کیفے کے احاطے میںقرینے سے بینچ اور ٹیبل لگے ہوئے تھے۔ ان کے بیچ تراشیدہ سنگ مر مر کا واحد بینچ جاذب نظر بنا ہوا تھا،جو احاطے کے ایک سرے پر نصب تھا۔نز دیک کھڑے چنار کے درخت چلچلاتی دھوپ میںبینچوں پرگپ شپ میں مصروف لو گوں پراپنی چھائوں بکھیر دیتے تو خوب صورت نسوانی چہرے اور زیادہ پُر کشش لگتے۔ وہیں ان کے اغل بغل میں موجودمردوں کے چہرے بھی اس ٹھنڈی چھائوںسے نکھر جاتے۔جو ن کا مہینہ تھااس مہینے کیفے میں بہت زیادہ بھیڑ رہتی تھی۔ہر عمر کے لوگ آکر یہاں گھنٹوں گزار دیتے اور کافی پیتے ہوئے پیار و محبت کی باتیں کرتے رہتے۔ بوڑھے جوڑے اپنے ماضی کی کتاب کے اوراق پلٹ پلٹ کرایک دوسرے کے ساتھ گزارے پل پل کومزے لے لے کر یاد کرتے اور ٹھاٹھیں مار مار کر ہنستے رہتے۔کیفے کے جنو ب کی طرف ایک صاف شفاف پانی کی ندی بھی بہہ رہی تھی جس کے کناروں پر بیٹھ کر کچھ لوگ پانی میں پیر ڈبوئے اپنے بدن کوٹھنڈک کا احساس دلاتے رہتے۔ کچھ لوگ ندی میںاُتر کرایک دوسرے پر پانی اُچھالتے رہتے اور خوب مزے لیتے۔کچھ جوان لڑکے لڑکیاںایک دوسرے کے تعاقب میںمست پھرتے نظر آتے۔اعتمادؔسنگ مر مر سے بنے بینچ پر ٹانگیںدراز کئے یہ سب حرکتیں دیکھ رہا تھا۔ یہ ایک ہی بینچ ایساتھا جس پر صرف دو لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی اور اعتماد کی موجودگی میںکوئی دوسرا اس بینچ پر بیٹھنے کی جرأت نہیں کرتا ، جیسے یہ اعتماد اورنصرین کے لئے ہی مخصوص تھاجس پر وہ گھنٹوں بیٹھ کر باتیں کرتے رہتے۔دونوں جوان اور خوبصورت تھے۔اسی بینچ پربیٹھے بیٹھے نصرین ؔ نے مسکراتے ہوئے اُس سے کہا تھا’’میں تمہاری ہی بنوں گی۔میری زندگی کی گاڑی تمہارے آنگن میں آکر ہی ٹھہرے گی۔‘‘اور ہاتھوں کے لمس سے دونوں کو یہ احساس ہوا تھاکہ وہ ایک دوسرے کے لئے ہی بنے ہیں۔ اعتمادؔماضی کی ان اوٹ پٹانگ حرکتوں پرسوچنے ہی لگا تھا کہ بیرے نے آکر اسے جھنجھوڑ کر کہا۔’’صاحب۔۔۔یہ لڑکیاں اُڑتی تتلیوں کی مانندہوتی ہیں، یہ بمشکل ہاتھ لگتی ہیں۔آپ اس ملاقات کو برا سپنا سمجھ کر بھول جائیں۔دو برس بیت گئے آپ ابھی تک اس کی راہ دیکھ رہے ہیں۔بیرے کی باتیں سن کر اعتماد جھنجھلا سا گیا۔مگر دل ہی دل میںوہ یہ بات مانے کے لئے قطعاََتیار نہیں تھا کہ نصرین نے اسے بے وفائی کی ہے۔ دنیا بہ اُمید قائم ہے کے مصداق وہ جون کے مہینے میں اکثر کیفے میں آکر اس کاانتظار کرتا رہتا تھا۔بیرے نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔’’صاحب۔۔۔آپ دونوں کی ملاقات کہاں ہوئی تھی۔‘‘اس نے بیرے کو بیٹھنے کے لئے اشارہ کیا۔بیرے نے نفی میں سر ہلا کر کہا۔ ’’ناصاحب۔۔میں بیٹھ نہیں سکتا۔ مالک کام سے برخواست کردیں گے۔ہماری ہر حرکت پر نظر رکھتے ہیں۔میں کھڑے کھڑے سن لوں گا۔ اعتماد لمبی سانس لیکر گویا ہوا ’’میں ایک روز نوکری کے لئے فارم بھرنے جارہاتھا وہاں لڑکیوں کی ایک ٹولی میں وہ بھی موجود تھی اور اسے کسی چیز کی ضرورت پڑی تھی۔ بس وہیں پر علیک سلیک ہوگئی اوراس کی خوب صورتی میرے دل کو بھا گئی۔ پھر ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیااور ہم اس کیفے میں آنے لگے‘‘بیرہ دل برداشتہ لہجے میں بولا۔’’صاحب۔۔ان پڑھی لکھی ماڑرن لڑکیوں پرکوئی بھروسہ نہیں ہوتا ہے یہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہیں۔ کہاں پچھلے دور کی وہ سیدھی سادی لڑکیاں۔گائے کی طرح جس کھونٹے سے باندھووہیں ہمیشہ کے لئے سر جھکائے رہتی تھیں۔میری مانو۔ا سے بھول جائو۔کسی سیدھی سادی لڑکی کا انتخاب کرکے بیاہ کرلواور گھر بسا لو۔آپ کی یہ حالت مجھ سے دیکھی نہیں جاتی‘‘۔کافی کی پیالی ٹیبل پر رکھ کر بیرا چلا جاتا ہے اعتمادؔ بیرے کی باتوں پر بڑی سنجیدگی سے غور کرنے لگتاہے تو لفظ گر گٹ بار بار اس کے ذہن کے کینوس پرابھر کر اسے دل برداشتہ کر دیتا ہے کیفے میںاس نے خود بھی محسوس کر لیا تھاکہ موجودہ دور کی لڑکیاں گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی رہتی ہیں۔ اس نے کئیوں کودوست بدلتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ اپنی سوچ کے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے بڑبڑانے لگا۔’’ٹھیک ہے کہ لڑکیاں گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی رہتی ہیں مگر۔۔۔ساری لڑکیاں۔۔نہیں نہیں۔۔۔نصرین بے وفائی نہیں کرسکتی۔ ضرور کوئی مجبوری رہی ہوگی جو وہ اتنے عرصے سے غائب ہے، وہ ضرور آئے گی مجھے پورا اعتماد ہے‘‘۔ ان ہی سوچوں میں گم دن گزر گیا اعتماد دل برداشتہ ہوکرکیفے سے گھر کی جانب چلا۔ٹیبل پر کھانا رکھتے ہوئے ماں اسے اکثر کہتی۔’’بیٹے اب تمہاری نوکری لگ گئی ہے تم بیاہ کیوں نہیں کر لیتے۔‘‘’’ماں میں بیاہ کر لوں گا۔تم پریشان ہو کر اپنی صحت خراب مت کرو۔‘‘’’بیٹے جب میری آنکھیں بند ہوجائیںتب سوچنا۔‘پھر ادھر اُ دھر کی باتیں کرتے۔اعتماد بھلا ماں کو کیسے کہتا کہ وہ کیسی الجھن میں پھنس گیا ہے، جس سے نکلنے کی کوئی صور ت صاف صاف نظر نہیں آتی۔کچھ دنوں کے بعد وہ اسی بینچ پر بیٹھا نصرین کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا کہ بیرے کی نظر اس پر پڑی وہ بھاگتا ہوا اس کے پاس آکر کہنے لگا۔’’صاحب ۔۔کل اسپتال جاتے ہوئے میں نے نصرین دیدی کو دیکھا۔میں نے اس سے صاف صاف کہہ دیاکہ آپ نے صاحب کے ساتھ اچھا برتائو نہیں کیا۔‘‘ اعتماد کے مردہ جسم میں جیسے جان آگئی۔ اس نے بے تابی سے پوچھا۔’’ تم سچ کہہ رہے ہو۔‘‘ہاں صاحب۔۔‘‘’’پھر کیا بولی۔‘‘’’صاحب سن کر شرمندہ ہوئی اور آنکھوں سے چند ایک آنسو بھی نکل آئے۔پھر بپھرائی ہوئی بولی۔’’