اِس حقیقت سے کسی بھی طرح فرار حاصل نہیں کہ ’’گول گلاب گڑھ ‘‘ایک تاریخی پہچان تھی اور یہ نام آج بھی اپنی آب و تاب سے زندہ ہے، گوکہ سیاسی مفاد پرستی ، خودغرضی اور چپقلش کے باعث گول گلاب گڑھ ایسی پہچان نہ بن پایا کہ وہ تقسیم در تقسیم کا شکارنہ ہوتا لیکن تاریخ میں ایک وقت ایسا ضرورآتا ہے جب ماضی کے زخمی ہرے ہوجاتے ہیں اور اپنی غلطیوں کا احساس ہو ہی جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے ماضی کی سرزد ہوئی غلطیوں کا ازالہ ممکن نہیں ہوپاتا ہے اور جب ازالہ کرنے والے زمانہ ٔ حال میں بھی مزید غلطیوں کے مرتکب ہورہے ہوں تو پھرتابناک مستقبل کی نوید قبل از وقت ہی قصہ پارینہ بن جاتی ہے اور اُمید کے چراغ گُل ہو کر چہار سو تاریکیاں چھا جاتی ہیں۔
یوں تو حلقہ بندی کو تعمیر و ترقی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وقتاً فوقتاً ہم سب نے اِس حقیقت کو سر آنکھوں تسلیم بھی کیا ہے لیکن ہماری تنگ نظری کا عالم ہمیشہ ہی ایسا رہا ہے کہ ہم نے ہمیشہ خود کو چالاک سمجھا، شاطر سمجھا اور اپنی محدود دُنیا کی بادشاہت کے خواب خود بھی دیکھے اور سادہ لوح عوام کو بھی دکھائے،نتیجہ یہ نکلا کہ بلآخراپنی سوچ و ظرف کے مطابق ہم محدود دُنیا کے مکین بن ہی گئے ،جی ہاں!فرق بس اِتنا رہا کہ ہم اِس محدود دُنیا کے بادشاہ نہیں بلکہ غلام بن کر رہ گئے۔
راقم اِس حقیقت کو بیان کرنے میں ذرا بھی ہچکچاتا یا جھجکتا نہیں ہوں کہ ہماری سوچ اپنی ذات تک محدود ہے۔ معروف شاعر طاہر عظیمؔ کا یہ شعر ہم پر صادق آتا ہے ،انھوں نے محدود سوچ کی قوم کیلئے کچھ اِس طرح سے فرمایا ہے کہ
سوچ اپنی ذات تک محدود ہے
ذہن کی کیا یہ تباہی کچھ نہیں؟
قابل ِ ذکر ہے کہ سن 1996میں جب اسمبلی حلقوں کی حد بندی ہوئی اور ’’گول گلاب گڑھ ‘‘کودو حصوں میں منقسم کیا گیا جس میں ایک اسمبلی نشست ’’مہور گلاب گڑھ ‘‘نام سے بنائی گئی اور دوسری اسمبلی نشست کو’’گول ارناس ‘‘کا نام دیا گیا۔قابل ِ ذکر ہےکہ گول واسیوں نے اُس وقت کی حلقہ بندی کو جی جان سے تسلیم کیا ،اُسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اِس نئی حلقہ بندی میں ’’گول ارناس ‘‘اسمبلی نشست کا پہلا عوامی نمائندہ ’گول ‘سے بنا اور غور و فکر کی بات یہ ہے کہ یہاں یہ مہر بھی ثبت ہوگئی کہ ’گول ‘سے گول ارناس اسمبلی نشست کاآخری نمائند ہ بھی یہی ثابت ہوا، اِس کے بعدگول کے مقامی سیاستدان ایسی سیاست کرنے میں مکمل طور ناکام رہے کہ وہ پھر سے سیاسی بازی مارتے۔
مقامی لیڈر شپ اپنی سیاسی ناکامیاں سے اِس قدر دلبرداشتہ ہوئے کہ وہ اپنے خمیوں میں اتحاد کرنے کے بجائے ایسی افسوسناک غلطیاں کرتے رہے جس کا خمیازہ آج اِس صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے ،آج سیاست دان ، ووٹران ، چھوٹا، بڑا، امیر ، غریب ، مرد وزن، کالا گورا، گوجر کشمیری ، ہندو مسلم ، جوان بزرگ، ملازم ، بے روزگار، تاجر مزدورغرضیکہ ہر فرد ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔گو کہ راقم کی یہ تلخ نوائی اور سیدھی بات سیاست دانوں کو حد درجہ گراں گزریں گی ، ہضم نہیں ہو گی لیکن یہ تلخ سچ ہے کہ خود غرضی ، تنگ نظری اور محض اپنے سیاسی مفادات کو بنیاد بنا کر ایسے فیصلے کرنے کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے ۔
