاً صوبہ سرحدمیں (جوگوجروں کامرکزی مقام ہے) کوہ ہندوکش سے کاغان اورکشمیرکی پہاڑیوں تک پھیلے ہوئے کوہستانی سلسلوں میں بہت بڑی تعدادمیں گوجرآبادہیں۔ان کے نام سے بہت سے گائوں،گوجری ،گوجراں،گوجرگڑھی ،گوجرانوالا ،گوجرسرائے وغیرہ مشہور ہیں۔ان کی زبان گوجری کہلاتی ہے جوہندکوکی ایک اکھڑبولی ہے۔یہ وہ زبان ہے جسے دلی میں کھڑی بولی کانام دیاگیااوراُردوزبان کی اصل قرارپائی۔ان کی زبان میں پراکرتی (جواس دیس کی قدیم بولی ہے ) گھلی ِملی محسوس ہوتی ہے۔بہرحال زبان دوسری زبان کے ساتھ کوئی نہ کوئی ربط رکھتی ہے ۔جہاں ہم دعوے سے کہتے ہیں اُردوکاماخذگوجری ہے وہاں اُردوکے چاہنے والے محقق گوجری سے پلہ جھاڑنے لگتے ہیں اورگوجری کونظرانداز کرناشروع کردیتے ہیں مگرگوجری ہے اپنی بیٹی کوڈھونڈنے لگتی ہے۔
پروفیسرنصیراحمدخان تاریخ زبان اُردومیں لکھتے ہیں گجری اُردونے سنسکرت زبان وادب کی روایت اورعربی ،ترکی اورفارسی روایت دونوں روایتوں کوردکرکے شورسینی اپ بھرنش کی خالص دیسی روایت کواپنایا۔ یہاں عوامی زبان اُردوعوامی اصناف کے ساتھ اُبھرتی ہے اوربجھن کی شکل میں گانے کے لیے مخصوص راگ راگنیوں کوسامنے رکھ کرشعرترتیب دیئے گئے ہیں اس روایت کے ابتدائی دورمیں تقریباً یہی روایت دوسوسال تک اپنارنگ جمائے رکھتی ہے۔ 