وہ کیفے میں اکیلا آتا ہے یا۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘ میں نے اسے خوب کھری کھری سنائی۔جی چاہا تھا کہ ایک دو دے ماروں۔پھر غصے پر قابو کرتے ہوئے میں نے کہا ’’صاحب گرگٹ نہیں جو رنگ بدلتا پھرے۔وہ آج بھی تمہاری راہ تک رہا ہے۔‘‘یہ سنتے ہی اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگی۔پھر تھر تھراتی ہوئی بولی۔’’اس سے کہناکہ بیاہ کر لے۔‘‘صاحب اس کی گود میں ایک ننھا پیارا سابچہ بھی تھا۔میں نے پوچھا ۔یہ بچہ کس کا ہے۔دبی زبان سے بولی۔’میرا‘ ۔’’وہ بیاہ کرچکی ہے صاحب‘‘اعتمادؔ پر جیسے بجلی گر پڑی۔وہ حواس باختہ ہوگیا۔بینچ سے اتر کر کھڑے کھڑے سگریٹ کے لمبے لمبے کش لینے لگا۔پھر اچانک اس کی نظریں نصرین ؔ پر پڑیں جو تیز تیز ڈگ بھرتے ہوئے اس کی جانب آرہی تھی۔اعتمادؔ سوچ میں پڑ گیا۔’’یہ بیرا کیا بکواس کر رہا تھا، اس کی گود میں تو کوئی بچہ نہیں ہے۔یہ اب بھی اتنی ہی خوب صورت ہے۔ہم نے ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے کے وعدے کئے ہیںمیں نہیں بھولا ہوں۔‘‘اتنے میں وہ قریب آکر بینچ پر بیٹھ گئی۔اعتماد بھی بلا تامل اس کا ہاتھ پکڑ کر بینچ پر بیٹھ گیا۔بولا۔’’نصرین ۔خیریت تھی۔میں بہت ڈر گیاتھا۔میں تمہارے بتائے ہوئے پتے پر تمہیں ڈھونڈنے آیا تھامگر پتہ چلا کہ تم وہ جگہ چھوڑکر جاچکے ہو۔اتنی بڑی سزا کوئی اپنوں کو دیتاہے۔‘‘’’کہہ چکے‘‘۔ہاتھ چھڑاتے ہوئے بولی۔’’میں شادی شدہ ہو’ں۔۔کیا۔اعتماد کے پائوں تلے زمین کھسکنے لگی۔’’مگر تم نے میرے ساتھ جو وعدے کئے تھے وہ سب سراب تھا۔ ’’نہیں۔تمہارے ساتھ ساتھ میرا افیئرندیم کے ساتھ بھی چل رہا تھا میں نے تہیہ کرلیا تھا کہ جس کا جاب پہلے لگے میں اسی کے ساتھ شادی کروںگی۔وہ انجینئر ہوگیا اور میری شادی اس کے ساتھ ہوگئی۔‘‘یوچیٹ۔ مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی۔میں اب بھی اسی جگہ پر کھڑا ہوںاور وقت میرے لئے جیسے تھم سا گیا ہے‘‘’وہ میرا احمقانہ پن تھا اور مجھے اس کی سزا مل چکی ہے۔‘‘نصرین کی آنکھوں سے آنسوں ٹپکنے لگتے ہیںاپنی قسمت کو کوسنے لگتی ہے۔ من ہی من میں سوچتی ہے۔’’میں کھرے اور کھوٹے میں فرق نہ کر سکی میری بدھی ماری گئی تھی۔پھر ایک دم سے کھڑی ہوجاتی ہے اور دبی زبان میں کہتی ہے۔’’میں پچھتاوے کی آگ میں جھلس رہی ہوں۔ہوسکے تو مجھے معاف کر دینا۔بچہ ہونے کے بعد ندیم نے مجھے طلاق دیدی ہے‘‘۔’’طلاق‘‘! اعتماد کی زبان سے بے ساختہ نکلا۔’’مگر میں گر گٹ نہیں ہوں۔میں نے تو اسے چاہا ہے‘‘اس نے جواب دیا ۔’’نصرین۔‘‘ اُس نے جھٹ سے آواز دی۔ وہ رک کر پیچھے کی جانب مڑھی۔اعتماد اس کے قریب جاکر اسے کہتا ہے گرگٹ۔۔۔۔۔مجھے اپنا پتہ دو۔‘‘اور ان کے چہروں پر ہنسی لوٹ آئی۔
دلنہ بارہمولہ
موبائل نمبر:-9906484847