گولہ باری کا خوف اور کام کا زور

 پونچھ//سرحدی ضلع پونچھ میں ایک طرف جہاں حد متارکہ پر ہندوپاک افواج میں گولہ باری کا تبادلہ ہو رہا ہے وہی ان علاقوں میں اسوج کے چلتے لوگ گھاس کٹائی میں بھی مصروف نظر آرہے ہیں۔ریاست میں گھاس کٹائی کا موسم اگست کے اواخر سے شروع ہو جاتاہے اکثر علاقوں میں لوگ گاس کاٹ چکے ہیں لیکن حالات کشیدگی کی وجہ سے پونچھ کے حد متارکہ کے قریبی دیہی علاقوں میں لوگ ابھی تک گھاس کٹائی نہیں کر سکے تھے جنہوں نے اب اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر گھاس کٹائی شروع کر دی ہے۔ بلاک ننگالی سائیں بابا کے بلاک چیئر مین نذیر حسین جو کہ شاہپور اسلام آباد سرحدی گائوں کے رہنے والے ہیں، نے کہا کہ اسوج کا موسم ختم ہو رہا ہے اور وہ ابھی تک گھاس کٹائی نہیں کر پائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امن کے انتظار میں انھیں پہلے ہی بہت تاخیر ہوئی ہے اب وہ مزید انتظار نہیں کر سکتے تھے ۔اس لئے انہوںگھاس کٹائی کا عمل شور کیا گیا ۔انہوں نے کہا کہ موسم کے تبدیل ہونے سے قبل انھیں گھاس کاٹ کر اسے خشک کرکے محفوظ کر لینا ہے تاکہ سردیوں میں جب ان کا علاقہ برف کی سفید چادر اوڑھ لے گا تووہ اس گھاس کو مویشیوں کے چارے کے طور پر استعمال کریں گے۔انہوں نے کہا کہ’ لیتری‘ ایک ثقافت بھی اور بھائی چارے کی مثال بھی۔انہوں نے کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں سرحدی ضلع پونچھ میں سماجی کاموں کو بلامعاوضہ مقامی لوگ مل جْل انجام دیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ لیتری میں شامل لوگ بغیر کسی لالچ کے گھاس کاٹتے ہیںجو کہ خطہ پیر پنچال کے معاشرے کی مشترکہ اخلاقی اقدار و ثقافت کی ایک مثال ہے۔انہوں نے کہا کہ سرحدوں پر روز روز کی گولہ باری سے پریشان ہو کر لوگ ہجرت کر کے محفوظ مقامات کی طرف نکل گئے ہیں لیکن وہ اپنی ثقافت اور تمندن نہیں بھولے ہیں۔ انہوں نے کہا حالات جیسے بھی ہوں وہ لوگ کھیتی باڑی نہیں چھور سکتے ـ۔انہوں نے کہا کہ ان کے علاقہ میں پہلے گھاس کٹائی کا یہ سیزن اگست کے اواخر سے شروع ہو کر تقریباً دو مہینے تک چلتا رہتا تھا لیکن حالات کی کشدگی کی وجہ سے اب ان لوگوں کو بہت تیزی سے مہینوں کا کام دنون میں انجام دینا پڑتا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ہندوپاک حکومتیں آپسی بات چیت سے مسائیل کا حل نکالیں گے تاکہ سرحدی عوام کو راحت ملے۔