صاحبہ خواجہ،پونچھ
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ تعلیم ہی واحد ایک ایسا ہتھیار ہے جس کی طاقت کمزوروں کو مضبوط بنا سکتی ہے۔چاہے مر د ہو یاعورت،سماج ہو یا ملک، تعلیم کے بغیر کوئی بھی ترقی نہیں کر سکتا ہے۔ یہ تعلیم کی ہی طاقت ہے کہ آج ہندوستان جاند کے اس حصہ پر قدم رکھ کر تاریخ رقم کر چکا ہے جہاں پہنچنے میں طاقتور ملکوں کو بھی گھبراہٹ ہوتی تھی۔دراصل انسان جتنا پڑالکھا ہوگا وہ اتنا ہی اپنے زندگی کے مسائل میں کامیاب و کامران ہوگا۔ اس میں بھی کوئی شک کی بات نہیں کہ رواں صدی میں تعلیم کا رحجان بڑھتا جا رہا، جہاں ایک طرف مردوں نے تعلیم کے شعبے میں ترقی کر بڑے کارنامے کئے ہیں وہیں خواتین بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔اس کی مثال چندریان ٹیم ہے۔ گزشتہ دنوں اسرو سائنسدانوں کی محنتوں او ر کاوشوں سے ملک نے جب چاند پراپنا پرچم لہرایا، تو یقینا اس مشن میں نے صرف مرد سائنسدان ہی نہیںتھے، بلکہ بڑی تعداد میںخواتین سائنسدانوں کی بھی ایک لمبی فہرست تھی ۔جنہوں نے مردوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کرچندریان 3کو چاند تک لے جانے کا کارناما انجام دیا تھا۔ لیکن باوجود ان سب کے آج بھی لڑکیوں کی تعلیم میں وہ تبدیلی نہیں آئی جو آنی چاہئے تھی۔ ملک میں اب بھی لڑکیوں کی تعلیم کا گراف مردوں سے کئی فیصد کم ہے۔ اس وقت ملک میں خواندگی کی شرح 74.04 فیصد ہے۔ جس میں مردوں کی شرح خواندگی 82.14 فیصد جبکہ خواتین کی شرح خواندگی 65.46 فیصد ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں جموں و کشمیر میں سب سے کم شرح خواندگی 67.16 فیصد ہے۔ یہاں مردوں کی شرح خواندگی 76.75 فیصد ہے جبکہ خواتین کی شرح خواندگی صرف 56.43 فیصد ہے۔ دیہی علاقوں میں یہ سلسلہ اور بھی کم نظر آتا ہے۔
متعدد گھریلوں مسائل میں الجھی لڑکیاں اعلیٰ تعلیم کے خواب تو ضرور دیکھتی ہیں مگر پورے نہیں ہو پاتے، جس کی ذمہ دار معاشی پسماندگی ہیے۔جبکہ مرد ہو یا عورت، ان کی زندگی کے اقتصادی حالات میں بہتری کے لئے تعلیم ہی ایک واحد ذریعہ ہے۔اس متعلق مرکزی زیر انتظام علاقہ جموں وکشمیر کے تحت سرحدی ضلع پونچھ کے گاؤں بھینچ کی رہنے والی 22سال کی افسانہ کوثر کہتی ہیں کہ ’’وہ ایک نجی اسکول میں پڑھاتی ہیں۔ وہ ایک بہت غریب گھر سے تعلق رکھتی ہیں وہ دسویں جماعت میں تھی جب انکے والد کا انتقال ہوگیا تھا۔ اسکے بعد انہیںاپنی پڑھائی مکمل کرنے میں بہت پریشانی ہوئی۔کیونکہ انکے گھر کوئی بھی کمانے والا نہیں تھا۔لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور اسکولی بچوں کو ٹیوشن پڑھانا شروع کیا۔ جسکی بدولت نہ صرف انہوں نے اپنی پڑھائی مکمل کی بلکہ اپنی چھوٹی بہن غازیہ کو بھی تعلیم حاصل کروائی۔خود بھی گریجویشن کی پڑھائی مکمل کر کے اسکول میں پڑھانا شروع کیا اور ٹیوشن بھی ساتھ میںجاری رکھی۔ اب وہ ان سب کے ساتھ ساتھ نوکری کی تیاری بھی کر رہی ہیں۔