گول ہسپتال کی ایمبولینس بناکاغذات کے

گول //گول میں 1965میں قائم ہیلتھ سینٹر کو 1998ء میں سب ضلع ہسپتال کا درجہ ملا لیکن اس کی حالت جوں کی توں ہے ۔ ہسپتال کیساتھ منسلک جو گاڑیاں ہیں اُن کے کاغذات تک موجود نہیں ہیں جو یہاں ان ڈرائیوروں کے ساتھ بھی سخت کھلواڑ ہے ۔ ڈی ڈی سی ممبر چوہدری سخی محمد نے کہا کہ ہسپتال انتظامیہ کی اتنی بڑی لا پروائی ہے کہ ہسپتال میں موجود گاڑیوں کی حالت جہاں قابل رحم ہے وہیں ان کے کاغذات بھی موجود نہیں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہاں جو ڈرائیور لوگ ان گاڑیوں کو چلا رہے ہیں وہ اپنی جانوں کو جوکھم میں ڈال کر ان کو چلاتے ہیں اور اگر کوئی حادثہ پیش آئے گا تو اُس کا ذمہ دار کون ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں گول کے پرتمولہ علاقہ میں ایک ایمبولینس کو حادثہ پیش آیا جس میں ریاض احمد نامی ڈرائیور شدید زخمی ہوا جو اس وقت جموں میڈیکل کالج میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے لیکن ہسپتال انتظامیہ کو ٹس سے مس نہیں ہوئی اور اس گاڑی کے بھی کوئی کاغذات نہیں تھے اور حادثہ کے دو گھنٹے کے بعد ہسپتال انتظامیہ موقعہ پر پہنچی جبکہ یہ ہسپتال سے صرف تین یا چار کلو میٹر دوری پر حادثہ پیش آیا تھا ۔ چوہدری سخی محمد نے کہا کہ اس وقت ہسپتال سے منسلک چار گاڑیاں چل رہی ہیں اور سرنڈا ہیلتھ سینٹر کے ساتھ جو گاڑی ہے اس کا نا کوئی انشورنش ہے اور نا ہی کوئی ٹوکن موجود ہے ۔2020سے پی ایچ سی ڈھیڈہ، 2019کے بعد دوسری گاڑی، سرنڈاکی2014، سنگلدان کے ساتھ2016سے ایمبولینس گاڑیاں منسلک ہیں لیکن تمام گاڑیوں کے کاغذات موجود نہیں ہیں ۔ کل اگر کوئی حادثہ پیش آئے گا اس کا ذمہ دار کون ہو گا اس کا جواب لوگوں کو نہیں مل رہا ہے ۔ چوہدری سخی محمد نے اس موقعہ پر ضلع ترقیاتی کمشنر رام بن سے مطالبہ کیا کہ اس کی تحقیقات کی جائے کہ آج تک ان گاڑیوں کے کاغذات کیوں نہیں بنائے گئے اور کس طرح سے یہ گاڑیاں جموںاور سرینگر کے علاوہ دوسری سڑکوں پر چلتی ہیں ۔