معاف کیجئے گا !!مقامی لیڈر شپ میں اپنی محدود دُنیا قائم کرنے کا جنون اِس قدر سوار ہوچکا تھا کہ سیاست دان اِس نتیجہ پر پہنچے کہ 2008میں جب نئے انتظامی یونٹوں کا قیام ہوا تو گول کے مقامی سیاستدانوں نے اپنی 5پنچایتیں’’سلدھار، لینچہ، بدھن، چکلاس اورہاڑی والا ‘‘بطورِ تحفہ ریاسی کووقف کر دیں اور اپنی محدود دُنیا کی بادشاہت کے خواب دیکھنے شروع کر دیئے۔ یہاں اِس اقدام سے سیاسی کارندوں نے کافی اطمنان محسوس کیا لیکن وہیں دوسر ی جانب گول کو محفوظ کرنے کے کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں کئے ، اُس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سیاسی کارندوں نے یہ عمل بغیر کسی غور و فکر کے کیا تھا ، ملحوظ نظر بس اِتنا تھا کہ ارناس سے الگ ہوکر صر ف ’’گول ‘‘ بننا مقصود ہے۔نہ کوئی منصوبہ تھا، نہ کوئی لائحہ عمل تھااور نہ ہی کسی ضابطے کے تحت یہ اقدام کیا گیا تھا جبکہ مذکورہ پانچ پنچایتوں کی عوام نے گول کے ساتھ منسلک رہنے کی گوہار بھی لگائی مگر گول کی مقامی لیڈر شپ نے اُس گوہار پر نظر ثانی کئے بغیر دستخط کئے اور اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی ماری۔
گول کے مقامی سیاست دانوں کا اپنی پانچ پنچایتوں کو کوڑیوں کے دام واقف کرنا اور اُس منصوبے پر عوامی رائے حاصل کئے بغیر دستخط کرنا ’’گول‘‘ کے شناختی تابوت میں آخری کیل ثابت ہوااور سیاسی کارندوں کی تنگ نظری اور بھلا کی خود غرضی کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے ’’ گول گلاب گڑھ‘‘ پھر ’’گول ارناس‘‘ اور اب’’گول غائب ‘‘ ہمارا مقدر بن گیا۔
واضح رہے موجودہ حلقہ بندی عمل میں گول کی سیاسی تنظیموں نے کمیشن کے سامنے جو ریزولیشن پیش کئے ہیں اُس میں بھی بیشتر سیاسی تنظیموں نے یہ مانگ کی ہے کہ ’’گول ‘‘کو ’’ارناس ‘‘سے الگ کر کے رام بن کے ساتھ ملایا جائے گوکہ عوام کے بار بار اصرار کرنے کے باجود بھی سیاسی تنظیموں نے اپنی ریزولیشنز منظر عام پر نہیں لائے لیکن سیاسی تنظیموں کے مطابق انھوں نے کمیشن کو جو ریزولیشن سونپے ہیں اُن میں یہ مانگ کی گئی ہے کہ گول کیساتھ گاندھری کو ملا کر ’’گول ‘‘نام سے نئی اسمبلی نشست بنائی جائےجو کہ ہمارا حق ہے۔ کمیشن نے 50فیصد کام سیاسی تنظیموں کی جانب سے دیئے گئےریزولیشن پر کیا ہے جبکہ 50فیصد اپنی مرضی مسلط کر دی ،لیکن اگر اِس کی تہہ تک جاکر کھنگالاجائے شائد یہ ثابت ہو جائے کہ یہ سو فیصد عوامی نمائندوں کی مانگ کا نتیجہ ہے، چونکہ گول کی کچھ سیاسی تنظیموں نے کمیشن کی رپورٹ کے عین مطابق اپنا ریزولیشن پیش کیا ہے، خواہ وہ سیاسی جماعت واحد کیوں نہ ہولیکن یہ حق ہے کہ اُس جماعت میں گول کے سیاستدان ہی شامل حال ہیں ۔قابلِ ذکر ہے کہ سیاسی تنظیموں کی دیرینہ خواہش کے مطابق اُنہیں ’’ارناس ‘‘سے الگ تو کر دیا گیا ہے لیکن اب گول سب ڈویژن کو ہی تقسیم در تقسیم کر دیا گیا ہے۔ کمیشن کی رپورٹ پر اہلِ گول شدید برہم ہیں کہ گول کو نئی اسمبلی نشست دینے کے بجائے کمیشن نے سب ڈویژن کو ہی تقسیم کر کے ’’گول‘‘ کی شناخت کو مسخ کرنے کا کام کیا گیا ہے جوکہ عوام گول کیساتھ سر اسر نا انصافی ہے۔ عوام کا غم اپنی جگہ لیکن کچھ سیاسی کارندے موجودہ وقت میں بھی گول اسمبلی نشست کی مانگ کو بھول کر اب گول سب ڈویژن کو مکمل طور بانہال یا پھررام بن کیساتھ جوڑ نے کی بات کر رہے ہیں ،اُن کا کہنا ہے کہ سب ڈویژن گول کا آدھا حصہ بانہال اور آدھاحصہ رام بن کے ساتھ جوڑنا ہم کسی بھی قیمت برداشت نہیں کریں گے ۔
سوال پیدا ہوتا ہے ’’گول‘ اسمبلی نشست کی مانگ اور خواب کو ایک دم سے بھول کر رام بن یا بانہال کیساتھ ہولینے پر اکتفا کرنا کس نوعیت کی سنجیدگی ہو سکتی ہے اور عوامی خواہشات کو جانے بغیراپنی من مرضی سے کوئی نئی مانگ دہرانے کا کیا مقصد ہوسکتا ہے۔ اپنی مانگ سے سیاستدانوں کا یوٹرن دیکھ کر لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ ایسے سیاستدانوں نے ہمیشہ سے ہی عوام کو گمراہ کرنے کی افسوسناک کوشش کی ہے اور موجودہ وقت میں بھی اپنے حقیر سیاسی مفادات کیلئےسمجھوتہ کرنے کیلئے تیار ہیں۔
خیر گول کا تباہ کن، مفادپرستانہ اور مطلب پرستانہ سیاسی کھیل نے ہی گول واسیوں کو اِس دورائے پرلا کھڑا کر دیا ہے جہاںگول کے ہر فرد کی زبان سے یہی سننے کو ملتا ہےکہ؎
ہم نے کیسی قسمت پائی
آگے کنواں تو پیچھے کھائی
7780918848/9797110175