انکی یہ کہانی سنانے کا یہی مقصد تھا کہ انکے والد کی وفات کے بعد پڑھائی ہی ایسا ذریعہ تھا جسکی بدولت وہ اپنی امی اور بہن بھائیوں کا سہارا بن سکی۔افسانہ نے یہ ثابت کیا کہ تعلیم ہی واحد ایسا ذریعہ ہے جو ایک عورت کو خود مختار بنا سکتا ہے۔ایسی ہی ایک اورکہانی پونچھ کے گاؤں بھینچ کی ہی رہنے والی رفعت غنی کی بھی ہے۔ جس کے والد مزدوری کرکے اپنے بچوں کو پڑھارہے تھے۔ سب سے بڑی رفعت غنی جب بارھویں جماعت میں پڑھ رہی تھی،اس دوران اسکے والد کی طبیعت کافی خراب ہوگئی۔ایسے میں گھر میں کھانے کو راشن بھی نہیں تھا۔ تب رفعت نے بارھویں پاس کرنے کے بعد نوکری کے لیے درخواست لگائی اور خوب محنت کر کے نوکری حاصل کی۔ وہ اسکول میں لائبریری میں ہیلپر لگی۔ جسکے بعد انہوں نے اپنی کمائی سے نہ صرف اپنے گھر والوں کی ضرورتیں پوری کی بلکہ اپنی تعلیم بھی جاری رکھی اور آج وہ ماسٹرز کر رہی ہیںاورساتھ ہی نوکری بھی کر رہی ہیں۔رفعت کہتی ہیں کہ اگر اس وقت میرے والد نے مجھے پڑھایا نہ ہوتا تو شاید آج میرے گھر کے حالات بہت خراب ہوتے۔تعلیم کی بدولت ہی میں خود مختار بنی۔
اسی طرح زندگی میں تعلیم کی طاقت سے ترقی کرنے والی یاسمین لون جو پونچھ کے گاؤں سیہڑی کی رہنے والی ہے۔ جنکی شادی اِکیس سال کی عمر میں ہوگئی تھی،ا نھیں دو بچے بھی ہیں۔لیکن پریشانیاں اس وقت بڑھی جب آٹھ سال کے بعد انکے شوہر کا انتقال ہوگیا۔انہوں نے دوسری شادی بھی نہیںکی۔ اس وقت انہوں نے اپنے ہی گائوں کے ایک ا سکول میں پڑھانا شروع کیا اور ساتھ میں گاؤں کے بچوں کو ٹیوشن بھی دینی شروع کی۔ جسکی بدولت اسنے اپنے بچوں کو اچھے ادارے میں بغیر کسی کی مدد سے تعلیم حاصل کروائی اور خود گھر کا خرچہ اٹھانے کے قابل بنی۔ یہ سب ممکن ہوا کیوںکہ وہ پڑھی لکھی تھی۔حکومتِ بھی لڑکیوں کی تعلیم کیلئے بہت حساس ہے ۔اس سلسلے میں مختلف اسکیمیں چلائی جا رہی ہیں۔ جیسے سوکنیا سمردھی یوجنا، بالیکا سمردھی یوجنا، سرکاری اسکالرشپ منصوبہ،.بیٹی بچائو بیٹی پڑھائو سمیت اور بھی کئی ایسے اہم قدم ہیں جسکی بدولت بچیاں تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ سب سے بڑا قدم سرکاری اسکول ہیںجو بغیر کسی فیس کے پہلی جماعت سے لیکر بارھویں جماعت تک کی مفت تعلیم فراہم کرتے ہیں۔تاہم آج کے وقت میں جاری سرکاری منصوبوں نے ان خواتین کو نئے اور بہتر مواقع فراہم کیے ہیں۔ جو ان کے معاشی حالات کو مضبوط کرنے میں مدد فراہم کرسکتے۔ یہ انہیں مہارتیں اور علم حاصل کرنے کا موقع دیتے ہیں جو ان کو مختلف شعبوں میں روزگار کے قابل بنا سکتے ہیں۔لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاں سرکارلڑکیوں کی تعلیم کو لیکر اتنی سنجیدہ ہے وہیں والدین کو بھی چائے کہ وہ اپنی لاڈلیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے میں ان کی مدد کریں تاکہ وہ اپنی زندگی کو کامیابی سے ہمکنار کر سکیں۔(چرخہ فیچرس)