گاڑیوں کی بھر مار،بازاروں میں رش اور شوروغل صوتی آلودگی کا سبب

اشفاق سعید
سرینگر //موجودہ دور مشینوں کا دور کہلاتا ہے،زمین سے لیکر فضا تک ہر سو شور وغل سنائی دیتا ہے اور یہ صوتی آلودگی انسانی صحت کو اثر انداز کر رہی ہے۔ جموں وکشمیر میں صوتی آلودگی ناپنے کیلئے حکام کے پاس کوئی بھی ٹھوس منصوبہ نہیں ہے اور صرف شکایات ملنے پر ہی کما حقہ کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔فی الوقت جموں وکشمیر میں شور اور آواز کی سطح ناپنے کیلئے صرف 15 ڈسیبل میٹر(Decibel Meter)آلات موجود ہیں ،ان کا استعمال بھی کبھی کبھار ہی کیا جاتا ہے۔ حکام کو جموں وکشمیر کے شہروں میں قریب 100سے زائد آلات نصب کرنے تھے لیکن انسانی صحت پر اثر انداز ہونے والی صورتحال کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔یہی نہیں بلکہ حکام نے جن 40ٹریفک اہلکاروں کو جموں اور سرینگر شہروں میں صوتی آلودگی ناپنے کی تربیت دے رکھی ہے وہ بھی آلات کی عدم دستیابی کے سبب وقت پر کارروائی انجام نہیں دے پاتے ہیں۔ جموں وکشمیر کے شہروں میں بے تحاشا ٹریفک، ہر روز سکولی بچوں، ملازمین اور دیگر لوگوں کا اسی شور میں سفر کرنا، کارخانے ، فیکٹریاں اور انتہائی مصروف بازار اور شاپنگ مال صوتی آلودگی کے بنیادی اسباب ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ بسوں ،آٹو رکھشائوں، گاڑیوںمیں من پسند ہارن لگوا ئے گئے ہیںجبکہ موٹر سائیکلوں کی آوازیں اس قدر شدید ہوتی ہیں، کہ کانوں کے پردے بھی بردازشت نہیں کررہے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ گاڑیوں، موٹر سائیکل شور اور ہارن بجانے سے انسان کی قوت سماعت پر گہرا اثر پڑا ہے اور گزشتہ 10برسوں کے دوران کم سننے والے افراد کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ Decibel Meter ہی وہ آلہ ہے جس سے انسانی سماعت کی برداشت کی سطح ناپی جاسکتی ہے۔ زیرو ڈیسی بل کا مطلب وہ کم سے کم آواز ہے جو انسانی کان محسوس کرسکتے ہیں۔ 20 ڈیسی بل آواز سرگوشی سے پیدا ہوتی ہے، 40 ڈیسی بل آواز کسی پْرسکون دفتر میں ہوسکتی ہے، 60 ڈیسی بل آواز عام گفتگو سے پیدا ہوسکتی ہے، جبکہ 80 ڈیسی بل سے اوپر آواز انسانی سماعت کیلئے تکلیف دہ ہوتی ہے۔ لہٰذا کسی بھی قسم کا شور و غل ہماری قوتِ سماعت پر منفی اثر مرتب کرتا ہے جسے دوسرے الفاظ میںصوتی آلودگی سے تعبیرکیا جاتا ہے۔ سائنسی اعتبار سے انسانی کان عام طور پر شورو غل کی 55 تا 65 ڈیسی بل تک کی آواز ہی سننے کے متحمل ہوسکتے ہیں، اس کے علاوہ اگر 55 تا 90 ڈیسی بل تک پہنچ جائے تو ہمارے جسم پر منفی اثرات پڑنے لگتے ہیں۔محکمہ پولیشن کنٹرول بورڈ حکام نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ صوتی آلودگی ناپنے کیلئے وادی میں 11آلات نصب ہیں جبکہ جموں میں 4ایسے آلات موجود ہیں ۔انہوں نے کہا کہ صوتی آلودگی کو ہر وقت نہیں ناپا جا سکتا ۔انہوں نے کہا کہ جموں اور سرینگر میں 40ٹریفک اہلکاروں کو صوتی آلودگی ناپنے کی تربیت دی گئی ہے، لیکن وہ آلات کے بغیر ہیں۔صدر اسپتال میں ENTشعبے سے وابستہ ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ او پی ڈی میں قوت سماوی سے محروم متاثرین کی تعداد ہر روز بڑھ رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ دس سال پہلے کوئی ایک کیس اس طرح آیا کرتا تھا لیکن اب کیسوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ اوسطاً روزانہ 5 ایسے کیس آتے ہیں۔ شعبہ کے سربراہ ڈاکٹر منظور احمد لٹو نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ انکے پاس باضابطہ طور پر کوئی مصدقہ اعدادوشمار نہیں ہیں لیکن یہ بات اپنی جگہ قائم ہے کہ ایسے کیسوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ڈاکٹر منظور نے مزید کہا کہ عمومی طور پر قوت سماوی سے متاثرین افراد پرائیویٹ کلنکوں کا رخ کرتے ہیں لہٰذا وہ مکمل اعدادوشمار بتانے سے قاصر ہیں۔